تیرا سچ، میرا سچ۔۔دیپک بُدکی

”تم کیا سمجھتے ہو کہ لکھاری ہونے کے سبب تم جوکچھ لکھوگے لوگ اسے سچ مان لیں گے؟“

اسے کسی عورت کی آواز سنائی دی۔ مگریہ آواز اس کے درون سے آرہی تھی اور اس کی اہلیہ کی آواز سے ملتی جلتی تھی۔دفعتاًاس کے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر زمین پر گر گیا لیکن آواز پھر بھی سنائی دے رہی تھی۔
”ہاتھ میں قلم کیا تھاماہے، زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہو۔“

”کیوں نہیں، میں جوصحیح سمجھتا ہوں، وہی لکھتا ہوں۔“
”نرینہ عصبیت کا ترجمان۔۔ مرد جو ہو، عورت کے ایک ایک عضو کو چٹخارے لے کر بیان کر تے ہواور پھر اس پر فخر بھی کر لیتے ہو۔“

”تم بھی تو قلم کار ہو، تمھارے ہاتھ میں بھی قلم ہے، پھر تمھیں کس نے روک رکھا ہے؟“

”میں ایک عورت ہوں۔ کتنا بھی چاہوں کہ اپنے خیالات کو ابکائی کی مانندجوں کا توں قرطاس پر انڈیل دو ں، انڈیل نہیں سکتی۔ میں جس سماج میں رہتی ہوں وہ مجھے اجازت نہیں دیتا۔ کیا لکھوں۔۔۔تمھارے اور اپنے بارے میں۔۔ ان لمحات کے بارے میں جو تم نے میرے ساتھ مختلف شبستانوں میں گزارے یا پھر ان لمحات کے بارے میں جو تم نے کہیں اور کسی دوسری عورت کی آغوش میں گزارے۔میں ترستی رہتی، چھت کی کڑیاں گنتی رہتی، سوچتی رہتی کہ اب آئے گا، تب آئے گا مگر تمھارا کہیں اتا پتا نہیں ملتا تھا۔جب انتظار کرتے کرتے تھک جاتی توسو جاتی۔ میں کملا داس کی طرح بستر مرگ پر تو ہوں نہیں کہ اپنی کہانی یہ سوچ کر لکھوں کہ اگر بدنامی و رسوائی ہو بھی جائے تو میرا کیا جاتا ہے، میں اس کو دیکھنے یا سننے کے لیے زندہ نہیں رہوں گی۔بے چاری کملا داس نے اپنی خود نوشت ’میری کہانی‘ اسی گمان میں قلم بند کی تھی کہ وہ آخری بار دنیا کو دیکھ رہی ہے اور پھر کبھی نہ دیکھ پائے گی۔ لیکن پھر معجزہ ہوا۔ وہ بستر مرگ سے صحتیاب ہوکر اٹھی، کئی برس زندہ رہی اور ہر پل اجنبی لوگوں کی طلبگار دستکوں کا سامنا کرتی رہی۔وہ سب اسے طعنے دیتے رہے، ہر نگاہ اس پر خریدار کی طرح اٹھتی رہی جیسے وہ جسم فروش ہواور ہر ایرے غیرے کی خواہش پوری کرنے کے لیے جی رہی ہو۔ اسے اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سماج کا سامنا کرنا پڑا، اسی سماج کا جس کے آگے وہ کالے حروف کا پیرہن پہن کر عریاں گھومنے کی متمنی تھی۔اس کی آرزو تھی کہ کاش وہ اپنے بدن کا ہر عضو کاٹ کر اور ان کا کولاج بناکر نمائش کے لیے رکھ سکتی۔ مگر میں۔۔۔میں کملا داس نہیں ہوں۔ میں میں ہوں، مجھ میں اتنی ہمت اور قوت نہیں ہے کہ لوگوں کی باتیں سن سکوں، لوگ طعنے دیتے رہیں اور میں اَن سنی کرلوں۔مجھے اپنی بیڑیوں کا پورا احساس ہے۔ ایک عورت کتنی کمزور ہوتی ہے اس کا احساس مجھے ہمیشہ رہا ہے۔“

”تو پھر کیا ضروری ہے کہ تم اپنی کہانی لکھ دو۔ تم یوں ہی عام خواتین کی طرح گھٹ گھٹ کر جی سکتی ہو۔موت تو خیر ایک دن آئے گی ہی۔ اس کا انتظار کر لو۔مگر میں تو اپنی کہانی لکھو ں گا اور مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔“

اور پھر مہتاب راہی اپنی کہانی رقم کرنے لگا۔

مہتاب راہی کی کہانی طویل ہے مگر یہاں پر اس کا لب ِ لباب پیش کیا جارہا ہے۔ وہ ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا جسے طالب علمی کے زمانے ہی میں انگریزی اور اردو لٹریچر کا شوق پیدا ہوگیا۔ جہاں کہیں بھی کوئی ناول یا افسانوی مجموعہ مل جاتا فوراً اسے پڑھ لیتا۔والدین کی خواہش تھی کہ مہتاب انجینئر بن جائے مگر وہ کورس کی کتابیں کم اوراپنی پسندیدہ ادبی کتابیں زیادہ پڑھ لیتا تھا۔انجام کار اسے سائنس سٹریم سے کنارہ کرنا پڑا اور آرٹس سٹریم میں داخلہ لینا پڑا۔ یہاں تو اس کی شخصیت خوب نکھر آئی، بی اے اور ایم اے کے امتحانوں میں فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کر لی۔ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگا اور اپنی تحریروں سے لوگوں کے دل جیتتارہا۔ ایسی ہی ایک محفل میں اس کی جان پہچان رُپالی سے ہوئی۔ وہ شاعرہ تھی اور اپنے کلام و لہجے سے حاضرین کو محظوظ کرنے میں کامیاب ہوتی تھی۔ ناک نقشے سے بہت خوبصورت تھی۔ سٹیج پر جب جلوہ گر ہوتی تو ایسے لگتا تھاکہ کوئی بجلی سی چمک اٹھی ہو۔ درمیانہ قد، شانوں پر گرتے ہوئے سیاہ بال، موٹی چمکیلی آنکھیں، سرخ لب اور متناسب بازو جن کو وہ شعر کہتے ہوئے ہوا میں لہراتی تھی۔ ہال میں تالیوں اور مکرر کی گونج بار بار سنائی دیتی تھی۔ مشاعرہ ختم ہوتے ہی دونوں اتفاق سے مل گئے اور باہم ایک دوسرے میں دلچسپی ظاہر کرنے لگے۔ پھر کئی ملاقاتیں ہوئیں اور آخر کار دونوں نے آپس میں شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔دونوں ایک دوسرے کی محبت میں اتنے غرق ہوگئے کہ فیصلہ لینے سے پہلے انھوں نے ایک دوسرے کی امیدوں، تمناؤں اورتوقعات کے بارے میں پوچھا ہی نہیں۔ انھوں نے اس بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہ ء  خیال کرنابھی مناسب نہ سمجھا۔مستقبل کے بارے میں کون کیا سوچتا ہے اس تعلق سے کبھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔جسم ذہن پر بھاری پڑگیااورشادی بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔

شادی کیا ہوئی گھر مسابقتی اکھاڑہ بن گیا۔ایک زیریں لہر تھی جو اندر ہی اندر دوڑ رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگے۔ دونوں ادبی محفلوں میں واہ واہ بٹورتے رہے اور ایک دوسرے کو یہ دکھانے میں مصروف رہے کہ بازار میں اس کی مانگ زیادہ ہے۔ دوسری جانب دونوں سرکاری ملازم بھی ہوگئے اور مالی طور پر آزاد ی محسوس کر نے لگے۔

رُپالی اپنی جوانی کو طویل تر کرنا چاہتی تھی۔ اس نے یک طرفہ فیصلہ کر لیا کہ وہ آئندہ دس برس تک بچے نہیں جنے گی۔احتیاط کے طور پر اس نے ڈاکٹر سے صلاح مشورہ کرکے اس سمت میں ضروری اقدام اٹھائے۔مہتاب راہی کو پہلے تو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوا لیکن کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد رُپالی نے اسے حقیقت سے روشناس کرایا۔یہ خبر سن کر مہتاب کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔اس نے اپنے مستقبل کے لیے بہت سارے خواب سجائے تھے۔۔۔ ایک سندر سا گھر، خوبصورت بیوی، ننھے منے بچے۔۔ اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں عجیب سا تناؤ پیدا ہوگیا۔بس ڈائننگ ٹیبل پر ایک دوسرے کا سامنا ہوتا ورنہ دونوں ایک دوسرے سے کترانے لگے۔دن دوستوں کے ساتھ گزرتے اور راتیں تنہائی میں۔

انجام کار دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ رُپالی نوکری کے ساتھ ساتھ مشاعرے لوٹتی رہی جب کہ مہتاب رائے کی نثری تصانیف کو ادبی حلقوں میں سراہا جاتا۔ بہر حال دنیا ان کے وجودکے خلا سے لاعلم تھی۔اندر کی بے چینی کو مہتاب راہی نے نچوڑ کر صفحہ ء  قرطاس پر بکھیرنا شروع کر دیا۔ جوں جوں وہ لکھتا رہااس کے من کا بوجھ ہلکا ہوتا رہا۔ اس نے اپنی خود نوشت میں ان لمحات کو قید کیا جنھوں نے اس کے جذبات کو نہ صرف انگیز کیا تھا بلکہ ٹھیس بھی پہنچائی تھی۔

رُپالی نے خود نوشت تو نہیں لکھی مگر اس کی شاعری میں ہجر کی تڑپ، تنہائی کی بے بسی اورمستقبل کی غیر یقینیت جھلکنے لگی۔ اب تو وہ پختہ مشق شاعر بن گئی تھی۔ مشاعروں میں سامعین کی واہ واہ سن کر اس کا دل بلیوں اچھلتا تھامگر جب وہ گھر لوٹ آتی تو دیواریں کاٹنے کو دوڑتی تھیں، گھر سونا سونا سا لگتا تھا کیونکہ وہاں پر کوئی بات کرنے کے لیے منتظر نہ تھا۔جس مرد سے دوستی ہو جاتی وہ صرف اس کے جسم کا شیدائی نظر آتا،کوئی زندگی بھر کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا۔ اِدھر عمر بھی لمبے لمبے ڈگ بھرتی جارہی تھی۔بالوں میں سفید تار نظر آنے لگے جنھیں وہ ہر روز سیاہ کرنے میں جٹی رہتی تاکہ جوان دکھائی دے مگر ڈھلتی عمر کو لاکھ چھپاکر بھی چھپایا نہیں جاسکا۔دوست اس کی قربت تو چاہتے تھے، اس کی تعریفیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے لیکن سہارا دینے کو کوئی تیار نہ تھا۔کئی بار اس نے بھی سوچا کہ اپنی زندگی کی کہانی رقم کرے اور وہ سب تجربات قلم بند کرے جن سے وہ گزر چکی تھی مگر پھر خیال آتا کہ وہ اپنا پورا سچ تو نہیں لکھ پائے گی، اس پر جو کچھ بھی بیتی وہ جوں کا توں رقم نہیں کر پائے گی کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور سماج میں اس کی عزت ہے۔وہ اپنے معاشقوں کے بارے میں اس لاتعلقی سے نہیں لکھ سکے گی جس لاتعلقی سے مہتاب راہی نے اپنی خود نوشت میں بیان کیے تھے۔ اس نے توعیش و عشرت کے ہر واقعے کو بیان کیا تھا۔ کس حسینہ کے ساتھ اس کا معاشقہ تھا، کس کے ساتھ وہ اٹھا بیٹھا، کس کے ساتھ اس نے جسم کی گرمی بانٹی، وہ سب کچھ اس نے قلم بند کیا تھا۔ ایسی بے باکی تو رُپالی کے لیے ناممکن تھی، وہ نہ تو اپنے عاشقوں کے نام گنوا سکتی تھی اور نہ ہی ان کے ساتھ بتائے ہوئے لمحوں کو بیان کرسکتی تھی۔ زندگی کے مزے تو اس نے بھی لوٹے تھے مگر دنیا ان سے آگاہ نہیں تھی۔ اور اگر وہ یہ سب نہیں لکھ سکتی تھی تو اس کی زندگی میں لکھنے کو اور کیا رہ گیا تھا۔باقی ماندہ زندگی تو عامیانہ تھی، اس میں قارئین کو کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔

دراصل مرد کے لیے ایسے واقعات فتوحات سے کم نہیں ہوتے جبکہ عورت کے لیے وہ ہزیمت کا موجب بن جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تومہتاب راہی نے بھی پورا سچ رقم نہیں کیا تھا۔اس نے بھی مصلحتاً ایسی باتیں نہیں لکھی تھیں جن سے اس کی شخصیت پر آنچ آجاتی۔ آخر کمزوریاں تو سبھی لوگوں میں ہوتی ہیں۔ یہاں تو عدالتوں میں مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھ کر بھی لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔اس نے تو کسی مقدس کتاب پر ہاتھ بھی نہیں رکھا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مہتاب راہی کاادھورا سچ اس کی خود نوشت میں بند ہوگیا جبکہ رُپالی کا سچ اس کے من میں ہی دب کر رہ گیا۔انسانوں کے اس سمندر میں کسی نے ان کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔

Facebook Comments

دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply