دیکھنا تقریر کی لذت۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دیکھنا تقریر کی لذت۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/کاغذات کو الٹتے پلٹتے ہوئے 2011 یعنی دس برس پرانی ایک تقریر کا مسودہ جیسے اچھل کر سانبے آ گیا، گویا مجھ سے متقاضی ہو کہ اسے ایک نئی زندگی بخش دی جائے۔ لیجئے صاحب، دیکھیں ہماری تحریر جو در اصل ایک تقریر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن کے سالانہ
مشاعرےکی صدارتی تقریر
دوستو!

اس شہر یعنی واشنگٹن کی ادبی زندگی کیا ہے۔ ۱۹۸۶ میں اس شہر میں آنے سے پہلے یہ سچائی صرف اردو کے حوالے سے ہی پہچانتا تھا۔ لیکن میں تو ایک سے زیادہ زبانوں میں لکھتا ہوں۔ انگریزی شاعروں کی فیڈرل پوئٹس کی ماہانہ نشستوں میں بھی شامل ہوتا ہوں اور وہاں انگریزی کے شاعروں سے ان کی انگریزی شاعری سنتا بھی ہوں اور اپنی نظمیں سناتا بھی ہوں۔ ہندی کے متروں کے ساتھ بھی مل بیٹھتا ہوں اور وہاں کوی گن مجھے سوئیم (خود) سے الگ نہیں سمجھتے۔ یہی حال پنجابی کا ہے۔۔بہر حال اس مختصرتمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس جلسے میں(جوجزوی طور پر میری عزت افزائی کرنے اور مزید جزوی طور پر اردو اور ہندی کے ملے جلے مشاعرے اور کوی سمّیلن سے ہو رہا ہے،) میں آئے ہوئے اتیتھی گن یہ نہ سمجھ لیں کہ میں ایک بھاشا کا ہو کر دوسری کا نہیں ہوں۔میں تو چہار لسانی ہوں ، ارتھات چار بھاشاؤں میں لکھتا ہوں۔۔۔ کیا اچھا دن ہے اور کیسی شبھ گھڑی ہے ! میں آپ سب کو اس کی بدھائی دیتا ہوں۔
مجھے وقت کی پابندی کرنے کے لیے نہ کہا جاتا تو میں توفی البدیہہ تقریر کرنے اور شعر گھڑنے کا ماہر ہوں، لیکن ڈاکٹر ظفر اقبال ایک کائیاں شخص ہیں۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ آنند صاحب آپ سے ایک شکا یت ہے، آپ جب زبانی بولتے ہیں، تو اگر آپ کو کوئی نہ ٹوکے تو آپ مسلسل بولتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے لکھ کر لائیے اور سات آٹھ منٹ سے زیادہ مت بولیے۔ اب ان دو ڈاکٹر صاحبان ، یعنی ظفر اقبال اور ڈاکٹر عبداللہ( جو ڈاکٹر پال صاحب کی طرح کے ڈاکٹر نہیں اور معمولی سر درد کا علاج بھی نہیں کر سکتے، )اگر ان دو مہان ویکتیوں کا ذکر آ ہی گیا ہے، تویہ بھی سن لیجیے۔ میں ۱۹۸۶ کے لگ بھگ اس علاقے میں وارد ہوا۔ مجھے یہ شہر اس شعر کی طرح لگا۔
نکلا تھا میں تلاش میں چہروں کے دیس کی ۔۔۔ اور آ گیا بھٹک کے مکھوٹوں کے شہر میں
بھارت  میں ہندی کے تین دوستوں ، ڈاکٹر کنتل میگھ، رویندر کالیا اور نامور سنگھ نے بھارت چھوڑنے سے پہلے ڈاکٹر شکلا کا نام اور فون نمبر دیا تھا (یہ ۱۹۸۵ کی بات ہے)۔۔۔میں نے انہیں فون کیا۔ وہ میرے نام سے اپریچت نہیں تھے، اس لیے ایک سپتاہ میں ہی انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے کمرے میں کچھ متروں کو مجھ سے ملنے کے لیے بلوا لیا۔ ان میں شاید سروج جوشی تھیں، ڈاکٹر عبداللہ تھے، مدھو مہیشوری تھیں۔ ان سب سے ملاقات ہوئی تو راستہ کھل گیا۔ ایک دو ہفتوں میں ہی ایک آن جہانی دوست کشمیری صاحب کے ہاں میرے اعزاز میں ایک بڑی تقریب ہوئی اور میں سب دوستوں سے مل سکا۔ میں جسے ادبی شہر خموشاں ارتھات قبرستان سمجھا تھا، وہ ایک ادبی گلشن میں بدل گیا۔

ان متروں یعنی ڈاکٹر عبداللہ، دھننجے کماراور مدھو مہیشوری پر تو یہ شعر صادق آتا ہے:

ہم ایسے پیڑ ہیں جو چھاؤں بانٹ کر اپنی

شدید دھوپ میں خود سائے کو ترستے ہیں
اپنے اوران متروں کے دوستانہ تعلقات کو جو اب چوتھائی صدی کی گرمی سردی برداشت کر چکے ہیں، فیض کے اس شعر سے نسبت دیتاہوں: ساری دنیا سے دور ہو جائے ۔ جو ذرا تیرے پاس آ بیٹھے! یہ ان متروں کی انتھک محنت کا کمال ہے کہ اپنے وقت کو بھی اپنا نہیں سمجھتے۔ سب سماجی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ ۔ مرحوم نریش کمار شاد کا ایک قطعہ یاد آ گیا : یوں توہیں بیویاں بہت اچھی: خاوندوں کے دلوں کی ضامن ہیں: لیکن اے دوستو، یہ مت بھولو: بیویاں دوستوں کی دشمن ہیں! اب جو بات میں نے عبداللہ جی کے بارے میں کہی ہے وہ شاید ظفر جی بارے میں بھی سچ ہو اور مدھو مہیشوری جی بارے میں بھی غلط نہ ہو۔ یہاں صرف ایک مشکل یہ آ پڑی ہے کہ مدھو جی کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے نریش کمار شاد کے قطعے میں بیویوں کی جگہ پتی مہودے کو نشانے پر رکھنا ہو گا۔ اور یہ میں نہیں چاہتا، ۔۔۔مدھو جی شاید چاہتی بھی ہوں۔

مترو! اپنے بارے میں کیا کہوں؟ بارہ تیرہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ اکیس برس کی عمر میں پہلا افسانوی مجموعہ چھپ بھی گیا تھا۔ اس کے بعد تابڑ توڑ لکھتا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد ایک طرف بیوہ ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری تھی، تو دوسری طرف اپنی پڑھائی۔ پہلی کمی پارٹ ٹائم جاب کر کے، فرضی ناموں سے جاسوسی ناول لکھ کر، اور اصلی نام سے کہانیاں لکھ کر پوری کرتا رہا۔ اب بھی کبھی خود سے کچھ تھوڑی کم عمر کے دوست ملتے ہیں، تو کہتے ہیں، ہم جب اسکول یا کالج میں پڑھتے تھے، تو آپ کے افسانے پڑھتے تھے۔ ہندی والے کہتے تھے، بھیرو پرساد گپت کی پتریکا  کہانیاں  الہ آباد میں تو آپ نے اپنی بیس پچیس کہانیوں سے دھوم مچا دی تھی۔ آستھا نول کے پتا جی پہلی بار پچھلے برس ملے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ کالج کے زمانے سے میری رچنائیں پڑھتے آ رہے ہیں۔لیکن ہوا کیا؟ ہماری بھاشائیں غریب ہیں، نادار ہیں، فیض جیسے شاعر کا مرنے کے بعد بنک بیلنس تیرہ ہزار روپے تھا۔ میں سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا کی بات نہیں کروں گا۔جن کے اکلوتے لڑکے کو الہ آباد میں رکشا چلاتے ہوئے ہماری مترآستھا نول کے پتا جی نے دیکھا ہے اور ہم سب بھی جانتے ہیں۔ اردو میں ایک مجاز ؔنہیں،درجنوں مجازؔ ہیں جو کسمپرسی کی حالت میں مر گئے۔ منٹو ؔاتنی معرکے کی کہانیاں لکھنے کے بعد جب فوت ہوا تو رکشے میں رکھ کر اسے اسپتال لے جایا گیا اور کسی نے شناخت نہیں کیا کہ یہ اردو کا سب سے بڑا کہانی کار ہے! مجھ جیسے شاعر کو تو یہ کہنا چاہیے:

پرندے آئے، بیٹھے، چہچہائے، اُڑ گئے

میں ہوں ایسی شاخ جو خالی کی خالی رہ گئی

کوی کے طور پر اپنے شخصیت تلاش کرتے ہوئے آدھی صدی بیت گئی لیکن کوئی شکل نہ بن پائی۔ اس ’’ہونے‘‘ کی کہانی یہ شعر ہے

وہ میرا ہی کھویا ہوا جیون تو نہیں ہے

رستے میں، بتاتے ہیں، کوئی چیز پڑی ہے

یہ تو ہونے کی کہانی تھی اب ’’ہونے‘‘ سے ’’بننے ‘‘ تک کی کہانی ایک اور شعر میں بیان کروں گا:

آئے تو زندگی کی کوئی شکل سامنے

اے وقت ،مجھے چاک پر کب تک گھمائے گا؟

جب غزلیں لکھنا چھوڑ کر اردو شاعروں کو یہ تلقین کی کہ اب عجم (ایران) اور عرب سے مانگے کی روشنی میں اجالا مت کرو ، اردو کی کلاسیکی اور نیم کلاسیکی غزل میں فارسی اور عربی سے لی ہوئی جام و مینا، گل و بلبل،معشوق کی دلربائی یا بے وفائی کی امیجری ترک کر کے اپنی نظموں میں آس پاس کی بکھری ہوئی زندگی سے، اپنی دیش ارتھات بھارت کی مائیتھالوجی سے یا اپنے تین ہزار برس لمبے اتہاس سے بنیادی نوعیت کے مضمون تلاش کریں، تو مجھے گالی گلوچ سے نوازا گیا۔ یہاں تک لوگوں نے کہا کہ یہ اردو کا دوست نہیں ہے، دشمن ہے۔

وہ میں ہی تھا جو بھول کر سچ بات کہہ گیا

پیچھے ہے سارا شہر اب پتھر لیے ہوئے

اور اب، جزوی طور پر ارتھات آنشک روپ میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے اردو شاعر میری یہ بات ماننے لگے ہیں اور ہمیں شاعری میں آجکل کے آس پاس کے جیون، اپنے ہی ملک کے پرانے وقتوں کی قصہ کہانیوں کے حوالے ملنے لگے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ہوں۔ اب تو ایسی سچی بات بار بار کہنے کو بھی جی نہیں چاہتا:

میں اک دن بے خیالی میں کہیں سچ بول بیٹھا تھا

میں کوشش کر چکا ہوں منہ کی کڑواہٹ نہیں جاتی

1956 میں ایک ناول لکھا جو ایک دن کی کہانی تھی۔ لدھیانہ شہر کے چوک گھنٹہ گھر کے آس پاس بکھری ہوئی زندگی۔ ناول صبح چھ  بجے شروع ہو کر رات گیارہ بجے ختم ہو جاتا تھا۔ یہ ہندی میں تھا اور ساہتیہ پرکاشن ، مالی واڑہ، دہلی کے مالک نے اس کے لیے مجھے پانچ سو روپے دیے تھے۔ان دنوں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی تھی ، میں کمیونسٹ تو کیا تھا ایک ادنیٰ سا لکھاری ہی تھا، لیکن نہ معلوم پنجاب سرکار کو کیا سوجھی کہ اس نے مجھے کمیونسٹ سمجھا اور ناول پر پابندی لگا دی اور مجھے پکڑنے کے لیے پولیس میرے گھر کے چکر لگاتی رہی۔ میں اپنے سینئر شاعر دوست اور پٹیالہ کے ڈپٹی کمشنر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔآئی اے ایس کے سرکاری بنگلے میں ان کا مہمان رہا اور ان کے ساتھ وہسکی پیتا رہا اور شعر خوانی کرتا رہا۔ پولیس والوں کی ہمت نہیں ہوئی کہ مجھے ڈپٹی کمشنر کے بنگلے سے گرفتار کریں۔ آخر ملاپ کے ایڈیٹر یش جی ، جو ڈپٹی منسٹر بھی تھے کے بیچ بچائو کرنے کے بعد سردار پرتاپ سنگھ کیروں نے ban واپس لے لیا۔اور میں گھر واپس آ گیا۔ یہ ناول، ہندی، پنجابی اور اردو میں کئی ناموں سے چھپا،’’ صبح، دوپہر، شام ‘‘اس کا ایک ٹائٹل تھا۔’’ شہر کا ایک دن ــ‘‘ایک اور ٹائٹل تھا۔ایک اندازے کے مطابق تین زبانوں میں کل ملا کا اس کی بیس ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں۔
دوستو، ایسے کئی اور واقعات ہیں۔ بقول شاعر:

کہاں سے ابتدا ہو، سخت مشکل میں ہوں درویشو

کہانی عمر بھر کی اور جلسہ رات بھر کا ہے

سمندر پار تو مختلف یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر آتا جاتا رہتا ہی تھا، جب ۱۹۸۵ میں مستقل طور پر قیام کے لیے آ گیا ، تو اس کی کہانی صرف ایک مختصر سے شعر میں لکھی۔ شعر یہ تھا۔

کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی

بلایا ہے سمندر پار مجھ کو

آج چوتھائی صدی کے بعد جب کبھی بھارت جانا ہوتا ہے تو پرانے دوست (جو کچھ اب بھی زندہ ہیں) مجھے کہتے ہیں۔ بھائی ، ایک تم ہی ہو، جو دو کشتیوں کے سوار رہ گئے ہو، ورنہ اردو اور ہندی میں ساتھ ساتھ لکھنے والے تو کب کے چل بسے۔ پریم چند وقت رہتے ہی اردو میں کم کم لکھنے لگے تھے۔ اپندر ناتھ اشک نے بھی یہی کیا۔ ہمارے دوستوں میں رویندر کالیہ اور کرشن بلدیو وید نے بھی یہی کیا۔۔۔ کہا دوستوں نے، تم اگر بھارت رہ جاتے، تو اس وقت ایک اکیلے وہ قلمکار ہوتے جس کے نام کا ڈنکا دونوں زبانوں میں بجتا۔ اور پھر سرکاری انعام اور ایوارڈوں کی تو کوئی کمی ہی نہیں تھی۔ اب وہاں رہنے والوں کو کون پوچھتا ہے، آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل والی بات ہے۔ کچھ برس پہلے جب پنجاب سرکار نے پنجابی ساہتیہ کار ہونے کے ناطے سے مجھے پنجاب کا سب سے بڑا سنمان ’’شرومَنی ساہیتہ کار‘‘ دیا، تو بھی میرے پرشنسا پتر میں اس بات کی چرچا تھی، کہ میں۔۔۔and I quote
’’پنجابی کا ایک اکیلا وہ ساہتیہ کار ہے، جو دیس سے دور رہ کر بھی ساہتیہ سیوا میں مگن رہتا ہے، اور جسے انعام ، اکرام کی کوئی پروا نہیں۔‘‘
تب میں نے اسی شام کوی سمیلن (پنجابی میں کوی دربار کہا جاتا ہے) میں اپنی پنجابی غزل کا یہ شعر پڑھا،

پہلوں مینوں دیواراں وچ چُنوا دتا

پھر میرے ناں تے ماڑی دا ناں رکھ دتا

(پہلے تو مجھے دیوار میں چُنوا دیا اور پھر میرے نام پر اس عمارت کا نام رکھ دیا )

میں اب بوڑھا ہوں۔ میری پتنی کا دیہانت ہو چکا ہے۔ اکیلا رہتا ہوں۔ کوئی ملنے آ جائے، یا کسی دوست کا فون آ جائے تو جیسے عید ہو جاتی ہے۔ ورنہ والی ؔعاصی کے الفاظ میں یہی کہہ سکتا ہوں

ہم فقیروں سے جو چاہے دعا لے جائے

پھر خدا جانے کدھر ہم کو ہوا لے جائے

اپنے گھر آنے والے دوست کو جاتے ہوئے کبھی خالی ہاتھ نہیں جانے دیتا۔ کچھ نہ کچھ، مٹھائی،پھل، بیکڈ کیک یا پیسٹری، (جو مجھے خود بہت بھاتے ہیں)، اور نہیں تو وائن کی ایک بوتل ساتھ لے جانے پر ضد کرتا ہوں۔ فارسی میں کیا خوب کہا گیا ہے۔

برگ ِ سبز است تحفہ ٔ درویش

درویش کا تحفہ ایک سبز پتے کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے؟۔ گھر بھی میرا کیا ہے، ایک حجرہ سا ہے جس میں کتابیں ہی کتابیں بکھری رہتی ہیں۔ تختی پر کوئی نام نہیں ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے میرے دوست گواہی دیں گے کہ پہلی  بار آنا اور پورا پتہ لکھا ہونے کے باوجود بھی میرے گھر کو ڈھونڈھ لینا مشکل ہے۔ انہیں کیا بتاؤں کہ باہر سے آتے ہوئے کیا، میں تو

کیا ٹھکانہ ہے اس مسافر کا گھر میں جو اپنے گھر کو ڈھونڈتے آئے

میرے ایک دوست تھے کرشنؔ ادیب۔ نداؔ فاضلی نے، جو عمر میں ہم سے چھوٹے ہیں، ایک کتاب میں انہی دنوں ان کا ایک خاکہ لکھا ہے۔ ان کا ایک شعر یا د آ رہا ہے:

آج بیٹھے تک رہے ہیں عمر کا خالی گلاس

موسموں کا میکدہ یہ کس نے سونا کر دیا

مڑ کر دیکھتا ہوں کہ میں نے کیا کھویا، کیا پایا، تو دو سطریں یاد آتی ہیں:۔

جاتی ہے دھوپ اپنے پروں کو سمیٹ کر

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر میں لیٹ کر

اور بستر پر لیٹنے کاارتھ اگر یہی ہے، جو اس وقت میں محسوس کرتا ہوں،  تو یہ شعر بھی سن لیں:

چند سطریں حاشیے کی رہ گئی ہیں

ختم کب کی ہو چکی ہے یہ کتابِ زندگی

بہت سے شعر آپ کو سنا لیے۔ اب اگروقت ہوتا اور آپ کو اپنی نظمیں بھی سناتا  تو آپ کو احساس ہوتا، کہ گل و بلبل، لب و رخسار، جام ، مینا کی شاعری کے عین برعکس میرے موضوعات اور مضامین آسمان کے نہیں، زمین کے ہیں۔ شعر سنیے:

یہ بات الگ ہے کہ تھی عرش تک اڑان مری

مگر زمین کو پوجا ہے میں نے ماں کی طرح

میں آنے والے دنوں کو نہیں گنتا۔ اب تو اداسی اور تنہائی کا یہ حال ہے کہ

اداس چھت، در و دیوار چپ، فضا خاموش

کتابیں بھی نہ ہوں تو کاٹ کھائے تنہائی

ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ میں نے نظم کو کیا دیا، افسانہ نویسی میں کون سی نئی بات کی، اس کا پتہ آنے والی پیڑھیوں کو کیسے لگے گا۔

سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں

دھوپ میں جل بھی گئے پیڑ اگانے والے
اور اب آٹھ منٹ پورے ہو چکے ہیں: اپنا ہی ایک شعر پڑھ کر یہ داستان ختم کرتا ہوں:

Advertisements
julia rana solicitors

۰یہ راتیں، یہ باتیں، یہ برساتیں اکثر ستائیں گی آ آ کے تنہائیوں میں
کوئی دن ٹھہر جاؤ، ڈھونڈا کرو گے ہمیں تم خیالوں کی پرچھائیوں میں!
ستیہ پال آنند
10-6-2011
غیر مطبوعہ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply