ہجر کے اندھیرے میں چشمِ تر کے گھیرے میں یاد کے سبھی جگنو ٹمٹماتے رہتے ہیں آنکھ میں کئی لمحے جگمگاتے رہتے ہیں رات یوں مہکتی ہے جیسے رات کی رانی چاندنی میں اِٹھلائے شبنمی سی ٹھنڈک کو خوشبوؤں میں← مزید پڑھیے
ملاقات دونوں پورا ہفتہ اتنے مصروف رہتے تھے کہ ایک ہی چھت کے نیچے ہوتے ہوئے بھی ملاقات سرسری اور روا روی میں ہی ہوتی ۔ اس ویک اینڈ پہ انھوں نے کہیں باہر ملنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں تقریباً← مزید پڑھیے
وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔۔ وہ جاگتے لمحوں کی انگڑائی میں قُرب کے خیالستان طغیانِ ذوق میں نگارستان حُسن جیسی پُر کشش تھی۔ درودیوار پر دمادم رقص کرتی چاندنی اور ماورائے بیان پُرخمار و← مزید پڑھیے
چٹاخ کی آواز سنائی دی اور چیک پوسٹ پر موجود لمبی قطار کے سرے پر کھڑے ادھیڑ عمر شخص کا دایاں گال سرخ ہوتا گیا۔ تھپڑ سے پڑنے والا سرخ رنگ سمندر کا سا سینہ رکھتا ہے، اس میں بیک← مزید پڑھیے
آدھا ادھورا شخص bi-polar یعنی دو متضاد شخصیتوں میں منقسم ایک مریض کا قصہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا روز کا معمول تھا، سونے سے پہلے باتیں کرنے اور جھگڑنے کا گلے شکوے کہ جن میں اگلی پچھلی ساری باتیں یاد کر کے← مزید پڑھیے
میر سلطان کا باپ راجہ شیر زمان شہر کا متمول زمیندار ، کامیاب سوداگر اور معزز شخصیت تھا۔قوت ِ ارادی اتنی مضبوط کہ بڑی سے بڑی مصیبت اسکے چہرے پر شکن نہ لاتی، نہ کوئی خوشی اسکے ہونٹوں پر ہلکی← مزید پڑھیے
کہانی ہمیشہ سادہ ہوتی ہے، بنا کسی الجھاؤ کے،لفاظی کے بغیر ۔۔ رہا “ڈرامہ۔۔۔ تو وہ ڈراموں میں ہوتا ہے ۔ نورا ۔۔شکورے کا چچیرا بھائی تھا۔ دونوں پیدائشی زمیندار تھے ۔دادے کی زمین مکان کے سانجھے وارث ۔ شریکا← مزید پڑھیے
مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں← مزید پڑھیے
لکھ لو میں ایک عرب ہوں اور میرے شناختی کارڑ کا نمبر پچاس ہزار ہے میرے آٹھ بچے ہیں اور نواں موسم ِ گرماکے بعد آئے گا کیا تم ناراض ہوجاؤ گے؟ لکھ ڈالو میں ایک عرب ہوں پتھر کی← مزید پڑھیے
بول کر سب کو سنا، اے ستیہ پال آنند! بول اپنی رامائن کتھا، اے ستیہ پال آنند ! بول تو کہ کامل تھا کبھی، اب نصف سے کم رہ گیا دیکھ اپنا آئنہ ، اے ستیہ پال آنند ! بول← مزید پڑھیے
جب مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے نوشہرہ چھاونی جانے کی تیاری کرنی ہو گی ، تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے غیر مرئی طور پر یہ محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے← مزید پڑھیے
(ARS MORIENDI ) اللہ سے التماس پھونکی تھی اگر روح تو اتنا کرتے اک سانس سے مجھ میں بھی خدائی بھرتے فَخُتُ فِیُیہِ مِن روحِیُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جکڑے ہو ئے بانہوں میں اس کو کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے پھسلائے← مزید پڑھیے
دو دن بھی ایسے تیسے گزر گئے قاری صاحب کلاس پڑھا رہے تھے اور فیضان کا وہ پیریڈ خالی تھا اس لیے اس سے صبر نہیں ہوا اور وہ سیدھا ان کے پیچھے ان کی کلاس تک چلا گیا۔ اسے← مزید پڑھیے
”تم کیا سمجھتے ہو کہ لکھاری ہونے کے سبب تم جوکچھ لکھوگے لوگ اسے سچ مان لیں گے؟“ اسے کسی عورت کی آواز سنائی دی۔ مگریہ آواز اس کے درون سے آرہی تھی اور اس کی اہلیہ کی آواز سے← مزید پڑھیے
کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کے لیے یونیورسٹی میں زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نئے دوست ملے, زندگی کو نئے ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ ملا, اس کی زندگی میں یہاں جتنے بھی نئے لوگوں← مزید پڑھیے
میں پہلے اپنی کئی تحریروں میں دو سینئر قلمکاروں سے اپنے تعلقات کا ذکر کر چکا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا دونوں عمر میں اور اپنے ادبی قد کاٹھ میں مجھ سے بڑے تھے۔ صرف بڑے ہی← مزید پڑھیے
گاؤں کے باہر مولے والی بنھ (باندھ۔ قدرتی جھیل)1939 گاؤں کے باہر مائی مُولے والی بنھ (پانی کے باندھ کا پنجابی لفظ)۔ ایک جھیل ہے جس میں آبی پرندے تیرتے ہیں۔ میں کنارے کے ایک پتھر پر پانی میں پاؤں← مزید پڑھیے
عیسوی۱۹۳۷: میری عمر ساڑھے پانچ برس! مجھے چاچا بیلی رام سکول داخل کروانے کے لیے لے جا رہے ہیں۔ میں سفید قمیض اور خاکی رنگ کا نیکر پہنے ہوئے ہوں۔ ایک ہاتھ میں گاچی سے پُچی ہوئی تختی ہے، دوسرے← مزید پڑھیے
وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ صبح تھی۔ شہر کے ایک نواحی دیہات میں کسانوں کی ٹولیاں چادریں لپیٹے اپنے کھیتوں کی طرف جا رہیں تھیں کہ انہیں دھند میں کچھ غیر مانوس سی آوازیں سنائی دیں۔ بڑی گاڑیوں کا← مزید پڑھیے