ہر بیٹی ہی مسکان خان ہو (نظم)۔۔محمد وقاص رشید

مسکان! میں تمہیں سلام پیش کرتا ہوں
خراجِ عقیدت کے لیے اپنا کلام پیش کرتا ہوں
بے شک مسکان کی ستائش فرض ہے
ہر انسان پر انسانیت کا ایک قرض ہے
مسکان کی توصیف کون نہیں کرے گا
ایک مظلوم کے لیے آہ کون نہیں بھرے گا
اس نے جبر کے آگے مزاحمت کر کےکارنامہ سر انجام دیا
ان بلوائیوں کے آگے سر نہ جھکا کر معرکہ سر انجام دیا
ایک بے بس نہتی لڑکی کو ہراساں کرتے بے شرم
اپنی عصبیت کے مارے ہوئے وحشی ہٹ دھرم
ایک لمحے کو مگر اپنی آنکھیں ذرا بند کرتے ہیں ,
اور اپنے کان بلکہ دل کے کان کھلے رکھتے ہیں ,
مسکان کی جگہ ہوا کی کوئی اور بیٹی ہے,
اس نے برقعے کی بجائے جینز پہن رکھی ہے,
اسکے ہونٹوں پر ہمارے مزہب کا کوئی نعرہ نہیں,
یا اس نے ہمارے من پسند انداز میں خدا کو پکارا نہیں,
بلوائیوں کے حلیے بھی اب تبدیل ہو چکے ہیں,
وہ سب بھی اب ہمارے مزہب کے ماننے والے دکھ رہے ہیں
ایسےمیں کیااس لڑکی کی آہ بھی ہمارےدل تلک پہنچی؟
کیا وہ مظلوم بھی ہماری ہمدردیاں سمیٹ پائی۔۔؟
کیا ہم اپنے مزہب اور ملک کے بلوائیوں کی بھی یونہی مذمت کرتے ہیں ؟
کیا ہم اپنی عصبیتوں سے بالاتر اس مظلوم کے لیے بھی آہ بھرتے ہیں۔۔۔ ؟
اگر ہاں تو مرحبا۔  ۔۔ ماشااللہ۔ جزاک اللہ
اگر نہیں تو ہم عدل و انصاف نہیں ظلم کو موافق ہیں
ہم بے شک۔۔۔ بلا شبہ  ۔۔۔ منافق ہیں ۔۔
ہمیں ہر کسی کے لیے ایک اصول ہی رکھنا ہو گا۔۔۔
جس پر ہر ظالم و مظلوم کو پرکھنا ہو گا ۔۔
جی ہاں یہ زہر اب ہمیں پھانکنا ہو گا۔۔
ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا،
ہندوستان ہو یا پاکستان ہو،
کوئی غیر مسلم یا مسلمان ہو،
ہر مظلوم صرف اور صرف انسان ہو،
ہر حوّا کی بیٹی یہاں مسکان خان ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply