• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) علاقائی ثقافتی رنگوں کی قوس و قزح کہانی کے آئینہ خانے میں/سلمیٰ اعوان(قسط10-الف)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) علاقائی ثقافتی رنگوں کی قوس و قزح کہانی کے آئینہ خانے میں/سلمیٰ اعوان(قسط10-الف)

گزشتہ اقساط کا لنک

یُورمس اگر شنا زبان کے نامور شاعر رحمت جان ملنگ کی محبوبہ تھی تو تاجور خان میرا محبوب تھا۔ یورمس کا چہرہ چاند کی کرنوں جیسا تھا تو تاجور خان کی پیشانی میں سے آفتاب پھوٹتا تھا۔
میں اپنی انگنائی میں سیب کے پیڑ پر چڑھی ہوئی انگور کی بیلوں سے خورستانی انگوروں کا گچھا اتارتی ‘پاؤں کی ایڑیوں سے زمین بجاتی ‘گچھے کو ہاتھ میں پکڑ کر اپنا چہرہ ہندو کش پہاڑوں کی بانہوں میں سمٹے نیلے شفاف آسمان کی طرف کرتی‘ منہ کھولتی اور اوپر اٹھے ہوئے ہاتھ سے خورستانی انگروں کا دانہ دانہ کھاتے کھاتے اپنے آپ سے کہتی۔
‘‘ملنگ تم یوُرمس کے لئے اپنی ٹوپی میں سرخ گلاب لگاتے تھے اور میں اپنے تاجور خان کے لئے آفتاب رنگی اوڑھنی اوڑھتی ہوں۔ پر ایک بات ہے تم جب آنکھیں بند کرتے ہو  گے تو یورمس کے حقیقی پیکر کے کتنے رنگین جلوے تمہاری ذہنی سطح پر تھر تھراتے ہوں گے۔ لیکن میرے پاس اپنے خیالی محبوب کے صرف خیالی پیکر ہیں۔
یہ پیکرکبھی حقیقت کا بھی روپ دھاریں گے یا نہیں میں نہیں جانتی۔ پر ایک دعا بھی ہے کہ تمہاری طرح میری محبت المیے کا شکار نہ ہو کہ تم نے اپنے جذبات کو شاعری میں ڈھال لیا لیکن میں کیا کروں گی؟ ہاں کبھی کبھی میں سوچتی ہوں۔ تم نے مجھے نہیں دیکھا۔ اگر دیکھ لیتے تو اپنی یورمس کو بھول جاتے۔
میں نے سوئزر لینڈ نہیں دیکھا لیکن وہ مووی میں نے کوئی دس بار دیکھی ہے جو میرا چھوٹا بھائی وہاں کے حسین نظاروں پر بنا کر لایا ہے۔ میں یقینا ً دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ میری وادی پنیال کے سامنے وہاں کی خوبصورتیاں ہیچ ہیں۔

ہم آٹھ بہن بھائی تھے۔ لیکن عجیب بات تھی کہ بھرے پُرے شور شرابے والے اس گھر میں مَیں اور میرا بڑا بھائی یامین عباس ہی سب سے الگ تھلگ اور مختلف تھے۔ یامین نہایت ذہین‘ ضدی ‘سرکش اور روایات سے ٹکرانے والا لڑکا تھا۔ کچھ ایسی ہی عادت میری بھی تھیں۔ ہم تب گلاپور میں رہتے تھے۔ یامین کا معمول تھا کہ وہ جو کچھ اسکول سے پڑھ کر آتا مجھے سناتا بھی اور سمجھاتا بھی۔ وہ اپنے ایک استاد دولت شاہ سے بہت متاثر تھا۔ اکثر اس کی باتیں کرتا۔ یہ دولت شاہ تھا جس نے اس کے دل میں عزت نفس کا احساس پیدا کیا۔ اپنے استاد کی طرح یامین کو بھی بچپن سے ہی راجگی نظام سے نفرت تھی جو ہمارے علاقے میں مسلط تھا۔

اس دن ابھی شام نہیں ڈھلی تھی۔ بابو (باپ) تھو داس (وادی یاسین کا گاؤں) اپنی بہن کے پاس گیا ہوا تھا اور میں تھرنگی (بکری کے چمڑے کا مشکیزہ جس میں دودھ بلویا جاتا ہے) میں ہفتہ بھر سے سیب کے پتے بھر بھر کر اسے کوٹتی رہی تھی اس وقت اس کی مہندی رنگی کھال کو یہ جاننے کے لیے سونگھ رہی تھی کہ اس کی بُو ختم ہو گئی ہے یا نہیں۔ جب یامین گھر میں داخل ہوا تھا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور آنکھیں لال بوٹی ہو رہی تھیں۔ میں تھرنگی چھوڑ کر اس طرف بھاگی۔ وہ بیٹھ گیا۔ میں نے بے چینی اور اضطراب سے کہا۔
گاکو (بھائی کو جب پکارا جائے) تمہیں کیا ہوا ہے؟ کسی سے جھگڑ کر آئے ہو۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟
اس نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ مجھے اور مان (ماں) کو دیکھا۔ ہماری تشویش کو محسوس کیا اور دھیرے سے بولا۔
پُنیال میں را جہ کے خلاف زبردست احتجاج ہوا ہے۔ لوگوں پر گولی چلی ہے۔ آٹھ افراد شہید ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں امیر حمزہ کا باپ بھی ہے۔ امیر حمزہ یامین کا دوست اور ہمارا رشتہ دار تھا۔ را جہ کے لوگ تحریک کے لیڈر منشی سخی غلام کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔
مان (ماں) نے سینے پر دو ہتڑ مار کر کہا
‘‘یامین تیرے باپ کی خیر نہیں۔ وہ آج تیری پھوپھی سے ملنے گیا ہے’’۔

یہ وہ پہلا واقعہ تھا جس نے یامین کی سوچوں میں بغاوت پیدا کی۔ راجگی نظام سے اس کی نفرت میں شدت نمایاں ہوئی۔
ان دنوں جب درجہ حرارت منفی اعشاریہ صفر سینٹی گریڈ سے بھی نیچے ہوتا۔ وہ کمرے کے عین وسط میں بنے چولہے میں جلتی کائل کی لکڑیوں کے شعلوں کو گھورتے ہوئے دکھ بھر لہجے میں مجھ سے کہتا۔
‘‘میں بہت بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں۔ لیکن بڑا بن کر چھوٹوں میں رہنے کا خواہش مند ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی آخر ایک طاقتور آدمی اتنے ڈھیر سارے بے کس و مجبور لوگوں پر محض اپنے مفاد کے لئے کیوں ظلم کرتا ہے؟ ایسا کب تک ہوتا رہے گا’’؟
پھر وہ اپنا افسردہ اور مضطرب چہرہ اوپر اٹھا کر اُس چھوٹے سے سوارخ جو ہمارے گھر کی چھتوں میں روشنی اور دھوئیں کی آمدورفت کے لئے بنائے جاتے ہیں سے آسمان کو دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتا۔
‘‘ایخدا (اے اللہ) انہیں تیرا بھی ڈر نہیں۔’’
گو میں اس سے دو سال چھوٹی تھی لیکن اس کے باوجود اس کی سب باتیں سمجھتی اور کبھی کبھی جزبز ہو کر یہ ضرور کہتی
‘‘اتنا مت سوچا کرو۔’’

پنیال کے مڈل سکول سے جب اس نے آٹھویں کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تب تک اس کی اردو میں لکھی ہوئی کم و بیش سبھی کتابوں کو میں پڑھ بیٹھی تھی۔ انگریزی بھی تھوڑی تھوڑی جان گئی تھی۔
ہم ان دونوں سنگل میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ یہ پنیال کی مرکزی وادی ہے۔ یہاں بیشتر آبادی اسماعیلیوں کی ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین انگور اور شراب دونوں کی کل بھی بہتات تھی اور آج بھی ہے۔ ہم نے شراب کشید کرنے اور بیچنے کا کام شروع کر لیا تھا۔
ایک دن بابو (باپ) کے لئے را جہ پنیال کا پیغام آیا۔ اسے حاضر خدمت ہونے کے لئے کہا گیا تھا۔ بابو جب ملاقات کے لئے گیا اس وقت میں ‘یامین اور دوسرے بہن بھائی صحن میں بیٹھے کمسریٹی گندم کو صاف کر رہے تھے جس کا بابو نے کھیت میں بیج ڈالنا تھا۔
کل ڈیڑھ بیگھ زمین جس پر سال کے سات مہینوں میں ہم زیادہ سے زیادہ فصل اگانے کی کوشش میں کولہو کے بیل بنے رہتے۔ لگان ‘مالیہ را جہ کے نذرانے اور دس افراد پر مشتمل خاندان کی کفالت۔ بابو حالات سے مردانہ وار لڑے جاتا تھا۔ پریا مین دل گرفتہ تھا۔ اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ حالات کے اس بدترین پہلو کو کیسے اور کیونکر پلٹا دے دے۔
تبھی بابو تھکے تھکے قدموں سے ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔ یامین نے اُس کا اترا ہوا چہرہ دیکھا اور کہا۔
‘‘بابو را جہ نے کہیں اپنے محل کی پہرہ داری کے لئے تیری ڈیوٹی تو نہیں لگادی’’۔
بابو کے چہر ے کی طرح اس کی آواز بھی تھکی تھکی تھی۔
‘‘راجہ پنیال نہیں چاہتا تم پڑھنے کے لئے گلگت جاؤ۔

یامین نے ایک پل کے لئے حیرت سے بابو کو دیکھا۔ وہ کھڑا ہوا پر لڑکھڑایا یوں جیسے بصرہ کھیلتے ہوئے لڑکوں کا کبھی کبھی توازن برقرار نہیں رہتا۔ پھر جیسے برفانی چیتے کی مانند اچھلا اور جب اس کے منہ سے غلیظ گالیاں نکل رہی تھیں۔ ہمارے چھوٹے سے گھر کی فضا پر موت کا سناٹا طاری تھا۔ ہم سب بہن بھائی دم سادھے بیٹھے تھے۔ یامین کی آواز کی گھن گرج شیر قلعہ کے پہاڑی نالے جیسی تندو تیز تھی۔ اس کا چہرہ چنار کے پھولوں جیسا سرخ تھا۔
مان نے سہم کر اس کے لبوں پر ہاتھ رکھنا چاہا کہ اردگرد کوئی سن نہ لے۔ راجہ کی عداوت مول لینے کا مطلب گویا خاندان کو پن چکی میں پسوانے والی بات تھی۔ بابو (باپ) بیرونی دروازے کو تالہ لگانے دوڑا۔
لیکن بابو کا لگایا ہوا وہ مضبوط تالہ شام کو ٹوٹ کر دور جاگرا تھا اور وہ کندھے پر ایک چھوٹے سے تھیلے کے ساتھ بگولے کی مانند دروازے سے نکل گیا تھا۔
اس وقت میری آنکھوں میں آنسو اُمنڈے تھے جب اس نے میرے ہاتھ کے کڑھے ہوئے تھیلے میں اپنا ایک جوڑا کپڑوں کا اور چند کتابیں ڈالی تھیں۔ ا س نے رخ پھیر کر مجھے دیکھا۔ میری آنکھوں میں چمکتے آنسو بھی اسے نظر آئے تھے‘ تب اس نے میرے سر پر چپت مارتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘یامین کی بہن کوبہت دلیر ہونا چاہیے۔ آنسو بُزدلی کی علامت ہیں’’۔
بس تو میرے امنڈے ہوئے آنسو میری گھنی سیاہ پلکوں میں یوں اٹک گئے تھے جیسے برفانی چوٹیوں سے نیچے کی طرف پھسلتے برف کے ٹکڑے اچانک سرد ہواؤں کے چلنے سے وہیں کہیں ٹھہر جائیں۔
میں نے سر کو پشت کی طرف پھینکا اور آنسوؤں کو واپس آنکھوں میں لا کر انہیں جذب کرنا چاہا۔ پتہ نہیں میرے اندر نے کیوں یہ سرگوشی کی تھی کہ یہ آنسو اگر بہہ گئے تو یامین اپنی جدوجہد میں ہار جائے گا۔

وہ چھ ماہ گلگت میں رہا۔ دن کو سکول جاتا اور رات کو گھروں سے روٹیاں مانگتا۔ چھ ماہ بعد وہ کراچی چلا گیا۔

راجہ پنیال نے بابو پر بہت دباؤ ڈالا کہ وہ کسی طرح بیٹے کو واپس بلائے۔ یامین جیسے دلیر اور ذہین لڑکے سے اس کے اقتدار کو غالباً خطرہ تھا۔ را جہ یہ کب برداشت کر سکتا تھا کہ میرے بابو جیسے غریب کسان کا بیٹا پڑھ لکھ کر کسی اونچی جگہ بیٹھ جائے۔ جرگے کے ممبروں نے گلگت تک تعاقب کیا۔ لیکن وہ تھا کب ،جو اُن کے ہاتھ آتا۔

جب خوبانی کے پیڑوں پر شگوفے کھلتے۔ جب چیری کی سبز شاخوں پر عنابی پھل لشکارے مارتا۔ جب انگوروں کی بیلوں سے اترے ہوئے ‘‘گچوچی’’ انگوروں کے ٹوکرے اٹھا اٹھا کر شراب بنانے والی ہوزری میں ڈالتی۔ جب نو روز کے تہوار کی گہماگمی شروع ہوتی۔ جب میں پنوشا (گونگلو ساگ) پکاتی۔ جب میرا دل کچھ پڑھنے کو چاہتا اور مجھے کچھ نہ ملتا‘ تب میں اُسے یاد کرتی اور میری آنکھیں اس کے لئے آنسو بہاتیں جو میرا بھائی تھا۔ میرا دوست اور میرا ہم راز تھا۔ بس تو ایسے ہی چار سال گزر گئے۔ چار سال جو انگوروں کے ترش دانوں جیسے تھے۔ جنہوں نے ہماری آنکھوں کو سر کے کا تحفہ دیا تھا۔
اور جس دن ہم لوگ شیشو گوٹ کا تہوار منا رہے تھے۔ شام کی ٹھنڈی ‘خوشگوار ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں اور بابو شرک (روغنی روٹیاں) لئے اپنے جَو کے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔ تقریباً سبھی گھروں کے بزرگ اور ان کے بچے رنگ برنگے کپڑوں میں ہنستے کھیلتے آگے پیچھے کھیتوں کی طرف رواں دواں تھے۔ میرے بہن بھائیوں نے بھی اودھم مچا رکھا تھا۔
رواج کے مطابق بابو اپنے کھیت کے ایک کونے میں قبلہ رُو ہو کر دعائیں پڑھنے لگا۔ میری نظریں دور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ مجھے یامین یاد آیا تھا اور میں نے کہا تھا۔
‘‘پروردگار کیا ایسا نہیں ہو سکتا آج میں یامین کی صورت دیکھوں یا اس کی طرف سے کوئی سندیسہ پاؤں’’۔
یقیناً وہ دعاؤں کی قبولیت کا وقت تھا۔
دعائیں پڑھنے کے بعد بابو نے جو کی پکی فصل کے چند خوشے توڑے اور دو روغنی روٹیاں وہاں رکھیں۔ جب وہ کھیت سے باہر آیا میں نے دیکھا تھا وہ کچھ افسردہ سا تھا۔ اس نے میرے قریب آکر کہا۔’’
میں نے اللہ سے کہا ہے وہ مجھے یامین کی خیر خبر دے۔

تب وہاں خوب ہلا گُلّاہوا۔ ایک دوسر ے کے کھانوں کو چکھا گیا۔ ہنسی مذاق ہوا۔ گھر آکر دودھ کی پیالیوں میں ان خوشوں سے چار چار پانچ پانچ دانے نکال کر ڈالے گئے جنہیں ہم کھیتوں سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ پیالیاں بابو اور مان کے ہاتھوں میں تھما کر میں نے ابھی رخ سیدھا کیا ہی تھا۔ جب ایک دراز قامت نازک اندام درمیانی عمر کا مرد جس کی نیلی آنکھوں میں بڑا ٹھہراؤ اور بڑی گہرائی تھی ہمارے گھر کے سامنے اپنے گھوڑے سے اترا۔

وہ پھمانی سے آیا تھا جو پنیال کی آخری وادی ہے۔ درمیانے سائز کا ایک بند پیکٹ اور ڈیڑھ سو روپیہ آنے والے نے بابو کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس کے بیٹے یامین نے میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ بھیجے ہیں۔ یامین اس کے کراچی میں مقیم بھتیجے تاجور خان کا دوست ہے۔’’

بابو اور مان کا اگر بس چلتا تو یقیناً وہ اپنی کھال اتار کر اس کے قدموں تلے بچھا دیتے۔ ایک تو وہ ان کے لئے وہ پھوار بن کر آیا تھا جس نے ان کے دکھوں کی آگ میں جلتے جسم و روح کو ٹھنڈک اور سکون بخشا تھا۔ دوسرے آنے والا ‘‘رونو’’ قبیلے کا ایک معزز فرد تھا۔ رونو قبائل کے لوگوں کا باپ کی طرف سے تعلق شاہی خاندان سے بتایا جاتا ہے۔ اسی لئے وہ معاشرے میں بہت محترم خیال کئے جاتے ہیں۔ اس نے چھوٹے کوٹ پردیسی پٹو سے بنی ہوئی فرغل اور بند پائینچوں کی شلوار پہن رکھی تھی۔

ہمارا جی چاہتا تھا کہ اس پیکٹ کو پھاڑ کر دیکھ لیں کہ یامین نے کیا بھیجا ہے؟ لیکن ایک معزز مہمان کا رعب مانع تھا۔ اس کی خاطر مکھن والی نمکین چائے اور اُس تازہ چھپٹی (کیک نما روٹی) سے کی گئی جو میں نے ابھی ایک دن پہلے بنائی تھی۔

اس کے گھر سے نکلنے کی دیر تھی جب ہم پیکٹ پر یوں جھپٹے جیسے جنگلی بلی سیاہ خرگوش کو شکار کرنے کے لئے اس پر جھپٹتی ہے۔ پیکٹ گویا تحائف کا پٹارہ تھا۔ گھر کے ہر فرد کے لئے کوئی نہ کوئی چیز تھی۔ میرے لئے دس کہانیوں کی کتابوں کا سیٹ اُس زمرد کی طرح تھا جو بھیڑ بکریاں چراتے کسی چرواہے کو اچانک پہاڑ کی کسی کھوہ سے مل جائے اور وہ پلکیں جھپک جھپک کر دیکھے کہ یہ خواب تو نہیں۔

پیکٹ میں سے خط بھی نکلا تھا۔ یامین کے ہاتھوں کا لکھا ہوا جسے مان اور بابو نے کوئی دس بار چوما ہو گا۔ پندرہ بار کلیجے سے لگایا ہو گا۔ میں نے خط پڑھ کر انہیں سنایا اور پہلی بار مان کو احساس ہوا تھا کہ یامین نے مجھے لکھنا پڑھنا سکھا کر کتنا بڑا کام کیا تھا۔ وگرنہ اس ٹھٹھرتی شام میں وہ غلام رسول کے گھر جاتی جو وادی کے آخری سرے پر تھا۔

یامین کا خط آدھے سے زیادہ تاجور خان کے ذکر سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اس کا ممنون تھا جس نے اس اجنبی شہر میں اس سے محبت بھرا سلوک کیا تھا۔ بابو اور مان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ یامین ایف اے کی تیاری کر رہا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا ۔اس کے خط میں اچھے دنوں کی آمد کا پیغام تھا۔

خط میں نے تؤن(لکڑی کا بڑا صندوق جس میں گندم رکھی جاتی ہے)میں رکھ دیا۔ سونے تک کے وقفے میں چھوٹے بہن بھائیوں نے کوئی دس بار مجھ سے ڈانٹ کھائی ہو گی۔ کیونکہ وہ ہیر پھیر کر کتابیں دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

پھر میں نے کتابیں اپنے پہلو میں رکھیں۔ رضائی سے انہیں بھی یوں اچھی طرح ڈھانپا جیسے کوئی زچّہ اپنے نومولود بچے کو سردی سے بچانے کے لئے مری جاتی ہے۔

یہ وہ پہلی رات تھی جس میں تاجدار خان میرے خوابوں کے افق پر روشن ستارے کی مانند طلوع ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی چمک دمک میں اضافہ ہوتا گیا۔ یامین کے کبھی کبھار کسی کے ہاتھ بھیجے گئے خط میں تاجدار خان کی محبت اور خلوص کی خوشبو مشک نافہ کی طرح مجھے مدہوش کر دیتی۔ ماہ و سال کے یہی وہ دن تھے۔ جب میں نے رحمت جان ملنگ کی شاعری کو سمجھا’ اس کے درد کو جانا۔ اپنا اور یورمس کا مقابلہ کیا۔
شنا شاعری کو سمجھنے میں میرے بابو نے بھی بہت ساتھ دیا۔ بابو نے اپنی جوانی کا کچھ وقت اس کے مطالعے میں گذارا تھا۔ ہمارے علاقے پنیال پر وادی اشکو من اور یاسین کا بہت اثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بولنے والی زبانیں فارسی’ کھوار’ بلتم اور واخی ہماری شنا زبان پر خاصی اثر انداز ہوئی ہیں۔

آتی سردیوں کے پُر بہار دنوں میں جب بابو انگوروں کو اپنے پاؤں سے کچلنے کے لیے ہوزری میں چھلانگ لگاتا۔ انگوروں کے حسن و جوانی کو تہ تیغ کرتے ہوئے وہ ہماری قومی شخصیات کے کارناموں کو منظوم صورت میں لہک لہک کر گاتا۔ اس کی پاٹ دار آواز سارے گھر میں بکھری ہوئی ہوتی۔ چترالی شاعری نے شنا شاعری پر کیا کیا اثرات مرتب کئے یہ میں نے بابو سے ہی سمجھا تھا۔
اور وقت کے بہتے پانیوں میں دو سال اور بہہ گئے تھے۔ دو سالوں کے بے شمار دن جن کے ہر دن میں میں نے تاجدارخان اور یامین کے بارے میں سوچا تھا۔ ایسا بھی ہوتا جس دن میں نہاتی صاف کپڑے پہنتی۔ بالوں میں تیل لگاتی۔ اپنے سنہری لمبے بالوں کو دو چوٹیوں میں گوندھتی۔ نئی کاڑھی ہوئی ٹوپی اوڑھتی۔
برآمدے کے چوبی ستون سے ٹیک لگا کر بیرونی دروازے کو دیکھتی۔ تب میرا جی چاہتا کہ یامین اور تاجدار خان بھی بادام کے پیٹر کے شگوفوں سے پھوٹتی خوشبو کی طرح کہیں سے آجائیں اور ہمیں مہکا دیں۔

وہ بڑی پیاری شام تھی۔ سورج کی کرنیں کوہ ہندوکش کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر غمبوری (اخروٹ کے درخت سے پھوٹنے والے پہلے پتے جن کا رنگ سنہری ہوتا ہے) جیسی خوبصورت لگتی تھیں۔ بابو اور میں کھیتوں سے لوٹے تھے۔ صحن میں بندھی خوش گاؤ نے مجھے دیکھتے ہی آوازیں نکالیں۔ میں نے اس کی تھوتھنی پر پیار کرتے ہوئے بابو سے کہا۔
‘‘بابو نسالو کے تہوار پر خوش گائے کو ذبح کرنے پر میرا دل نہیں۔ اس بار چھوٹا جانور کر لیں گے۔’’
نسالو کا تہوار پورے شمالی علاقہ جات میں دسمبر کے پہلے ہفتے سے آخری ہفتے تک بہترین جانور ذبح  کرنے سے منایا جاتا ہے یہ ایک طرح سردیوں کے لئے گوشت سٹور کرنے کا تہوار ہے)
مان ہنستے ہوئے بولی: ‘‘اسے تو جو پال رہی ہے۔’’

تبھی اچانک گھوڑے کی تیز ٹاپیں سنائی دیں اور پھر ایک صحت مند گھوڑا عین ہمارے دروازے کے سامنے رکا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آسمان کے اس ٹکڑے سے جو میرے سر کے اوپر تھا۔ یکایک بجلی کڑکی ہو اور اس نے گشپور (راجاؤں کی اولاد) نسل کے دو شہزادوں کو ہمارے آنگن میں کھڑا کر دیا ہو۔ میری آنکھوں کی چند ھیا ہٹ جب کم ہوئی میں نے جانا آگے والا میرا دُلارا بھائی یامین تھا۔ اونچا لمبا خوبصورت۔ اس کے پیچھے یقیناً تاجور خان تھا۔ میرے خوابوں سے کہیں زیادہ بانکا سجیلا۔ وہ شاہ بلوط کے پیڑ کے پاس تنا کھڑا تھا۔ وہ سورج جسے میں ابھی اپنے کھیتوں میں دیکھتی آئی تھی اب جیسے میرے گھر کے دروازے سے طلوع ہو گیا تھا۔

مجھے نہیں پتہ ایسا کیوں ہوا؟ لیکن یہ ہوا۔ میں دوڑ کر کمرے میں گئی اور کونے میں پڑی رضائیوں پر گرگئی۔ میرے سانس کی اتھل پتھل عجیب سی تھی۔ باہر ہجر کے دنوں کی خشک سالی کیسے اور کس انداز میں سیراب ہو رہی تھی؟ مجھے ا س کا کچھ اندازہ نہ تھا۔ اس لئے کہ میرے دل کی دھڑکن بہت تیز تھی اور میرے کانوں کی شائیں شائیں کے شور و غوغا نے سب کچھ اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔
تبھی یامین کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ اٹھایا اور محبت بھری آواز میں کہا۔
‘‘کیا ہوا تمہیں؟ کیا تم میرے آنے سے خوش نہیں ہوئیں’’؟

میں اس کے سینے سے چمٹی اور بلک بلک کر روئی۔ چار پانچ سال کے دکھوں اور اذیتوں کا لاوہ پھوٹ پھوٹ کر میرے آنسوؤں کی صورت میں باہر نکلا۔ یامین میرے بالوں پر پیار اور میری آنکھوں سے زار زار بہتے آنسوؤں کو خشک کرتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔
‘‘چلوچلو جلدی سے پھپھاؤں (بڑے پھلکے) بناؤ۔ میں تو انہیں کھانے کے لئے ترس گیا ہوں’’۔ اس دن میں نے پنو دیتوشا (ایک طرح کا ساگ جس میں خوبانی کی گریوں کا گاڑھا دودھ اور آٹے کے باریک ٹکڑے ڈال کر پکائے جاتے ہیں) پکایا تھا۔

اس وقت جب وہ کھانا کھا رہے تھے ۔ مجھے اپنے چھپر نما برآمدے میں روشنی کم محسوس ہوئی تھی۔ میں نے کمرے سے ایک اور روخ (چیل کے درخت کی لکڑی جسے چراغ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے) لاکر روشن کر دی تھی۔ چولہے پر سماوار میں قہوے کے لئے پانی پک رہا تھا۔ کیونکہ دونوں نے نمکین چائے کی جگہ قہوے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

رات تاریک تھی۔ فضا پر چھائے ہوئے سناٹے کو معمول کی طرح جھرنوں اور آبشاروں کا شور ہی توڑ رہا تھا۔ میں نے شاہ بلوط کے درخت سے پرے دیکھا۔ اس سمے مجھے تاریکی بولتی اور سناٹا جیسے گنگناتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

وادی پھمانی کا تاجور خان کم عمری ہی میں گھر سے بھاگ نکلا تھا۔ اسے تخت ہزارے کے رانجھے جیسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں میں بھابھیوں کے ناروا سلوک سے تنگ آکر گھر چھوڑنے کی مشترکہ وجہ  کے سوا اور کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ اس وقت یہ خوبصورت شاہراہ ریشم نہیں بنی تھی۔ وہ مختلف غیر ملکی ٹورسٹوں کے ساتھ درہ بابو سر سے کاغان ’ ناران کے ہوٹلوں پر چھوٹا گیری کرتا کرتا کہیں نیچے پہنچا تھا۔چھوٹی سی عمر میں تجربات نے اُسے سرد گرم سبھی ذائقے چکھا ڈالے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی جیسے شہر میں اُس نے یامین کے دکھوں کو اپنے دکھ اور اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنی مسرتیں جانا تھا۔

اور جب وہ گھونٹ گھونٹ قہوہ پیتے تھے۔ یامین نے پوچھا تھا
‘‘بابو فصل باڑی کا کیا حال ہے’’؟
اور بابو نے ٹھنڈا سانس بھر کر اتنا کہا۔
‘‘بچہ کل جو اور گندم کی کٹائی شروع ہو گی۔ پون بیگھ زمین پر گندم اور جو کی فصل کھڑی ہے۔ چوتھائی پر شفتل (جانوروں کا چارہ) سوچتا ہوں اب مکئی زیادہ بوؤں۔ کنگنی اور چینا بھی کاشت کرنا پڑے گا۔ تمہاری ماں اس بار چاول کا بھی کہہ رہی ہے۔ میں ہنستا ہوں۔ ایک بیگھ پر کیا کیا ہو سکتا ہے؟ بس زندگی تو ایک بوجھ ہے۔ اٹھاتے اٹھاتے کمر دوہری ہو گئی ہے۔ لیکن اسے پٹخ کر نہیں پھینک سکتا۔ تبھی یامین نے کہا۔
‘‘بابو یہ شراب کشید کرنے والا کام اب بند کر دیں’’۔
اور بابو نے کسی قدر تلخی سے جواب دیا۔
تمہارا مطلب ہے ہم جو دو وقت کا روکھا سوکھا کھاتے ہیں اس سے بھی محروم ہو جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply