موت کا کنواں ۔۔دیپک بدکی

پتا جی نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا تاکہ میں کہیں اِدھر اُدھر نہ چلا جاؤں اور بھیڑ میں گُم ہو جاؤں۔ میرے ساتھ میری ماں اور بڑی بہن بھی تھی جو عمر میں مجھ سے آٹھ سال بڑی تھی۔ اتوار ہونے کے سبب گورنمنٹ سنٹرل مارکیٹ میں، جس کو ’نمائش گاہ ‘ یا ’نمائش‘ بھی کہتے ہیں، لوگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ ایک توا توار کی چھٹی تھی اور اس پر انتظامیہ نے ’نارء ووٹھ‘( آتشی چھلانگ ) کا اہتمام کیا تھا۔

انسانی فطرت عجیب سی ہے۔ اس کی ایذا پسند جبلت اپنے ہی ہم جنس کو زندگی جوکھم میں ڈالتے دیکھ کر محظوظ ہوتی ہے اور اسے تماشا  کہا جاتا ہے۔ خود کہیں معمولی سی خراش بھی لگ جائے تو تلملا اٹھتا ہے۔ خیریہ تو صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ماضی میں کئی ملکوں کے مبارز آپسی جھگڑوں کا فیصلہ ’ڈوئیل‘ کے ذریعے طے کرتے تھے اور ناظرین لطف اندوز ہوتے تھے۔ اٹلی کے شہر روم میں بنے سب سے بڑے ایمفی تھیٹر، کولوسیم، میں پیشہ ور تیغ زنوں اور وحشی جانوروں کے باہمی مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا جس کو دیکھ کر بادشاہ، رؤسا اور دیگر تماشائی محظوظ ہوتے تھے۔ شاید لشکر کشی بھی اسی بہیمت کا نتیجہ رہی ہو۔ اب موجودہ زمانے میں بھی وہی جبلت کار فرما ہے۔ نمائش گاہ میں اکٹھی ہوئی یہ بھیڑ ایک غریب آدمی کو موت کے کنویں میں چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھنے کی متمنی تھی چاہے اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ سنٹرل مارکیٹ میں والد کی لکڑی کے سامان اور پیپر ماشی کی دُکان تھی۔ نمائش کے دوران وہ صبح سویرے دکان پر چلے جاتے اور رات دیر گئے واپس آتے۔ نمائش گاہ کے تین حصے تھے۔ پہلے میں مستقل دُکانیں تھیں جہاں کشمیر میں پیدا ہونے والی چیزیں، صنعتی اشیا اور دستکاریاں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ دکانیں سال بھر کھلی رہتی تھیں کیونکہ سیاح خریداری کے لیے یہاں چلے آتے تھے۔ دوسرے حصے میں ایک دو مہینوں کے لیے عارضی دُکانیں کھُل جاتی تھیں جن دنوں نمائش کا اہتمام ہوتا تھا۔ ان دکانوں میں دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے تاجر ایسی چیزیں دستیاب کرتے تھے جو عام طور پر مقامی بازاروں میں نہیں ملتی تھیں۔ تیسرا حصہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے لیے مخصوص تھا جہاں سرکار کی طرف سے سال بھر کیے گئے اقدامات کو درشایا جاتا تھا۔ گذشتہ سال میں بجلی، پانی، سڑک، تعلیم، جنگلات، ریشمی صنعت، حفظان صحت اور منصوبہ بندی وغیرہ کے میدانوں میں سرکاری حصولیابیوں کا لیکھا جوکھا لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ کچھ ثانیوں کے لیے لوگ یہ بھول جاتے تھے کہ موسم سرما میں ان کے گھروں میں اندھیرا رہتا ہے، پارے کی گراوٹ اور پانی کی کمی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور بازاروں سے اشیائے خوردنی، ایندھن اور مٹی کا تیل غائب ہو جاتے ہیں۔

نمائش گاہ کے درمیانی حصے میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مضبوط ایلومینیم کی سیڑھی عموداً کھڑی رہتی تھی جس کواسٹیل کی موٹی تاروں سے زمین میں اس طرح پیوست کیا گیا تھا کہ تند و تیز ہوائیں بھی اس کو ہلا نہیں پاتی تھیں۔ سیڑھی کے آخری پائیدان پر ایک بڑا سا تختہ جڑا ہوا تھاجس پر ایک آدمی بمشکل کھڑا رہ سکتا تھا۔ وہاں پر پہلے ہی سے پٹرول کا ایک کھلے منہ والا کنستر اور ایک سونٹا، جس کے ایک سرے پر کپڑا لپیٹا گیا تھا، رکھا جا چکا تھا تاکہ مشعل کا کام دے سکے۔ زمین سے اس تختے پر نظر ڈالتے ہی سارے بدن میں کپکپی پھیل جاتی تھی۔

پاپا نے کھڑے رہنے کے لیے ایک اچھی سی جگہ ڈھونڈ لی تھی جہاں سے ہم ساری کار روائی بڑی آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔ لوگ آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ میں تھا تو بہت چھوٹا مگر اتنا چھوٹا بھی نہیں کہ بڑوں کی باتیں سمجھ نہ آتیں۔ زیادہ تر لوگ چھلانگیے کی ہمت اور حوصلے کی داد دے رہے تھے اور دبی آواز میں دعا کر رہے تھے کہ سارا معاملہ بخیر انجام پائے۔ سب کو یہ احساس تھا کہ کام بہت جوکھم کا ہے اور تھوڑی سی چوک بھی اس کی جان لے سکتی ہے۔ بغل میں کھڑا ایک جوان کسی بزرگ سے کہنے لگا۔

’’ آپ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہو گا کہ اگر جسم پر آگ لگا کر ناگاہ ہوا بہت تیز ہو گئی تو آگ پر قابو پانا مشکل ہو گا۔ آدمی جل سکتا ہے یا پھر اس کا دم گھٹ سکتا ہے۔ سنا ہے کہ ماضی میں ایک بار ایسا ہوا تھا۔ ‘‘

’’ میں نے بھی کچھ ایسا ہی سنا ہے۔ ‘‘ بزرگ نے ہاں میں ہاں ملائی۔

کوئی تیسرا آدمی بیچ میں بول پڑا۔ ’’ سچ کہہ رہے ہیں بھائی صاحب۔ یہ بہت ہی جوکھم کا کام ہے۔ اگر کودتے سمے چھلانگیے کی سمت میں کچھ ہیر پھیر ہو گئی تو خدا ہی حافظ ہے۔ چاروں طرف تاروں کا جال ہے۔ ‘‘

’’یہ بھی ممکن ہے کہ تیز ہوا کے دباؤ کے ساتھ کہیں بہہ گیا تو دائیں بائیں تاروں کے جال میں الجھ جائے گا اور پھر بے قابو ہو کر پانی کی بجائے زمین پر گر سکتا ہے۔ اس طرح زبر دست چوٹ لگ سکتی ہے۔ اور پھر جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں۔ ‘‘ پہلا آدمی دوبارہ بول اُٹھا۔

’’ بھائی، اس کی سمت کی رہنمائی کرنے کے لیے ہی تو نیچے کنویں میں پٹرول ڈال کر آگ لگائی جاتی ہے تاکہ وہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے۔ پھر بھی خدا مالک ہے۔ ‘‘ دوسرے نے اپنی رائے دی۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا جب تک اصل کار روائی شروع نہ ہوئی۔ اِدھر ممی لوگوں کی باتیں سن کر بہت ڈر گئی۔ اس کے اندر ممتا جاگ اٹھی۔ وہ پتا جی سے کہنے لگی۔ ’’ اگر میری بات مان لیں تو یہاں سے چل دیں۔ مجھے یہ موت کی چھلانگ دیکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ خدانخواستہ اگر کچھ ہو گیا تو مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔ ‘‘

پتا جی کو اس کی پریشانی کا اندازہ ہو گیا۔ انھوں نے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ ’’ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہرا توار کو یہ تماشا  ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کبھی کوئی مشکل نہیں آئی۔ تم اطمینان رکھو۔ ‘‘

مگر ممی کا اضطراب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ آخر عورت جو تھی۔ عورت کا دل بہت ہی نرم ہوتا ہے۔ اسے دوسرے کی مصیبت دیکھی نہیں جاتی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ اپنے شوہر کے قریب تر آتی گئی۔ پہلے اس کی بانہہ پکڑ لی اور پھر اس کے بدن کے ساتھ مانو چمٹ سی گئی۔ ہم بچے سمٹ کر والدین کی بغل میں کھڑے رہے۔

’’پاپا، انسان کی سادیت پسندی اس کے ذہن پر کیوں غالب آتی ہے ؟‘‘ دیدی نے پاپا سے سوال کیا۔

’’ ایسا نہیں ہے۔ ہاں کبھی کبھار انسان یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ ‘‘

’’ میں آپ سے اتفاق نہیں کرتی۔ در اصل انسان کی جبلت ہی میں سفلہ پن ہے۔ ہر دور میں انسان دوسروں کو تہ تیغ کرنے سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ محض ایک عورت کی خاطر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا خون بہاتا رہا۔ چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے کے لیے سارے خطے کو لال کرتا رہا۔ خدا کا حکم بجا لانے کے لیے شمشیروں کو آبدار کرتا رہا جیسے خدا اپنا حکم منوانے کے قابل نہ ہو۔ در اصل انسان بذاتہ اپنی حیوانی وراثت کو بھلا نہیں پاتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان بارہا تفریحاً ایذا رسانی پر آمادہ ہوا ہے۔‘‘

ممی کو من ہی من میں حیرت ہو رہی تھی کہ اس کی بیٹی کتنی بڑی بڑی اور سیانی باتیں کرنے لگی ہے۔ وہ خود نہ جانے کن خیالوں میں کھو گئی تھی۔ اس کو اپنی زندگی کے وہ دن یاد آ رہے تھے جب اس نے پاپا سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پاپا زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بس میٹرک پاس تھے۔ شکر تھا کہ وراثت میں انھیں دو دکانیں مل گئیں جن سے وہ مستقبل میں اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر پائے ورنہ نہ جانے کیسے دن دیکھنے پڑتے۔ ممی خود تعلیم یافتہ تھی۔ ایم اے پاس کیا تھا۔ کالج کے دنوں ہی میں پاپا کے ساتھ عشق کر بیٹھی تھی۔ نانا جی سرکاری افسر تھے۔ انھوں نے بہت سمجھایا بجھایا مگر ممی نے قدم پیچھے ہٹانے سے صاف انکار کیا۔ رشتے داروں نے بھی سمجھایا کہ تم اندھے کنویں میں کود رہی ہو۔ تم دونوں کا کوئی میچ نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے، چھوڑ دو اور نئی زندگی شروع کرو۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے کئی تعلیم یافتہ لڑکے مل جائیں گے۔ بس ہاں کرنے کی دیر ہے۔ مگر وہ نہ مانی۔ اور اس طرح والدین شادی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس روز اس نے بھی طعنوں اور جھڑکیوں کے درمیان موت کے کنویں میں چھلانگ لگائی تھی۔ سہیلیاں ڈاکٹروں اور انجینئروں سے بیاہی گئیں جبکہ وہ اپنے آپ کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں سمجھتی تھی۔ وہ اپنے پنڈت سماج کو کوستی رہتی جس میں صرف پڑھے لکھے اور اچھے عہدے پر کام کرنے والوں کو ہی عزت دار سمجھا جاتا ہے۔ ممی بہت دیر تک انھی خیالوں میں کھوئی رہی اور اسے آس پاس کی کوئی خبر نہ رہی۔ وہ صرف اس آگ کے کنویں کے بارے میں سوچ رہی تھی جس میں وہ بہت عرصہ پہلے کود چکی تھی۔

کچھ وقفے کے بعد ایک ٹھگنا سا آدمی، سر سے پیر تک موٹے سفید کپڑے کی پٹیاں باندھے، کنویں کے دوسرے کنارے پر پھرتی سے چلتے ہوئے دکھائی دیا جیسے ابھی ابھی کسی ہسپتال سے مرہم پٹی لگا کر نکلا ہو۔ البتہ چہرہ اور ہاتھ کھلے چھوڑ رکھے تھے تاکہ زینہ چڑھنے، سانس لینے اور دیکھنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ لوگوں نے دیکھتے ہی تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے اس کا استقبال کیا۔

چھلانگیا آہستہ آہستہ دونوں ہاتھوں سے سیڑھی کو تھامے اوپر کی جانب قدم بڑھاتا چلا گیا۔ یکایک لوگوں میں عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ان کے دل کی دھڑکنیں بند ہو گئی ہیں۔ سبھی لوگ اپنی سانسیں روکے اس کی نقل و حرکت کو مسلسل دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ دلیری سے ایک ایک پائیدان سر کرتا ہوا آخری پائیدان پر پہنچ گیا جہاں اس کے کھڑے ہونے کے لیے ایک چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ لمحہ بھر رک کر اور گہری سانس لے کر وہ اس تختے پر جا کھڑا ہوا جہاں سے اس کو کودنا تھا۔ اس نے دایاں ہاتھ ہلا کر تماشائیوں کا خیر مقدم کیا۔ پھر مشعل کو پٹرول کے کنستر میں ڈبو کر باقی پٹرول اپنے اوپر چھڑک لیا۔ اس کے بعد ماچس سے مشعل جلائی اور جلدی سے دستانے اور ٹوپی پہن لی۔ ٹھیک اسی وقت نیچے کسی شخص نے کنویں میں پٹرول ڈال کر اسے آگ لگا دی۔ چھلانگیے نے اشارہ پا کر دفعتاً پٹرول چھڑکے بدن کو آگ دکھا دی۔

مبہوت لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ایک انسان اوپر سیڑھی کے آخری پائیدان پر شعلہ بار ہو چکا تھا۔ وہ من ہی من میں دعائیں کر رہے تھے کہ سب کچھ سلامتی سے انجام پذیر ہو جائے۔ کنویں کی آگ سے سمت کا اندازہ لگا کر چھلانگیا کنوئیں کی جانب کود پڑا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آسماں سے کوئی آگ کا گولا گر کر کنویں کی جانب آ رہا ہو۔ کنویں کے ارد گرد کئی مدد گار چوکس کھڑے تھے۔ جونہی چھلانگیا کنویں میں گر پڑا انھوں نے فوراً اسے باہر نکالا۔ پانی میں گرنے کے سبب اس کے بدن کا شعلہ بجھ چکا تھا۔ کنویں سے نمودار ہوتے ہی پٹیوں میں بندھا وہ چھلانگیا نہ جانے کہاں اوجھل ہو گیا۔

تماشائیوں میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی جس کا اظہار انھوں نے تالیوں سے کیا۔ اس کے بعد مجمع میں ہلچل سی مچ گئی۔ سبھی لوگ واپس گھر جانے کے لیے صدر گیٹ کی طرف دوڑ پڑے۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہم بھی گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ممی نے راستے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ بس سوچتی رہ گئی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے اپنے خاوند سے سوال کیا۔ ’’ کیا اس چھلانگیے کے بال بچے بھی ہیں؟‘‘

’’ ہاں کیوں نہیں۔ یہ کشمیر کا باشندہ نہیں ہے۔ باہر سے آیا ہے۔ اس کی فیملی اس کے آبائی شہر میں رہتی ہے۔ یہ سب جوکھم وہ ان کا پیٹ پالنے کے لیے ہی اٹھاتا ہے۔ ‘‘

’’ کیا اس کے بچوں کو معلوم ہو گا کہ ان کا باپ کس طرح روزی روٹی کمانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگاتا ہے ؟‘‘

’’ بھگوان جانے۔ کم سے کم بیوی کو معلوم ہو گا۔ اس کو تو بتایا ہو گا۔ ‘‘

’’ وہ اسے منع نہیں کرتی ؟ اسے یہ تو معلوم ہو گا کہ یہ کھیل کتنا جوکھم بھرا ہے۔ ‘‘

’’ معلوم تو ہو گا ہی مگر وہ بے چاری مجبور ہے۔ عیال کا پیٹ تو کسی طرح پالنا ہی ہے۔ وہ کیسے روک سکتی ہے۔ پھر ایک یہ چھلانگیا ہی تو نہیں ہے جو جوکھم بھرے کام کرتا ہے۔ پیٹ کی آگ انسان سے کیا کچھ نہیں کرواتی۔ ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

اس رات مجھے بالکل نیند نہیں آئی۔ آج اتنے برسوں بعد جب بھی میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو رواں رواں کھڑا ہو جاتا ہے۔ مجھے تو ساری دنیا موت کا کنواں نظر آتی ہے جس میں ہم بار بار کودتے اور اُبھرتے رہتے ہیں۔

Facebook Comments

دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply