اللہ سے التماس۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(ARS MORIENDI )

اللہ سے التماس
پھونکی تھی اگر روح تو اتنا کرتے
اک سانس سے مجھ میں بھی خدائی بھرتے
فَخُتُ فِیُیہِ مِن روحِیُ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی جکڑے ہو ئے بانہوں  میں اس کو
کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے پھسلائے
کچھ اک سال رُک جاؤ
کہ جانا تو سبھی کو ہے
مگر جلدی بھی آخر اس قدر کیا ہے ؟

کبھی مٹی اُڑے ، پاؤں سے یوں لپٹے
کہ جیسے پیار کی پا بستگی ہو، آڑے آتی ہو
کہے، میں ماں تمہاری ہوں
مری ہی کوکھ سےپیدا ہوئے ہو ۔۔۔
مجھ سے آخر اس قدر بیگانگی کیوں ہے؟
مجھے دیکھو
تمہارے ہر قدم کا نقش تو محفوظ ہے میرے ہی سینے پر

کبھی سردی کے موسم میں
سنہر ے دھان سی کومل ملائم دھوپ رستے میں
کسی قالین سی بچھ کر تمہیں چلنے کی دعوت دے
بسنتی کیسری ر نگوں میں
دلہن سی سجی سنوری ہوئی بد مست رُت
پھولوں کے گجرے گوندھ کر لائے
اُمڈتے بادلوں کے جھنڈ چاروں سمت سے آئیں
چمکتےموتیوں سے کھیتیوں کی بانجھ کوکھیں بیج سے بھر دیں
مظاہر مادر ِ قدرت کے ہنس ہنس کر کہیں اس سے
حسیں یہ زندگی کتنی ہے،  دیکھو تو
جھٹک کر اپنا دامن اس سے، بیٹے، دور مت جاؤ
رُکو، کچھ دیر رُک کر اور جینے کا مزہ لوٹو

مگر جانا تو ہے، کچھ دیر پہلے
یا ذرا تاخیر سے، وہ سوچتا ہے پھر
مرے پُرکھے بھی اپنی زندگی کے سارے بندھن توڑ کر
جاتے رہے ہیں اپنی مرضی سے
ذرا آگے بڑھوں، دیکھوں
گھنے جنگل کے بیچوں بیچ اک میداں
مرے ہی واسطے شاید کھلا ہے ۔۔۔۔
(غور سے دیکھوں )

ہزاروں ہاتھیوں کے جسم، سوکھی ہڈیوں کے ڈھیر
(ہاتھی دانت)
اپنی نیند میں بے سُدھ پڑے ہیں
(میرے پُرکھوں کے)

چلوں، اب میں بھی چل کر لیٹ جاؤ ں
موت آئے گی
تو اس کے استخوانی ہاتھ کی انگلی پکڑ کر
چل پڑوں گا میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

روایت ہے کہ جنگلی ہاتھی قدرتی موت آنے سے کچھ دن پہلے چپکے سے جا کر ـ’’ہاتھیوں کے قبرستان‘‘ میں لیٹ جاتے ہیں اور موت کا انتظار کرتے ہیں۔ لاطینی میں ’’او وِڈ‘‘نےاس سنی سنائی روایت کو ان کے ’’مرنے کے فن‘‘ سے واقف ہونا قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
Ars Moriendi. مرنے کا فن۔ لاطینی اصطلاح

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply