جب مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے نوشہرہ چھاونی جانے کی تیاری کرنی ہو گی ، تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے غیر مرئی طور پر یہ محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے← مزید پڑھیے
(ARS MORIENDI ) اللہ سے التماس پھونکی تھی اگر روح تو اتنا کرتے اک سانس سے مجھ میں بھی خدائی بھرتے فَخُتُ فِیُیہِ مِن روحِیُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جکڑے ہو ئے بانہوں میں اس کو کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے پھسلائے← مزید پڑھیے
دو دن بھی ایسے تیسے گزر گئے قاری صاحب کلاس پڑھا رہے تھے اور فیضان کا وہ پیریڈ خالی تھا اس لیے اس سے صبر نہیں ہوا اور وہ سیدھا ان کے پیچھے ان کی کلاس تک چلا گیا۔ اسے← مزید پڑھیے
”تم کیا سمجھتے ہو کہ لکھاری ہونے کے سبب تم جوکچھ لکھوگے لوگ اسے سچ مان لیں گے؟“ اسے کسی عورت کی آواز سنائی دی۔ مگریہ آواز اس کے درون سے آرہی تھی اور اس کی اہلیہ کی آواز سے← مزید پڑھیے
کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کے لیے یونیورسٹی میں زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نئے دوست ملے, زندگی کو نئے ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ ملا, اس کی زندگی میں یہاں جتنے بھی نئے لوگوں← مزید پڑھیے
میں پہلے اپنی کئی تحریروں میں دو سینئر قلمکاروں سے اپنے تعلقات کا ذکر کر چکا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا دونوں عمر میں اور اپنے ادبی قد کاٹھ میں مجھ سے بڑے تھے۔ صرف بڑے ہی← مزید پڑھیے
گاؤں کے باہر مولے والی بنھ (باندھ۔ قدرتی جھیل)1939 گاؤں کے باہر مائی مُولے والی بنھ (پانی کے باندھ کا پنجابی لفظ)۔ ایک جھیل ہے جس میں آبی پرندے تیرتے ہیں۔ میں کنارے کے ایک پتھر پر پانی میں پاؤں← مزید پڑھیے
عیسوی۱۹۳۷: میری عمر ساڑھے پانچ برس! مجھے چاچا بیلی رام سکول داخل کروانے کے لیے لے جا رہے ہیں۔ میں سفید قمیض اور خاکی رنگ کا نیکر پہنے ہوئے ہوں۔ ایک ہاتھ میں گاچی سے پُچی ہوئی تختی ہے، دوسرے← مزید پڑھیے
وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ صبح تھی۔ شہر کے ایک نواحی دیہات میں کسانوں کی ٹولیاں چادریں لپیٹے اپنے کھیتوں کی طرف جا رہیں تھیں کہ انہیں دھند میں کچھ غیر مانوس سی آوازیں سنائی دیں۔ بڑی گاڑیوں کا← مزید پڑھیے
A POEM IN FOUR VERSIONS, URDU, ENGLISH, FRENCH, AND SPANISH. THE WOMAN WITH SHAVED HEAD ( یہ نظم پہلے انگریزی میں اسی عنوان سے لکھی گئی اور شاعر کی انگریزی کتاب The Sunset Strands میں شامل ہے) وہ بھی چپ← مزید پڑھیے
پہاڑوں کے سینے پر سر سبز روئیدگی حیات بن کر سانس لے رہی تھی۔ڈھلانوں پر دھان کے کھیت کچے چاول کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔مون سون ہوائیں سیاہ مدھ بھرے بادلوں کے بوجھ سے وادیوں میں دھیرے دھیرے اُتر← مزید پڑھیے
غلب کے اشعار پر ریدکتیو اید ابسردم تکنیک سے استوار کی گئی نظم ۔۲ قافیہ بندی غالب نبود شیوہٗ من قافیہ بندی۔۔ ظلمیست کہ بر کلک ورق می کنم امشب غالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا← مزید پڑھیے
بد صورت، مکروہ چڑیلوں کی مانند گلا پھاڑتی، بال نوچتی ؎۱ دھاڑیں مارتی، چھاتی پیٹتی باہر ایک غصیلی آندھی پتے، شاخیں، کوڑ کباڑ، کتابیں اپنے ساتھ اڑاتی ؎۲ مُردہ گِدھوں کے پنجوں سے جھٹک جھٹک کر زندہ حیوانوں سے ان← مزید پڑھیے
اپنی جِلا وطنی کے نام اِک نظم (پنجاب کے پانچ دریاؤں کے نام) ۔۔۔۔۔۔ اس جگہ ڈوبا تھا میں۔۔ ہاں، تین چوتھائی صدی پہلے یہیں ڈوبا تھا میں مضطرب، شوریدہ سر لہروں کے نیچے آنکھیں کھولے ایک ٹک تکتا ہوا← مزید پڑھیے
شیکسپیئر نے اپنی وصیت میں اپنی بیوہ این ہیتھوے کے نام چھوڑا “Item I gave unto my wief my second best bed”. (Shakespeare’s Will) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیکسپیئر کی بیوہ کی زبان سے بستر بستر پیار تو اپنا بٹا ہوا ہے گھر← مزید پڑھیے
الناس علیٰ دین ملوکبم (رعایا بادشاہوں کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی ہے ) (ایک فینٹسی) موسلا دھار ہے برفاب کی بوچھاڑ، مگر گرتے پڑتے ہوئے سب لوگ کہا ں جاتے ہیں؟ گرتے ہیں، اٹھتے ہیں، پھر گرتے ہیں ،← مزید پڑھیے
اور جس وقت بارش کی بوندوں نے برسنا شروع کیا، ان عورتوں نے جمیلہ کے ارد گرد گھیرا بنالیا۔ دور سے یہ منظر دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے بارش میں زمین سے گندھی عورتوں نے رقص کرنا شروع کردیا← مزید پڑھیے
CROCE کروچے کروچے Benedetto Croce (Italian: [bene’detto ‘kro?t?e]; (25-2-1866 – 20-11-1952) صرف ایک سو صفحات پر مشتمل رسالہ بعنوان ’’لا پوزیا‘‘٭ میں کروچےؔ نے علم و عمل کی ذو جہتی یونانی تھیوری کے مطابق یہ درس دیا کہ علم و← مزید پڑھیے
اگر میں کہوں کہ میں داڑھی والے کو تب سے جانتا ہوں جب داڑھی نہیں تھی تو شاید لوگ حیرت میں ڈوب جائیں۔ بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی حسنین جمال کی داڑھی نا تھی؟ اب تو سنا ہے← مزید پڑھیے