• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) وادی پُنیال-وادی سنگل کا حال احوال-ملکہ سے ایک اثر انگیز ملاقات/سلمیٰ اعوان(قسط9)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) وادی پُنیال-وادی سنگل کا حال احوال-ملکہ سے ایک اثر انگیز ملاقات/سلمیٰ اعوان(قسط9)

گزشتہ اقساط کا لنک

سفرنامہ”گلگت و ہنزہ”

برآمدے میں ایک سرخ و سفید باریش معمر مرد چارپائی پر بیٹھا تھا۔ صاحب خانہ اس سے باتوں میں مصروف تھے۔ سبز اوڑھنی والی دوشیزہ پر چھائیوں کی طرح انگنائی اور برآمدے میں چل پھر رہی تھی۔ دونوں خوبصورت لڑکیوں سے گھر خالی تھا۔ خاتون اول چارپائی پر نیم دراز اخبار جہاں کے مطالعے میں گم تھی۔ برقی روشنی آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ صاحب خانہ کے پاس پٹو کا فرغل’ خشک انگوروں یعنی کشمش کا لفافہ’ جو جی (درخت کی چھال جو کاغذ کی مانند ہوتی ہے) میں لپٹا مکھن جسے گلگت کی گرم حرارت پگھلا رہی تھی پڑے تھے۔
سبز اوڑھنی والی کا باپ وادی پُنیال سے بیٹی کے گھر ان سوغاتوں کے ساتھ آیا تھا۔ وہ بے چین تھا کئی بار کہہ بیٹھا تھا۔
‘‘گلگت تو تنور بنا ہوا ہے۔ پنیال میں تو جنت کی ہواہیں چلتی ہیں۔ میری بیٹی اس گرم موسم کی کہاں عادی ہے؟
داماد کے چہرے پر خفیف سے غصے کے آثار تھے۔ خاتون اوّل نے رسالے پر سے نظریں اٹھا کر طنزیہ انداز میں بڑا لمبا ‘‘ہونہہ’’ کہا تھا۔
میں نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا۔ باپ تھا نا آخر۔۔ بے شک غریب تھا۔ جانتا تھا کہ لڑکی سکھ میں ہے۔ اس کے گھر کی نسبت اچھا کھاتی اور اچھا پہنتی ہے۔ پر انسانی فطرت ہے ماضی تو اسے یاد ہی نہیں رہتا۔
میں چارپائی پر کمر سیدھی کرنے کے لیے ذرا لیٹی تو یوں محسوس ہوا جیسے کسی جادو کے تکیے پر سر رکھ دیا ہو۔ دو ڈھائی گھنٹے کسی مدہوش افیمی کی طرح پڑی رہی۔ آنکھ کھلی تو ابھی برآمدے کی بتی جل رہی تھی۔ خاتون اول کی آنکھیں اس کمرے کے بند دروازوں پر جمی تھیں۔ جہاں اس کا خاوند اس کی سو کن کے ساتھ شب بسری کر رہا تھا۔ میں اٹھ بیٹھی۔ دھیرے سے میں نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر رکھا۔
منکوں جتنے موٹے آنسو اُن آنکھوں سے نکلے۔ رخساروں پر لڑھکے لیکن گردن پر پہنچنے سے پہلے ہی میں نے انہیں ہاتھ کی پوروں سے صاف کر دیا۔
‘‘مرد کے لئے آنسو بہانا اپنے آنسوؤں کی توہین ہے۔ وہ کبھی عورت کے ایثار اور قربانیوں کی قدر نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنی ماں یاد آئی تھی۔ چنبیلی کے پھولوں جیسی رنگ والی ‘تیکھے نقش و نگار والی ‘جسے میرے باپ سے پیار ہی نہیں عشق تھا۔ غصیلا ‘اکھڑ مزاج ‘ انا کا مارا ہوا میرا باپ جو ذرا سی بات پر چیل کی جلتی لکڑی کی طرح بھڑک اٹھتا۔ ہنڈیا اٹھا کر زمین پر مارتا۔ پیالے ‘گلاس‘ کنالی‘ جو ہاتھ میں آتا توڑ دیتا۔ وہ زندگی بھر ان ٹوٹے برتنوں کی کرچیاں سمیٹتے اس کے گھر کو سدا بناتی اور سنوارتی رہی۔
اپنی عمر کے درمیانی حصے میں وہ فالج اور دل کا مریض بن کر بستر پر پڑ گیا۔ صاف ستھرے بستر پر چمکتے دمکتے ‘واکنگ سٹک بجاتے ‘نوٹوں سے ہر دم بھری جیب پر ہاتھ رکھتے اور اس کے وزن سے اپنے ڈوبتے دل کو تقویت دیتے اس نے اٹھ سال گزار دئیے۔
کمال صبر اور محبت سے اس کی تیمار داری کا بار اٹھاتے اس کا چنبیلی جیسا رنگ سرسوں کے پھولوں جیسا ہو گیا تھا اور پھر ایک دن اچانک ہی وہ برین ہیمبرج کا شکار ہو کر چل بسی۔ اس کے مرنے کے چند دن بعد ہی ابانے اپنے بینک بیلنس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘بندے کے پاس پیسہ ہونا چاہیے۔ بیویاں بہتری۔’’
وقت کا وہ لمحہ بڑا ظالم تھا۔ جب میں نے اس کی یہ بات سنی تھی۔
‘‘جانتی ہوں میں نے اس کمزور کلائی کو اپنی گرفت میں تھام لیا۔ آپ کو وہ سارے دُکھ اور مشقتیں تڑپاتی ہیں جو اس گھر کو بنانے کے لئے کی گئیں۔ بس ایسا ہی ہوتا ہے عورت کا دوسرا نام ہی قربانی ہے’’۔
اپنی اور دوسروں کی مثالوں کے ڈھیر لگا کر اس موگھے کو بند کیا جہاں سے دھڑا دھڑ آنسوؤں کا ریلا بہہ رہا تھا۔
عشاء کی قضا نماز پڑھ کر جب دوبارہ سونے کے لئے لیٹی تو خیال آیا کہ کیوں نہ ان کے ساتھ پُنیال کا ایک چکر لگا لوں۔ قدرت موقع تو فراہم کر رہی ہے۔ فائدہ اٹھانا میرا کام ہے۔
صبح جب میں نے صاحب خانہ سے بات کی تو وہ چہک کر بولے۔
‘‘ضرور’ ضرور پُنیال گلگت کی بہت حسین وادی ہے۔ ہماری ملنے والی ایک فیملی سنگل میں رہتی ہے۔ ان کی بیٹی ملکہ آج کل وہاں آئی ہوئی ہے۔ انتہائی زیرک خاتون ہے۔ سارے پاکستان میں گھومی پھری ہے۔ آپ کے لئے بہت معاون ثابت ہو گی۔
صبح خوشگوار تھی۔ سبز اوڑھنی والی بے زبان خاتون دوم نے اپنا جوڑا زیب تن کیا۔ سر پر خوبصورت کڑھت والی ٹوپی پہنی۔ اوپر سے بڑی چادر اوڑھی جس میں سرخ و سفید چہرہ چھپ سا گیا تھا۔ میں نے بھی کھلی موٹی ریشمی چادر میں اپنا جسم چھپا لیا۔ یہ چادر میں نے گلگت پہنچ کر ایمرجنسی ضرورت کے تحت خریدی تھی۔
را جہ بازار سے ویگن میں بیٹھے۔ ٹکٹ میں نے خریدے۔ معمر مرد نے بہتیرا نہ نہ کیا پر میرا دل ہی نہ مانا۔ مغرب کی طرف سفر کا آغاز ہونے والا تھا۔ گاڑی پھیٹچر سی تھی۔ کچھ لوگ بیٹھ چکے تھے۔ کئی سیٹیں ابھی خالی تھیں۔ نہ گاڑی بھر رہی تھی اور نہ چلنے کا نام لے رہی تھی۔ ڈرائیور سگریٹ سلگاتے ہوئے کہتا تھا۔
‘‘ لو ابھی کہتے ہیں آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ یہاں گھنٹہ ہو گیا ہے انتظار کرتے ہوئے لوگ جانے کن کڈُھوں میں لگے بیٹھیہیں’’۔
مسافروں کے اصرار پر گاڑی نے چلنا شروع کیا۔ غالباً ڈیزل سے چل رہی تھی۔ دھواں بلاشبہ پیچھے کی طرف جاتا تھا۔ پر اس کا تھوڑا سا اثر اگلی طرف بھی نمایاں تھا۔ میری آنکھوں میں جلن سی شروع ہو گئی تھی۔
بسین گلگت سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ گلگت کا مضافاتی علاقہ جسے کارگہ نالہ دو حصوں میں تقسیم کرتاہے۔ بسین پائین اور بسین بالا۔ کارگہ نالہ کو چنگھاڑتے ‘شور مچاتے ‘جھاگ اڑاتے ہوئے دیکھ کر مجھے دردزہ میں مبتلا ماں جانے کیوں یاد آئی تھی؟
بسین پائین سے ایک جوڑا سوار ہوا۔ جوڑیاں جگ تھوڑیاں تے نیڑ بہترے (یعنی زمانے میں جوڑیاں بہت کم ہوتی ہیں بس یونہی بندھن بندھے ہوتے ہیں) کی عملی تفسیر۔ چادر میں لپٹی ہوئی لڑکی جس کی فراخ پیشانی پر سیدھی مانگ کے ساتھ ساتھ کٹے ہوئے بال مڑ کر ہلالی صورت بنا رہے تھے۔ فاتح فرانس نیلسن کی محبوبہ ایما ہملٹن جیسی دل آویز شکل و صورت والی جس کا ساتھی ادھیڑ عمر کا مرد گاڑی میں بیٹھے لوگوں کی پروا کئے بغیر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اُسے دیکھنا نہ بھولتا۔
‘‘ایمان تازہ کرتاہے’’۔
میرے ساتھ بیٹھی اُس اللہ میاں کی گائے خاتون دوم نے جب سرگوشی کے انداز میں مجھ سے یہ کہا تو میں حیران رہ گئی۔ سبز اوڑھنی والی بولی تو لا جواب بولی۔ اس صورت حال پر اس سے بہتر جملہ کہا نہیں جا سکتا تھا۔
‘‘لڑکی ہے طرح دار’’ میں نے گرہ لگائی۔
‘‘نسائی خوبصورتی کے لئے وادی یاسین بہت شہرت رکھتی ہے۔’’
ہینزل آیا تو پتہ چلا ابھی دس میل کا سفر طے ہوا ہے۔ ہینزل کے آخر میں ایک گھر نظر آتا تھا ایک ہوٹل جس پر کشکاری ہوٹل لکھا ہوا تھا۔ چارپائیوں پر لوگ بیٹھے تھے۔ گرم گرم روٹیاں’ میرا جی چاہا میں کھڑکی سے چھلانگ مار کر اس چارپائی پر جا بیٹھوں جس کے سامنے دھری میز پر سفید چینی کی رکابی میں سالن اور چنگیر میں روٹی دھری تھی۔ مجھے بھوک کا شدت سے احساس ہوا تھا۔
دریا کے پانی سے آباد ہری پون چھوٹا سا گاؤں جس کے بالمقابل بارگو کی وادی ہے۔ درمیان میں پیدل چلنے والوں کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ہزاروں فٹ نیچے دریائے گلگت چل رہا تھا۔ لیکن کسی محافظ کی طرح نہیں بلکہ اس مکار دشمن کی طرح جو ذرا سی غفلت اور کوتاہی پر شب خون مارتا ہے۔
ویگن ایک تواتر کے ساتھ چلی جا رہی تھی۔ ہمارے ساتھ معمر مرد نے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔ شروٹ ’ سڑک کے کنارے شروٹ ہائی اسکول تھا۔ شیکوٹ میں دو مسافر اترے اور تین سوار ہوئے۔
گلگت سے بائیس میل کے فاصلے پر گلاپور کی بہت بڑی وادی ہے۔ ننانوے فیصد سنی لوگوں کی آبادی ‘راسخ العقیدہ پڑھے لکھے لوگ جن کی ایک مثال فضل الرحمن جیسے پرانے اور ڈاکٹر شاہ فرمان جیسے نئے لوگوں کی ہے۔
دریا کے دوسری طرف گلاپور سے دو میل آگے شیر قلعہ ۹۵ فیصد اسماعیلی لوگوں کی وادی‘ جو لمبائی میں بہت زیادہ پر چوڑائی میں کم ہے۔ شیر قلعہ میں ہی را جہ پنیال کا محل ہے۔ راجگی نظام تو خیر اب ختم ہے۔ تاہم راجہ اور محل باقی ہیں۔ اندر کی طرف دلناٹی کا گاؤں ہے۔ دریا کے پار ہموچل’ گوہر آباد’ چپوکے’ گیچ داس’ کیچھوٹی چھوٹی وادیاں بالکل اسی طرح گزرتی جا رہی تھیں۔ جس طرح چڑھتی دوپہر سہ پہر میں ڈھل رہی تھی۔
وادی سنگل میں جا کر ویگن رک گئی۔ سنگل پنیال کی مرکزی وادی۔ چائے پانی اور دیگر ضروریات کے لئے مسافر اتر رہے تھے۔ ٹھنڈے پانی سے میں نے منہ دھویا۔ یخ پانی نے میرے چکریاں کھاتے سر کو ذرا سنبھالا دیا۔ گندم کے کھیتوں پر سے آتی ہوا کی خوشگواری نے طبیعت کو کچھ تازگی دی۔
سنگل خاصی بڑی وادی ہے۔ چار قدم آگے سنگل تھانہ اور آغا خان میڈیکل سنٹر ہیں۔ دائیں بائیں دوکانیں’ سرکاری دفاتر’ اسٹنٹ کمشنر’ تحصیل دار وغیرہ کی رہائش گاہیں ہیں۔ ان سبھوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔
گلیاں کہیں تنگ ‘کہیں کشادہ’ اخروٹ کے درختوں کی بہتات تھی۔ گھروں کی دیواروں پر انگوروں کی بیلوں نے عام سے گھروں کے حسن کو بھی بڑھا دیا تھا۔ گلیوں میں کھیلتے سرخ و سفید چہروں والے بچے منہ اٹھا اٹھا کر جب دیکھتے تو مجھے اپنے بچے یاد آتے۔
لفظ پونیال ‘‘پوپال’’ سے نکلا ہے۔ جو سنسکرت میں پھلوں سیبھری تھالی کو کہتے ہیں۔ میرے ساتھ ساتھ چلتا معمر مرد مجھے بتا رہا تھا۔ اس وادی میں پھلوں کی کثرت ہے۔ ا سکی آبادی تقریباً اٹھارہ ہزار کے قریب ہے۔اس کے مختلف گاؤں میں چار ہائی اسکول ہیں۔ یہاں کی بیشتر آبادی اسماعیلی ہے۔
‘‘کوئی لڑکیوں کا سکول بھی ہے’’۔ میں نے دریافت کیا۔
‘‘ہاں ہاں مڈل سکول ہے۔ یہیں سنگل میں ہی۔’’
پھر ہم ایک بڑے سے دروازے میں داخل ہوئے۔ آنگن اتنا صاف ستھرا اور پھل پھلواری سے لدا پھندا تھا کہ سفر کی تھکاوٹ اور کلفت یوں اڑنچھو ہو گئی جیسے منڈیر پر بیٹھی چڑیا ذرا سی آہٹ پر اڑ جاتی ہے۔ گھر میں صرف ایک خوبصورت سی جوان لڑکی تھی۔ جس نے مجھے حیرت سے دیکھا تھا۔ بقیہ لوگ قریبی کھیتوں میں گندم کی کٹائی کے لئے گئے ہوئے تھے۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی جب دو عورتیں اور دو مرد اندر آئے۔ درمیانی عمر کی جس عور ت نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے سینے سے لگایا اور میر اماتھا چوما تھا اس کے خدوخال بلاشبہ ‘‘لیونا رڈو’’ کی ‘‘پہاڑی دوشیزہ’’ جیسے تھے۔ نہایت شستہ اردو بول رہی تھیں۔ گلگت میں مجھے جس خاتون کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ یہی تھیں۔ ‘‘ملکہ تاجور’’۔
چائے نمکین تھی۔ لیکن سادی چائے کی تھرموس بھی موجود تھی۔ چینی الگ سے رکھی گئی تھی۔ اس صاف ستھرے گھر کے برآمدے میں پھلوں’ پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں نیلے آسمان اور اپنے اردگرد خوبصورت چہروں سے آنکھوں کی سکائی کرتے ہوئے مجھے نمکین چائے کی چسکیوں نے بہت لطف دیا تھا۔ میں نے ملکہ تاجور کے بار بار کہنے پر بھی چینی والی چائے پینی پسند نہ کی تھی۔
عصر کی نماز پڑھی۔ ظہر کے قضا سجدے بھی کئے۔ پتہ نہیں مجھے اجنبی جگہوں پر سجدے کرنا کیوں اتنا پسند ہے؟ شاید میں ہر نئی مٹی پر ماتھا ٹیک کر اپنا کھاتہ وزنی کرنا چاہتی ہوں۔ تاکہ بوقت ضرورت کسی بڑی خواہش کی تکمیل کے لئے اس کا حوالہ دے سکوں۔ اس ضدی بچے کی طرح جو ماں سے اپنی کسی فرمائش کو پورا کرنے کے لئے اگلے پچھلے کئی چھوٹے موٹے کاموں کا احسان اس کے سر پر دھرتے ہوئے مچلتا ہے۔
یہ خاصا کشادہ گھر تھا۔ بڑے کمرے کی دیواریں پتھروں اور کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھیں۔ چھت بڑے بڑے تختوں سے بنی ہوئی تھی۔ اس کا درمیانی حصہ تکون نما گنبد کی شکل کا تھا۔ چھت کو اخروٹ کی قیمتی لکڑی کے چار موٹے موٹے ستونوں نے سہارا دے رکھا تھا۔ ان ستونوں پر نقش و نگاری کا کام ایسا عمدہ تھا کہ میں کتنی دیر تک ان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچتی رہی۔
اللہ آرٹ کے یہ نادر شاہکار اگر شہر والوں کی نظروں میں آجائیں تو وہ ان سیدھے سادھے دیہاتیوں کو کیا نام دیں گے کیونکہ سب نام تو انہوں نے اپنے لئے مخصوص کر رکھے ہیں۔’’
سردیوں میں گنبد کے نیچے آگے جلتی ہے۔ اس کے اردگرد گھر کے لوگ بیٹھتے ہیں۔ درمیانی جگہ کے آمنے سامنے گھر کے ضعیف افراد کے لئے لکڑی کے بڑے بڑے پلنگ نما تختے بچھے ہیں۔ دونوں طرف لکڑی کی خوبصوت الماریاں جس میں گھریلو برتن اور کھانے پینے کی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔
میرے ساتھ آنے والا باپ بیٹی کا جوڑا مجھے خدا حافظ کہنے کے بعد جا چکا تھا۔ ان کا گاؤں ‘‘گل حتی’’ سنگل سے تھوڑا سا آگے تھا۔
کبھی کبھی نام شخصیت کی کس قدر بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ملکہ تاجور کی چال ڈھال’ اٹھنے بیٹھنے کا انداز گفتگو کرنے کے طور طریقے سبھوں میں انداز دلربائی بھی تھی اور وقار بھی۔ ذہانت آنکھوں سے ٹپکتی تھی۔ تجربہ’ مشاہدہ اور علم کا خزانہ زبان کے راستے باہر آتا تھا۔
وادی سنگل کی سیر کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا تھا کہ وادی کے جلووں کا حال پنجاب کی اس الڑمٹیار کی ناک میں لشکارے مارتے لونگ جیسا ہے۔ جو چہر ے کے ذرا سے رخ بدلنے پر یوں چمکتی ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ وہ ہوائیں جو دوپہر تک حرارت کے باعث خوشگوار اور سبک خرام تھیں۔ اب وہ بوجھل ہو کر جسم میں کپکپی کی کیفیت پیدا کر رہی تھیں۔
سنگل کے چھوٹے بڑے گھر اُن گھروں میں کام کرتی خوبصورت عورتیں اور لڑکیاں’ برآمدوں اور کمروں میں لٹکتی پرنس کریم آغا خان کی تصویریں۔ آنگنوں میں شراب بنانے والی ہوزریاں’ خوبانی اور اخروٹ کے پیٹروں پر لٹکتے دل لبھاتے پھل’ فضا میں بکھرتا دھواں اور پہاڑوں کی برفانی چوٹیاں سب کسی حسین خواب کی طرح دل موہ لینے والی تھیں۔ ہوائیں گندم کے پکے خوشوں کی خوشبو چرائے پھرتی تھیں۔
مغرب کے وقت واپسی ہوئی۔ نماز سے فارغ ہو کر میں اس چھوٹے سے کمرے میں آگئی جہاں لکڑی کے فرش پر گدے بچھے تھے۔ رضائیاں دھری تھیں۔ بجلی کا قمقمہ جلتا تھا پر جلنے سے زیادہ شرارتیں کرتا تھا۔ ملکہ تاجور نے ایک البم میرے گھٹنوں پر دھری رضائی پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
انہیں دیکھو میں ذرا کھانے کا جائزہ لے آؤں۔
میں نے جلد کو پلٹا دیا۔ پہلے صفحہ پر پوسٹ کارڈ سائز میں سیمسن جیسے ایک جری نوجوان کی تصویر تھی۔ دوسرے صفحے پر اسی چہرے کے دو پوز تھے۔ قدیم درد نسل کا بہروپ ‘پاؤں میں پبو‘ کھلے پائینچوں کی پاجامہ نما شلوار’ لمبا چوڑا فرغل ‘سر پر اونچی ٹوپی’ لمبی داڑھی ‘ہاتھ میں پکڑا گلدان نما حقہ۔ میں آگے بڑھی۔ راجہ کا درباری’ کامدار چوغہ‘ کمر میں پٹکا۔ کھلی شلوار۔ ایک تصویر میں کرنل ڈیورنڈ بنا ہوا تھا۔ بند گلے کی کی کامدار جیکٹ جس کے سینے پر تمغے لٹکتے تھے۔ بڑی بڑی مونچھیں ‘نفاست سے بنے ہوئے بال۔ صفحات پلٹے تو قدیم زمانے کا شکاری نظر آیا۔ کھسہ نما جوتا جس میں پھنسی سیاہ اونی جرابیں گھٹنوں تک چلی گئی تھیں۔ گھٹنوں سے کمر تک ہندوانہ سٹائل کی دھوتی نما شلوار‘ کھلے بازوؤں کا کرتا ’ جس پر تنگ بازوؤں کی اونی جیکٹ ‘پورے سر کو ڈھانپتا ہوا عمامہ ‘ہاتھ میں تیر اور کمان۔
البم نہیں تھا لوک ورثہ میوزیم تھا۔ ایک عہد کی تاریخ محفوظ تھی۔
پھر اسی نوجوان کی شادی کی تصاویر نظر آئیں۔ یہاں ملکہ بھی تھی۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف جگہوں پر یہ جوڑا اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہا تھا۔
‘‘ہوں تو یہ تاجور خان ہے۔ بڑا فنکار نظر آتا ہے۔ ایسے شوہر کی بیوی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا’’۔
رات کا کھانا خاصا پر تکلف تھا۔ مولی‘ پودینہ ‘سلاد کے پتوں اور ہرے دھنیے پر مشتمل سلاد گھر کی کیاریوں سے توڑ کر بنایا گیا تھا۔ سونے کے رنگ جیسے قہوے کی پیالی ہاتھوں میں تھام کر میں نے اپنی پشت پر رکھی رضائی سے ٹیک لگاتے ہوئے ایک نظر سامنے دیوار پر ڈالی۔ جہاں مار خور اور ہڑیال کے سینگ لکڑی کے قلب میں لگے خوبصورت ڈیکوریشن پیس بنے ہوئے تھے۔ میں سوچے بغیر نہ رہ سکی تھی۔ بعض انسان اور بعض جانور کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ زندگی میں بھی لوگوں کو پیچھے لگائے پھرتے ہیں اور مر کر بھی گھروں کی زینت بن جاتے ہیں۔
ملکہ میرے پاس آبیٹھی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا اور ہنس کر کہا ‘‘آپ کے شوہر تو بڑے فنکار آدمی معلوم ہوتے ہیں’’۔
گھائل کر دینے والی مسکراہٹ اُن ارغوانی ہونٹوں پر پیدا ہوئی تھی۔ ملکہ اپنی جوانی میں کس قدر حسین عورت ہو گی۔ اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ تصویریں بولی تھیں مگر اس شدومد سے نہیں جس کی ضرورت تھی۔ سرخی مائل خرمئی رنگ کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک دیکھنا مشکل تھا۔ اپنا آپ اپنے آپ سے چھنتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ سنہری دراز بالوں کا روکھا پن یہ بتاتا تھا کہ کبھی ان کی چمک اور رعنائی آنکھوں کو سحر زدہ کرتی ہو گی۔ رنگ و روپ تو ابھی بھی دئیے کی لاٹ جیسا تھا۔ جوانی میں تو آسمان پر اڑتے پرندے پھڑ پھڑا کر گرتے ہوں گے۔
‘‘اتنی مختصر سی ملاقات کے باوجود آپ کی ذات کی انفرادیت کو میں نے پوری طرح محسوس کیا ہے۔ ایسی ذات جن حالات سے گزرتی ہے اور جو کچھ محسوس کرتی ہے وہ دلچسپ آپ بیتی کی شکل میں ایک خوبصورت کہانی بن جاتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں اس کہانی کو سننا چاہتی ہوں۔’’
‘‘اپنی دنیا کا چہرہ مجھے کسی کو دکھانا پسند نہیں۔ اس دنیا میں کسی کی شرکت خواہ وہ تھوڑی دیر کے لئے ہی کیوں نہ ہو مجھے گوارہ نہیں مجبوری یہ ہے آپ مہمان ہیں ۔ بہت پیاری سی مہمان۔ آپ کی بات ٹالنا مناسب نہیں۔ چلئے آئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply