ڈکار

ہماری تمام اُردو لغتوں کے مطابق ”ڈکرانے“ اور ”ڈکارنے“ کا آپس میں کسی بھی قسم کا کوئی خاندانی رشتہ نہیں ہے۔ڈکار وں کی کئی ایک شکلیں ہیں مگر دو زیادہ معروف ہیں بدبودار اور بے بُودار۔ سائنس کی وہ تھیوریاں جو اب بوڑھی ہو چکی ہیں،ہمارے ابتدائی نصابوں میں آج بھی زور و شور سے پڑھائی جاتی ہیں۔سائنس کے عین مطابق چیزیں دو طرح کی ہیں ایک جاندار اور دوسری بے جاندار۔بے جان اشیاء ساکت و جامد رہتے ہوئے زیادہ خوش ہیں جب تک کوئی حرکت نہ دے وہ خود کوئی فالتو حرکت نہیں کرتیں۔جاندار ا شیاء کی موٹی موٹی صفات میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ عمل اخراج کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں۔سائنس کا ایمان ہے کہ پودے بھی جاندار ہیں او روہ دن کو آکسیجن جبکہ رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔حالانکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جانوروں اور انسانوں کے لیے سخت خطرناک ہے۔

بقول سارے سائنسدانوں کے جانور اور انسان (اگر وہ جھوٹ نہیں بول رہے تو ) آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔عمل اخراج، عمل تغذیہ (خوراک،کھانا) کا ردعمل ہے۔یہ دونوں عوامل ہر جاندار کرتا ہے اور خوب ڈٹ کر کرتا ہے۔عمل تغذیہ کا صرف ایک طریقہ ہے جبکہ عمل اخراج زیادہ طریقوں سے ممکن ہے ویسے یہ کوئی عجب بات نہیں۔یہ سارے طریقے اللہ نے بنائے ہیں کسی انسان کے بَس کا روگ ہرگز نہیں ہے۔بھاری بھر کم خوراک جب پیٹ میں گُم سُم ہو جاتی ہے تو جواباً اور شرارتاً ہُوا نما شے مُنہ کے راستے ہاک اور گاک کی آوازوں کے ساتھ باہر دوڑتی ہے۔ہوا کا یوں زور سے نکلنا ڈکار مارنا کہلاتا ہے۔”ڈکار مارنا“ اُردو کا محاورہ بھی ہے۔اگر کوئی ڈھیر ساری زمین،پیسہ،دھن دولت یہاں تک کہ بہت سے مُلک تک بھی ہڑپ جائے اور بَس ذراسی دقت کے بعد چلتا پھر تا نظر آئے تو اِسے سب کچھ ڈکارنا کہتے ہیں۔ہاضمہ تگڑا ہو یا کمزور دونوں صورتوں میں ڈکار نہیں رُکتے۔خوشبودار ڈکار آج تک نہ سُنے نہ ہی دیکھے گئے ہیں۔

البتہ بدبُودار ڈکار بھر ی محفل میں ہو جائیں تو اہل محفل ناراض ہو جاتے ہیں۔بدتہذیب،گنوار تک کے فتوئے دے سکتے ہیں۔بدبُودار ڈکار خراب خوراک او ر شدید بدہضمی کا نتیجہ ہوتے ہیں او ر یہ بات ہر ماہر ڈاکٹر آج بھی مُفت بتانے کو تیار ہے۔گند ی خوراک جب پیٹ میں فساد فی سبیل اللہ پھیلانے کی کوشش کرتی ہے تو پیٹ میں اُٹھنے والے مروڑ وں کو ڈکاروں کے ذریعے اعتدال پہ لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔پڑوسی مُلک یعنی بھارتی پنجاب میں پیٹ کے تمام وقتی ابھاروں کو رفع کرنے کا طریقہ دُنیا بھر سے نرالا بلکہ بہت ہی نرالا ہے۔وہاں ہر طرح کے مروڑوں کو رفع کرنے کے لیے بڑے بڑے اکھاڑے سجائے جاتے ہیں۔ بھر ی اوربھاری محفلوں میں تمام مِتر اپنی اپنی باری پہ مروڑوں کو رفع کرتے ہیں۔ٹُھس ٹھس اور پھر پھُس پُھس سے چاروں جوانب بدبُو کاراج ہو جاتا ہے۔

مگر مجال کسی کے چہرے پہ شکن تک آجائے۔تماش بین اس بدبو کو کبھی بد بُو خیال ہی نہیں کرتے۔یہ رواج ہے اور ہنسی خوشی اس کا پالن ہوتاہے۔عمل تغذیہ ہو یا عمل اخراج ہر جگہ اپنے اپنے رواجوں کے پابند ہیں۔ڈکاروں کو روکنے کیلئے ہزاروں نُسخے بازاروں میں موجود ہیں مگر ڈکار ہیں کے رُکتے ہی نہیں۔ڈکار مارنے پہ کسی ماحولیاتی یا عالمی ادارے نے آج تک پابندی نہیں لگائی یہ اچھی بات ہے۔ہاں بھارت میں ماحولیاتی اداروں نے خبردار کیا تھا کہ گاؤ شالاؤں میں ماتاؤں کے کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑنے سے بھارتی فضاء آلودہ ہو رہی ہے۔

ہر امیر غریب،ادنی ٰ و اعلی ٰ آج تک ڈکار مارنے سے نہ بچا ہو گا۔ہاں بدبودار ڈکار جو کسی بھی بدہضمی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں، سے اُلجھن ضرور ہو تی ہے۔ماحول کُچھ دیر کے لیے مُتعفن ہو جاتا ہے۔رہی ڈکرانے کی بات تو بیل بھینسے آج تک اس فن میں یکتارہے ہیں۔ڈکرانا سراسر جانورانہ خُوبی ہے اور ضرور بہ ضرور غیر معمولی ہے۔جانور دو غرض سے ہی ڈکراتے ہیں ایک تو جب اُنہیں کسی قسم کی بھوک،پیاس ستا تی ہے۔دوسر ا بعض مُنہ زور اور طاقتور جانور ڈکرا ڈکرا کر اپنی سُپر پاوری دکھانے کے عادی ہوتے ہیں۔خاص طور سے مینڈھے شینڈھے،بھینسے،بیل اَکھاڑوں میں پہلے ڈکراتے ہیں پھر ٹکراتے ہیں۔جم کے ٹکرانے میں بھینسے شہرت رکھتے ہیں سُنا ہے افریقاً گینڈے بھی کچھ کم نہیں ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مودی جی اور ٹریمپ صاب باہم گلے ملے اورسرعام ملے بلکہ ایک نہیں پورے دو بار ملے۔ٹریمپ صاب نے ہمارے صلاح بھائی جو بالکل صلاح اُلدین ایوبی ثانی ہیں،کو خوامخواہ عالمی دہشت گرد قرار دیا۔حالانکہ اس سے قبل صلاح الدین ِوقت، کو صرف کشمیر ی حُریت پسند ماننے اور جاننے میں کسی کو کبھی اعتراض نہ ہوا تھا ۔ہاں صرف و صرف ایک بار کُچھ شرارتی اور بالکل فالتو قسم کے لوگوں نے پٹھان کوٹ ائر بیس پہ حملہ کر دیا اور اس وجہ سے اُدھر کی ساری مسلح فوج ۰۴،۰۵ گھنٹے اِ ن کاونٹر کرتی رہی،تب جا کر سب کی نیند حلال ہوئی۔صلاح بھائی کو ایسے ہی شک ہوا کہ شاید اُن کا کوئی بندہ اس لفڑے میں آگیا ہے۔یوں اُنہوں نے غلط فہمی میں صرف اتنا ہی کہا ”یہ ہم تھے“۔ٹریمپ صاب اَکھاڑے کے آدمی میں جاپھیاں پالنا اُن کا پرانا مشغلہ ہے۔پہلوان ہیں،فربہ اور ترو تازہ بھی۔خوب جانتے ہیں کہ کھانے پینے میں ذرا سی بے احتیاتی سخت قسم کی بدہضمی کردیتی ہے۔خُوش ہضمی بھی ڈکارنے پہ مجبور کرتی ہے تو بدہضمی روکنا خاصہ مشکل کام ہے۔ سوٹر یمپ بھائی اک چھوٹی سی ڈکار ولی (ڈکار کی تصغیر) پہ اتنا تلملانے کی کیا ضرورت تھی۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply