دیپک بُدکی کی تحاریر
دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

ہرکارہ۔۔دیپک بدکی

تپتی ہوئی سرمئی سڑک پر وہ اپنی سائیکل گھسیٹے جا رہا تھا مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ سارا بدن جلتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ سانس بھی پھول چکی تھی۔ پھر بھی وہ منزل تک پہنچنے کی←  مزید پڑھیے

لہو کے گرداب۔۔دیپک بدکی

کئی گھنٹوں سے وہ اپنے ہم سفر کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ واپس آیا نہ کہیں دکھائی دیا۔ ہر لمحہ اس کے لیے امتحان بنتا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ’’ یہ ریل گاڑی جب منزل مقصود←  مزید پڑھیے

اندھیر نگری۔۔دیپک بدکی

ایک زمانہ تھا کہ مطبوعہ تحریر کو اکثر مستند مانا جاتا تھا۔ جہاں کہیں کسی اخبار، رسالے یا کتاب میں کوئی بات چَھپ جاتی اس پر فوراً یقین کیا جاتا۔ تشکیک کی بہت کم گنجائش ہوتی تھی۔ جہالت اور ضعیف←  مزید پڑھیے

ڈاک بابو۔۔۔دیپک بدکی

انگریزوں کے قاعدے قانون آج بھی ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ دیوانی قانون، فوجداری قانون،  تعزیراتِ ہند۔! ہندستان ہی کیا پورے برِصغیر کی یہی حالت ہے۔ انگریزوں نے ہمارے نظام کو اتنا مسخ کر دیا کہ اب یوں لگتا ہے←  مزید پڑھیے

گونگے سنّاٹے۔۔دیپک بدکی

یہ ایک سچّی کہانی ہے مگر میری گزارش ہے کہ ان کرداروں کو آپ ڈھونڈنے نہیں نکلنا کیونکہ اب وہ وہاں پر نہیں رہتے ہیں۔ نہ جانے ٹرانسفر ہو کر کہاں چلے گئے۔ منوہر کھرے کام تو کسی اور سنٹرل←  مزید پڑھیے

جاگتی آنکھوں کے خواب۔۔دیپک بدکی

آرزوؤں کی اُڑان کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ نہ مالی حالت دیکھتی ہے اور نہ سماجی رتبہ۔ شعبان ڈار کی دِلی آرزو تھی کہ اس کے دونوں بیٹے، خالد اور اشتیاق ڈاکٹر بن جائیں۔ در اصل ان دنوں اکثر←  مزید پڑھیے

یومِ حساب۔۔دیپک بدکی

ایک زمانہ تھا کافی ہاؤس کشمیری سیاست کا بیرومیٹر ہوا کرتا تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے ہی سیاست دان، صحافی، دانشور، فن کار، گورنمنٹ ملازم اور طلبہ کافی ہاؤس میں جمع ہو جاتے اور حالات حاضرہ پر بحث و مباحث←  مزید پڑھیے

آگ کا دریا۔۔دیپک بدکی

میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ تجربے کی کمی ہونے کے سبب فائیلوں پر فیصلے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ فائلیں تو نپٹانی تھیں۔ آخر تنخواہ کس بات کی لے رہا تھا۔ ماتحتوں پر بھروسہ←  مزید پڑھیے

گواہوں کی تلاش۔۔دیپک بدکی

میں نے گواہوں کی تلاش میں سارا شہر چھان مارا مگر کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ انھیں عدالت میں جھوٹ نہیں بولنا تھا بلکہ سچائی بیان کرنی تھی، پھر بھی کسی کو میرے ساتھ ہمدردی نہ ہوئی۔←  مزید پڑھیے

موت کا کنواں ۔۔دیپک بدکی

پتا جی نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا تاکہ میں کہیں اِدھر اُدھر نہ چلا جاؤں اور بھیڑ میں گُم ہو جاؤں۔ میرے ساتھ میری ماں اور بڑی بہن بھی تھی جو عمر میں مجھ سے آٹھ سال←  مزید پڑھیے

اب میں وہاں نہیں رہتا۔۔دیپک بدکی

ڈاکیہ تین بار اس ایڈرس پر مجھے ڈھونڈنے گیا تھا لیکن تینوں بار مایوس ہو کر لوٹ آیا۔ اس نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی، بلند آواز میں میرا نام پکارا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ لیا←  مزید پڑھیے

ایک انقلابی کی سرگزشت(2،آخری حصّہ)۔۔دیپک بُدکی

صاعقہ کے تیور دیکھ کر میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔ کچھ بھی نہ بولا۔ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی۔ بس اس کے ہونٹوں پر ایک لمبا سا بوسہ دے کر الوداع کہہ دیا۔ پھر اکیلے←  مزید پڑھیے

ایک انقلابی کی سرگزشت(1)۔۔دیپک بُدکی

میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسّی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گُل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا،←  مزید پڑھیے

شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کی یاد میں خراج عقیدت۔۔دیپک بُدکی

میں کشمیر گورنمنٹ آرٹس ایمپوریم کے اشوکا ہوٹل نئی دہلی برانچ میں ١٩٧٢ میں بحیثیت منیجر تعینات تھا۔ بالی ووڈ کی کئی شخصیات ہوٹل میں آتی تھیں اور کچھ دن قیام کرتی تھیں۔ چند ایک کا اتفاقاً سامنا ہوا، میں←  مزید پڑھیے

تیرا سچ، میرا سچ۔۔دیپک بُدکی

”تم کیا سمجھتے ہو کہ لکھاری ہونے کے سبب تم جوکچھ لکھوگے لوگ اسے سچ مان لیں گے؟“ اسے کسی عورت کی آواز سنائی دی۔ مگریہ آواز اس کے درون سے آرہی تھی اور اس کی اہلیہ کی آواز سے←  مزید پڑھیے

افسانچہ:کتبہ۔۔دیپک بدکی

یہاں پر ایک بےوسیلہ اَن پڑھ عورت دفن ہے جو ساری عُمر اپنے قلم کار شوہر کے جھوٹے الزامات کا جواب نہیں دے پائی!←  مزید پڑھیے

زاہدہ حنا!رقصِ بسمل کے آئینے میں۔۔دیپک بُدکی

”عورت ہونا، کہانیاں لکھنا، اختلاف کرنا , یہ ہمارے معاشرے کی تین خرابیاں ہیں۔ اور میں ان کا مجموعہ ہوں۔“ (زاہدہ حنا) افسانہ نگار، ناول نگار، مضمون نگار اور کالم نگار زاہدہ حنا کی نگارشات عصری حسیت کی آئینہ دار←  مزید پڑھیے