غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔11)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کس پردے میں ہےآئینہ پرداز ، اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لب ِ بے سوال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبعلم ایک
تسلیم، “عذر خواہ لب ِ بے سوال” ہے
لیکن یہ عذر کیا ہے جو لب سے بعید ہے؟

طالبعلم دو
ہے یہ کمال ِ فن کہ تجسس بھی ہے بہت
لیکن یہ عذر ِ لنگ بھی حاضر ہے رو برو
“رحمت” کی یہ دعا بھی ہے تہلیل و تراویج
اور انکسار و بندگی بھی ہیں رضا طلب
لیکن ہے پھر بھی یہ دعا الفاظ سے بعید
رحمت ہو مجھ پہ ، میرا لبِ بے سوال ہے

طالبعلم ایک
الفاظ سے بعید ہے، لیکن کمال ہے

طالبعلم دو
یہ عذر خواہ لب کہ ہے ہشیار بھی بہت
اور چاہتا ب بھی ہے کہ وہ تاویل پا سکے
اور جان لے کہ کون سا پردہ ہے در میان
مخفی ہے جس کے پیچھے وہ آئینہء معاد
جو اُس کو “غیر حال” سے آگاہ کر سکے
“فر د ا روی کا تفرقہ” یکدم مٹا سکے

استاد ستیہ پال آنند
“پرداز” بھی کیا لفظ ہے آئینے کی تمہید
یعنی شروع، پہل، خدو خال، چال ڈھال
اُس آئینے کے سامنے جو پردہ دَر نہیں
وہ آئینہ جو عیب چھپاتا بھی ہے، مگر
بے پردگی سے بھی جسے پُرخاش تک نہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

کورس
اللہ، اب نقاب الٹ، آئینہ دکھا
اللہ ، اب نقاب الٹ، ٓئینہ دکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ۔ غالب نےـ’’ عذر خواہ لب ِ بے سوال‘‘ نظیریؔ سے مستعار لیا ہےؔ

(اس نظم میں دو بحور کاشتمال و امتزاج روا رکھا گیا)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا