ایک انقلابی کی سرگزشت(2،آخری حصّہ)۔۔دیپک بُدکی

صاعقہ کے تیور دیکھ کر میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔ کچھ بھی نہ بولا۔ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی۔ بس اس کے ہونٹوں پر ایک لمبا سا بوسہ دے کر الوداع کہہ دیا۔

پھر اکیلے میں فکر مند ہوا۔ ’’ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے صاعقہ۔ آزادی کے بعد کچھ بھی تو نہ بدلا۔ صرف حکمران بدل گئے۔ پہلے بدیشی تھے اور اب سو دیشی ہیں۔ سوشلزم، کمیونزم، مساوات، عوام شاہی، طبقاتی جد و جہد- کھوکھلے نعرے ہوا میں تحلیل ہوتے رہے۔ سرمایہ داری ہماری رگ رگ میں بس گئی ہے جبکہ ہم ان کھوکھلے نعروں سے اپنا دل بہلا رہے ہیں اور بیوقوف بنتے جا رہے ہیں۔

انسانی جذبات اور اذیتوں کی کہانی بھی عجیب سی ہے۔ جب نکاس کے لیے جگہ نہیں ملتی تو انقلابی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر نظر آتے ہیں جنتر منتر، رام لیلا میدان اور تحریر سکوائر۔ ‘‘

مجھے احساس ہوا کہ میری رگوں میں اب خون سرد پڑ چکا ہے تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں بدستور غریبوں کی بستیوں میں جا کر ان کی باز آباد کاری کے لیے کام کرتا رہا۔ ان گندی بستیوں میں آج بھی زندگی ویسی ہی ہے جیسی انگریزوں کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ ایک بار مجھے اپنے این جی او کی خاطر امداد حاصل کرنے کے لیے دہلی جانا پڑا۔ بیس سال پہلے میں اس شہر میں پہلی بار وارد ہوا تھا۔ ان دنوں جگہ جگہ غریبوں کے لیے ڈھابے ہوتے تھے، کاونٹر کے پیچھے مالک کھڑا ہوتا تھا، ساتھ ہی دو چار پیتل کے بڑے بڑے پتیلے سجے ہوتے تھے جن میں دال، سبزی، راجما اور چاول ہوتے تھے۔ نزدیک ہی تندور میں روٹیاں سینکی جاتی تھیں۔ پوری تھالی کی قیمت ڈیڑھ روپے ہوتی تھی۔ دال اور پیاز مفت مل جاتے تھے۔ غریب سے غریب آدمی بھی شکم سیر ہو کر باہر نکلتا تھا۔ ان بیس برسوں میں نہ جانے کیا ہوا۔ ڈھابے اڑ گئے، غریبوں کی دکانیں اڑ گئیں، ان کی جگہ اونچے اونچے مال بن گئے جن کے اندر غریب لوگ قدم رکھنے سے بھی ڈر جاتے ہیں۔ اندر میک ڈونلڈ ہے، پیزا ہٹ ہے، بر جر کنگ ہے اور بھی نہ جانے کس کس ملک کے طعام ہیں مگر سستی دال روٹی نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری نئی نسل دیسی طعام کا مزہ ہی بھول چکی ہے۔ عام لوگوں کے لیے باہر ریڑھیوں پر پاؤ باجی، چھولے کلچے، سبزی پوری اور اڈلی ڈوسا ملتا ہے جن میں ملاوٹی مصالحوں کے علاوہ سڑکوں کی دھول ملی ہوتی ہے۔ ان برسوں میں دہلی کتنی بدل چکی تھی۔ مجبور ہو کر میں بھی ایک ریڑھی والے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور چھولے کلچے کھا کر پیٹ کی آگ بجھاتا رہا۔

رات کا ڈنر لاجپت نگر میں ایک دوست صابر محمود کے گھر میں کر لیا جو میری ہی طرح انقلابی تھا مگر زمیندار باپ کی وجہ سے جلد راہ راست پر آ گیا اور ایم اے، پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹی میں لیکچرر ہو گیا۔ در اصل جوانی میں کئی رئیس زادے سوشلزم کی باتیں کرنے میں جوش و ہیجان سا محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ صابر محمود آج بھی دوسرے انٹلکچول لوگوں کی طرح سوشلزم پر لمبے لمبے لیکچر دیتا ہے مگر اس کے گھر میں جاگیر داری کی ٹھاٹ اب بھی باقی ہے۔ ڈنر کھاتے وقت مسز صابر نے اپنے شوہر سے پوچھا۔ ’’ آپ آج جنید کے نئے سکول گئے تھے ؟‘‘

’’ ہاں فارم لے کر آیا ہوں۔ انھوں نے ایڈمشن فیس میں اضافہ کر لیا ہے۔ اب ڈیڑھ لاکھ دینا پڑے گا اور ماہانہ فیس بیس ہزار الگ۔ ‘ ‘

’’ اس میں تو کوئی چارہ نہیں ہے۔ بچے کو اچھی تعلیم دینی ہے اتنا تو کرنا ہی پڑے گا۔ آج کل ہر جگہ یہی ریٹ چل رہا ہے۔ ‘‘

میں خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا اور فکر و تردد کے اتھاہ سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ داخلے کے لیے اور ماہانہ بیس ہزار! ہمارے زمانے میں سرکاری سکولوں سے کتنے ہی ڈاکٹر انجینئر، سائنس دان اور دانشور نکلتے تھے اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے تھے۔ ان سکولوں میں فیس برائے نام ہوتی تھی۔ پھر یہ سب کیا ہوا؟ یہ کونسی ترقی کر لی ہم نے ؟ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔

خیر وقت کی رفتار کسی کے لیے نہیں رکتی۔ صاعقہ اور میں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ وہ بارہا انڈر گراونڈ ہو جاتی اور مہینوں اس کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا تھا۔ کہاں ہے، کیسی ہے، زندہ ہے یا مر گئی، کوئی بتا نہیں سکتا تھا۔ اس بار وہ کئی مہینوں تک غائب رہی۔ نہ جانے کہاں کہاں گھومتی رہی اور پھر ایک روز آدھی رات کے قریب دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اندر سے پوچھا۔ ’’کون؟‘‘

’’صاعقہ ‘‘ دروازے کے باہر سے آواز آئی۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھول کر اسے اندر کھینچ لیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ ان دنوں حکومت نکسلیوں کی پکڑ  دھر  میں زور و شور سے مصروف تھی۔ میں نے اس کو باز رکھنے کی بہت کوشش کی تھی، کئی بار سمجھایا بھی تھا لیکن صاعقہ کے سر پر جو بھوت سوار ہو چکا تھا وہ نہ اترنا تھا اور نہ اترا۔

میں نے کمرے کی ساری کھڑکیاں بند کر لیں اور ان پر پردے ڈال دیے۔ پھر دوسرے کمرے کی بتی جلائی تاکہ ہمارے کمرے میں زیادہ اجالا نہ ہو۔ میں صاعقہ سے رازدارانہ لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’’صاعقہ یہاں تم کو ڈھونڈنے کے لیے کئی بار پولیس آ چکی ہے۔ تم کوئی غلط کام تو نہیں کر رہی ہو۔ مجھے تمھاری سخت فکر لگی رہتی ہے۔ ‘‘

’’ کم آن، کس بات کی فکر؟ میں تو سر پر کفن باندھ کر نکلی ہوں۔ اب کیسا واپس مڑنا۔ ہمیں یہ متعفن نظام بدلنا ہے۔ بندوق کے بغیر یہ کبھی نہیں بدل سکتا۔ بنگال اور ترپورا میں تمہارے دہریہ کمیونسٹ رفیق ہر سال پوجا پنڈالوں پر کروڑوں روپے پھونکتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ہندستانیوں کے لیے کمیونزم کا مطلب صرف روٹی کپڑا اور مکان ہے اور کچھ نہیں۔ وہ اس دنیا کی بجائے دوسری دنیا میں سکون کے متمنی ہیں۔ مندر مسجد وہ چھوڑ نہیں سکتے۔ صبح اٹھ کر اذان بھی سننا چاہتے ہیں اور مندروں کی گھنٹیاں بھی بجانا چاہتے ہیں۔ ہندو کمیونسٹوں نے مارکس کو قشقہ لگایا ہے اور مسلمان کمیونسٹوں نے اس کا ختنہ کر دیا ہے۔ مرنے کے بعد بھی پرمپراؤں کا خیال رکھا جاتا ہیں۔ ہندو لاش کو جلا کر ہی مکتی مل جاتی ہے اور مسلمان لاش کو قبر ہی میں آرام مل جاتا ہے گو پوری عمر وہ الحاد کا حامی رہا ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے دوست ثقافتی انقلاب لائیں گے۔ کبھی نہیں۔ وہ کرسیوں پر بیٹھ کر سرشار ہو رہے ہیں۔ ‘‘

اس رات بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ صبح پو پھٹنے سے پہلے میں نے اس کو خفیہ راستے سے بستی سے دور پہنچا دیا۔

پھر کچھ مہینے بعد کسی نے خبر دی کہ صاعقہ نے کسی اورسے دوستی کر لی ہے۔ دونوں جنگلوں میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ حکومت نے اس کے دوست شاہ نواز اور اس کے سر پر پچاس پچاس ہزار کا انعام رکھا ہے۔ پولیس کو میری اور صاعقہ کی دوستی کی خبر مل چکی ہے اس لیے میرے گھر پر چوبیس گھنٹے پہرہ لگا رہتا ہے۔ لیکن وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں ان حرکتوں میں کبھی شامل ہوا ہی نہیں۔ اس کے باوجود پولیس نے مجھے کئی بار تفتیش کے لیے تھانے پر بلایا اور صاعقہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی مگر میں کیا بتاتا، مجھے تو اس سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھ پوچھ کے تھک گئے۔

دھیرے دھیرے پانی میرے سر سے اونچا ہو گیا۔ پولیس کی یاتنائیں بڑھتی گئیں۔ میں بہت پریشان ہو گیا۔ پیشیاں، سوالات، ایذا رسانی۔۔ ۔۔ ۔ ! کئی بار میرے ساتھ زیادتیاں بھی کی گئیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرا قصور کیا ہے۔۔ ۔ ؟ کیوں بار بار مجھے تھانے پر بلایا جا رہا ہے۔۔ ۔ ؟اب تو اپنے پرائے کو بھی مجھ پر شک ہونے لگا تھا۔ کوئی نکسلی سمجھتا تھا اور کوئی دیش دروہی۔ کوئی سلام کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تھا اور کوئی دیکھ کر کنی کاٹ لیتا۔ میں اندر ہی اندر گھلتا جا رہا تھا مگر چہرے سے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔

ایک روز ایک قریبی دوست سومناتھ بسواس نے مجھ سے کہا۔ ’’ شاعر بابو، تم کیا سمجھتے ہو کہ اپنے نام کے ساتھ’ بھا رتی‘ جوڑنے سے تم بھارت واسی ہو گئے۔ تم نے بہت بڑی غلطی کر لی۔ تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے ہوتے، اس وقت نہ جانے کس بڑے عہدے پر فائز ہوتے۔ یہ لوگ تو تمھیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ آتنک وادی سمجھ بیٹھے ہیں۔ وحید بھارتی جی، یہ دھرتی اب تم لوگوں کو قبول نہیں کرتی۔ کمیونسٹ ہو تو کیا ہوا۔ ہو تو مسلمان ہی۔ ‘‘

مجھے سومناتھ کی باتیں سن کر ایسے لگاجیسے کسی نے میرے ذہن پر کوڑے برسائے ہوں۔ ان دنوں ہمارے علاقے میں زبردست فرقہ وارانہ فساد رونما ہوا تھا۔ پولیس کئی لوگوں کو آئی ایس آئی ایجنٹ بتا کر حراست میں لے گئی تھی۔ میں سومناتھ بسواس کو کیا جواب دیتا۔ کیسے بتاتا کہ میرے خاندان نے ہندستان کی آزادی کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ خود میں نے حرص وہوس کو کبھی آگے پھٹکنے نہیں دیا۔ میں نے کسی عہدے کے لیے جد و جہد نہیں کی تھی۔ میں نے تقسیم وطن کو نامنظور کیا تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ جس دھرتی پر پیدا ہوا ہوں اسی پر آخری سانس لوں گا۔ بہر حال میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ چند ہی دہائیوں میں ہوا کیسے بدل گئی۔ یہ سب کیا ہوا، کیسے ہوا؟ سب کچھ میری سمجھ سے باہر تھا۔ میرے ارد گرد دنیا بدل چکی تھی اور میری حیثیت اب تماشائی سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ جیسے شاہ مار خزانے کے اوپر کنڈلی مار کر بیٹھا رہتا ہے ویسے ہی میں اپنے اصولوں پر کنڈلی مار کر بیٹھا رہا۔ پھر یہ سومناتھ بسواس کیا کہہ گیا ؟میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔

سب کچھ بدل گیا اور میں محض تماشائی بنا رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ ان سب تبدیلیوں کی شروعات کب ہوئی اور کیوں ہوئی۔ صارفی دنیا۔۔ ۔ کھلا مارکیٹ۔۔ ۔ عالمی گاؤں۔۔ ۔ انسانیت کو دھوکا دینے کے لیے ایک مکروہ جال۔ آج کل سوشلزم اور کمیونزم کی بات کرنا گناہ ہے۔ لوگ ہنستے ہیں ان الفاظ پر۔ شکر ہے کہ میں نے بہت پہلے خاموشی اختیار کر لی ورنہ لوگوں کے مضحکے کا نشانہ بن جاتا۔

صاعقہ اور اس کے نکسلی دوست شاہ نواز کو ہفتہ بھر پہلے سکیورٹی فورسز نے پکڑ لیا۔ دو دن تفتیش کی گئی۔ دونوں کے بدن پر جلے سگریٹ مروڑے گئے۔ ہزار وولٹ برقی رو کے کرنٹ دے کر ان سے راز اگلوانے کی کوشش کی گئی۔  برف  کی سلوں پر لٹایا  گیا۔ صاعقہ کی چھاتیوں کو نارنگیوں کی طرح نچوڑا گیا۔ شرم گاہ میں گرم سلاخیں ڈالی گئیں۔ اس کے باوجود پولیس کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا۔ تین روز بعد دونوں کی مسخ شدہ لاشیں دور جنگل میں پائی گئیں۔ پولیس کا انکاؤنٹر  اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر تب سے چھایا ہوا ہے۔ کوئی جائز ٹھہرا رہا ہے اور کوئی ناجائز۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے نہ جانے کیوں ایک موہوم سی امید تھی کہ صاعقہ ضرور واپس آئے گی اور ہم دونوں اپنا چھوٹا سا گھر بسائیں گے۔ مگر وہ خواب چکنا چور ہو گیا۔ اب آنکھوں میں کوئی اور خواب باقی نہیں رہا۔ آنکھیں خالی خالی سی ہیں۔ ذہن بھی خالی خالی سا ہے۔ دل بھی خالی خالی سا ہے۔

Facebook Comments

دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply