آگ کا دریا۔۔دیپک بدکی

میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ تجربے کی کمی ہونے کے سبب فائیلوں پر فیصلے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ فائلیں تو نپٹانی تھیں۔ آخر تنخواہ کس بات کی لے رہا تھا۔ ماتحتوں پر بھروسہ کر کے کام چلانا پڑتا تھا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں دیانت داری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور میری یہ نیک نامی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔

دفتر میں میرے تحت ایک ایماندار ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ، ڈاک خانہ جات کام کرتا تھا۔ نام تھا اومکار ناتھ۔ میں من ہی من میں خوش تھا کہ چلو ماتحت کا اخلاق اور کردار بے داغ ہے اس لیے اس سے صلاح مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں دفتر کے کمپلینٹ انسپکٹر، جس کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا، سے پوچھ لیا۔ ’’ میں نے سنا ہے کہ آفس کا ڈی ایس پی جب بھی کہیں گاؤں کے ڈاکخانوں کا معائنہ کرنے جاتا ہے، اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر جاتا ہے۔ کسی برانچ پوسٹ ماسٹر کے گھر میں چائے تک نہیں پیتا، سگریٹ، پان بیڑی کا تو سوال ہی نہیں۔ اتنا ایمان دار ہے تو کسی ہوٹل میں کیوں نہیں ٹھہرتا اور وہاں پر کھانا کیوں نہیں کھا تا ؟حکومت تو ہمیں باضابطہ سفری بھتّہ دیتی ہے۔‘‘

جواب ملا۔ ’’ سر آپ کو ابھی اندازہ نہیں ہے کہ انسپکٹر طبقے کو دور دراز علاقوں میں کن صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ گاؤں میں دن میں ایک ہی بار بس چلتی ہے جب کہ کئی دوسرے گاؤں میں دو تین روز میں ایک بار بس چلتی ہے۔ کبھی کبھار تو میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے – پہاڑوں کو عبور کر کے، جنگلوں سے گزر کر یا پھر گھٹنے تک برف میں خود کوگھسیٹ کر۔ گاؤں میں ہوٹل کہاں ہوتے ہیں سر۔ برانچ پوسٹ ماسٹر کے گھر میں ٹھہرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں اس کی میزبانی قبول نہ کریں تو پھر کہاں جائیں ؟ ‘‘

’’ ہاں یہ بات تو ہے مگر آپ قاعدے قانون بالائے طاق نہیں رکھ سکتے ہیں۔ محکمے کے ہدایت ناموں میں صاف طور پر درج ہے کہ معائنے کے دوران ہمیں اپنے ماتحتوں کی خاطر تواضع منظور نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘

’’سر یہ تو نا ممکن ہے۔ ڈی ایس پی صاحب کو ہی لیجیے، انھیں کتنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ ۔۔ یا تو کھانا اپنے ساتھ لینا پڑتا ہے یا پھر بھنے ہوئے چنّے پوٹلی میں بھر کر ساتھ رکھتے ہیں۔ بی پی ایم کے گھر میں رہتے تو ہیں مگر ان سے پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیتے۔ ان کا بس چلتا تو وہ پانی بھی نہ مانگتے۔ ‘‘

’’پھر گورنمنٹ ایسے قانون بناتی ہی کیوں ہیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو؟‘‘

’’ سر، انگریزی کا ایک مقولہ ہے، قانون بنتے ہی ہیں توڑنے کے لیے۔ (Rules are made but to be broken)۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ قانون وہ لوگ بناتے ہیں جن کو فیلڈ کا تجربہ نہیں ہوتا۔ انھیں کیا معلوم کہ فیلڈ سٹاف کو کہاں کس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

یونینیں اس ایماندار افسر کے خلاف آئے دن شکایتیں کرتی تھیں۔ کسی کا میڈیکل بل منظور نہیں ہوتا تھا، کسی کا ٹی اے بل پاس نہیں ہوتا تھا، کسی کے اوؤر ٹائم الاونس بل میں میں میکھ نکالی جاتی تھی اور کوئی جعلی ایل ٹی سی بل بھرنے کی پاداش میں پکڑا جاتا تھا۔ یہ سارے بِل ڈی ایس پی صاحب کی میز پر آ کر رک جاتے تھے کیونکہ ان کی پارکھی نظر جعلی بلوں کو ایک دم تاڑ جاتی تھی۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں جعلی بل بنانے کی باضابطہ دکانیں کھل چکی ہیں اور افسر شاہی کی ذہنیت ایسی ہے کہ فرسودہ قانون بنا کر غریب ملازموں کو مکر و فریب کا سہارا لینے پر مجبور کرتی ہے۔ غریب جنتا کو چھوڑیے یہاں تو ایوانوں میں بیٹھے ہمارے معزز نمائندے بھی اکثر ایسی گھنونی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔

اومکار ناتھ کو ان باتوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ وہ اپنی دھن میں مست چلا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ میرے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلاتا تھا مگر یہ سچ ہے کہ اپنے افسروں اور یونینوں کے سامنے مجھے جواب دہ ہونا پڑتا تھا۔ اومکار ناتھ کی فطرت ایسی تھی کہ وہ اگر میری جگہ ہوتا تب بھی و ہی کرتا جو اب کر رہا تھا۔ اس کے بارے میں سنا ہے کہ جب وہ اننت ناگ ہیڈ پوسٹ آفس میں بحیثیت پوسٹ ماسٹر تعینات تھا ہر کوئی اس کی ایمانداری سے تنگ آ چکا تھا۔ نہ خود کھاتا تھا اور نہ دوسروں کو کھانے دیتا تھا۔ نہ جھوٹے اوور ٹائم بل بنانے کی اجازت تھی اور نہ ہی پوسٹ میں پارسل اٹھانے کے جھوٹے بل بناسکتے تھے، نہ جھوٹے میڈیکل بلوں پر کاونٹر سائن ہوتے تھے اور نہ ہی جھوٹے ایل ٹی سی بل پاس ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ نیشنل سیونگس ایجنٹوں پر بھی، جنھوں نے ڈاک خانے کے ماحول کو کثیف بنا دیا ہے، لگام لگا دی گئی تھی۔ اِدھر ملازم بے چین تھے، اُدھر سیونگ ایجنٹ پریشاں تھے۔ انگریزی کا مقولہ ہے کہ گلشن میں ایک ابابیل آنے سے بہار نہیں آتی(One swallow doesn’t make a summer)۔ سارا ماحول اومکار ناتھ کے خلاف تھا اور وہ اکیلا ان سازشوں سے جوجھ رہا تھا۔ پبلک کی جانب سے دھڑا دھڑ شکایتیں بھیجی جا رہی تھیں۔ یونینیں روزانہ مظاہرے کر رہے تھے، پہلے ہیڈ آفس میں، پھر ڈویژنل آفس میں اور آخر کار سرکل آفس میں۔ جو افسر ان شکایتوں کی تفتیش کے لیے بھیجے جاتے وہ خود اومکار ناتھ سے خار کھائے بیٹھے تھے کیونکہ ان کی سفارشیں کام نہیں کرتی تھیں اور ان کی بالائی یافت بند ہو چکی تھی۔ انھوں نے شکایتوں کی تائید کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تین ہی مہینوں میں اومکار ناتھ کو واپس سرکل آفس ٹرانسفر کیا گیا جہاں وہ صبح و شام فائیلوں میں کیڑے نکالتا رہا۔

سرکل آفس میں اس نے تین سال بڑے آرام سے نکالے۔ نہ کسی سے دوستی اور نہ کسی سے بیر، صرف اپنے کام سے مطلب۔ یہیں پر اس کی پرموشن ہوئی اور اس کو میرے آفس میں بطور ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ تعینات کیا گیا۔ بڑا خوش تھا کہ چلو افسر بھی اپنے ہی مزاج کا ملا، کچھ دن مزے سے گزر جائیں گے۔ اِدھر میں بھی خوش ہوا کہ میرا ماتحت دیانت دار ہے اور چنانچہ میری پہلی پوسٹنگ ہے، اس لیے ایسا ڈپٹی ملنا خوش نصیبی ہے۔ میں من ہی من میں اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے میری زندگی اجیرن کر دی تھی۔ جو فائیل سامنے آتی تھی اس پر کچھ نہ کچھ منفی نوٹ لکھ دیتا تھا۔ کام بہت رکا پڑا تھا۔ کوئی بل پاس نہیں ہو رہا تھا۔ اکثر میڈیکل یا ایل ٹی سی بل جانچ کے لیے بھیج دیتا تھا جس کے سبب دو تین مہینے کی دیر ہو جاتی تھی۔ اُدھر مالی سال ختم ہو جاتا، اِدھر فنڈس بنا خرچے واپس چلے جاتے اور ہمیں دوسرے مالی سال کا انتظار کرنا پڑتا۔ مجھے ہر ماہ یونین میٹنگوں میں یہی سننا پڑتا تھا کہ بل پاس نہیں ہو رہے ہیں۔ ڈپٹی صاحب کام نہیں کرتے ہیں۔ صرف میں میکھ نکالتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود میں اسے برداشت کر لیتا تھا۔ کئی بار اس کو سمجھایا کہ سبھی بل جانچ کے لیے مت بھیجا کرو، ہاں جو ملازم جھوٹے بل پیش کرنے کے عادی ہوں، ان کے بل جانچ کے لیے بھیجا کرو۔ لیکن وہ مائی کا لال کہاں سننے والا تھا، بل میں کو ئی نقص دیکھا نہیں کہ بل چلا جانچ کی خاطر۔

فروری کا مہینہ تھا۔ سوپور سے ایک انسپکٹر میرے آفس آ یا اور نو ہزار آٹھ سو کے بل سامنے رکھ کر کہنے لگا۔ ’’ صاحب جی، حال ہی میں پی ایم جی صاحبہ نے بانڈی پور گریز لائن کا معائنہ کیا اور وہاں کی ڈاک سرائے (رَنر ہٹس ) کی خستہ حالت دیکھ کر بہت ناراض ہو گئیں۔ انھوں نے مجھے حکم دیا کہ تین میں سے ایک بیچ والی سرائے کی مرمت مقامی ذرائع سے فوراً کروا لوں کیونکہ سوِّل وِنگ نے سبھی سرائیوں کو مرمت کرنے کے لیے بیس لاکھ کا تخمینہ بھیجا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے مجھ سے مرمت کا تخمینہ پوچھا۔ میں نے ایک سرائے کے لیے نو ہزار نو سو کا حساب بنا کر دے دیا۔ اس پر میڈم نے فی الحال ایک سرائے کی مرمت کروانے کا حکم دیا۔ اس لیے میں نے اس کی مرمت کروا دی اور یہ بِل لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ سات ہزار کی لکڑی آئی، ایک ہزار پانچ سو بطور اجرت کے دینا پڑے اور ایک ہزار تین سو بطور دیگر اخراجات خرچ ہوئے۔ ‘‘

میں نے بِل دیکھ لیے، پھر ڈپٹی کو بلا یا اور اسے کہا۔ ’’ ڈپٹی صاحب، کستوری لال کچھ بِل لے کر آیا ہے۔ انھیں فائیل میں ایک نوٹ چڑھا کر منظوری کے لیے پیش کر لیں۔ ‘‘

ڈپٹی خشمگیں نظروں سے انسپکٹر کو دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ’’ بھئی آج کون سا نیا گُل کھلانے آئے ہو۔ ‘‘ کستوری لال بد دیانتی کے لیے خاصا بدنام تھا۔ وہ کہتے ہیں ناکہ بد اچھا بدنام بُرا۔ اس کی صورت دیکھ کر ہی لگتا تھا کہ کچھ نہ کچھ مصیبت لے کر ضرور آیا ہو گا۔ ڈپٹی اونچے سروں میں پوچھنے لگا۔ ’’ ہاں بھئی، کیا ہے یہ۔ اس بارے میں پی ایم جی کا کوئی تحریری آرڈر ہے تمھارے پاس؟ اور پھر کچھ ٹینڈر وغیرہ تو کیے ہوں گے ؟‘‘ ان دنوں پانچ ہزار کے اوپر ٹینڈر کرنا ضروری تھا۔

’’ جناب، پی ایم جی صاحبہ وہاں آئی تھیں اور ان کا حکم تھا کہ ایک ہفتے میں اس ہَٹ کی مرمت ہونی چاہیے اور جتنا سامان ضرورت ہو وہ مقامی بازار سے خرید لو۔ انھوں نے خود زبانی آرڈر دیا تھا اور پھر اتنے قلیل وقت میں ٹینڈر کہاں سے نکل سکتا تھا۔ ‘‘

’’تمھیں ڈویژنل آفس سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ ہم ان سے تصدیق کروا لیتے اور پھر یہیں سے قلیل مدتی ٹینڈر ایشوع کر لیتے ؟‘‘

’’ سر، پی ایم جی صاحبہ کا حکم تھا، میں کیسے ٹال سکتا تھا۔ ہفتے بھر میں سب کام مکمل کرنا تھا۔ وہ تو انتباہ کر کے چلی گئی تھیں۔ ‘‘

’’ تو پھر جا کر انھی سے پاس کراؤ، یہاں کیوں آ گئے۔ ‘‘ ڈپٹی نے کرخت لہجے میں جواب دیا۔

’’ سر، وہاں کیسے جاؤں۔ بل تو ڈویژنل آفس ہی پاس کر لے گا۔ ‘‘

’’ پہلے سرکل آفس سے تحریری آرڈر لے کر آ جاؤ۔ بِل ایسے پاس نہیں ہوتے۔ ‘‘

میں نے مصلحتاً کستوری لال کو کچھ دیر کے لیے کمرے سے باہر جانے کے لیے کہہ دیا۔ اس کے بعد ڈپٹی صاحب پر اعتماد جتاتے ہوئے راز داری کے ساتھ اس سے ہمکلام ہوا۔ ’’ ڈپٹی صاحب، آپ کو معلوم ہو گا کہ میری اور پی ایم جی صاحبہ کی نہیں بنتی ہے۔ کئی باتوں پر ہمارا مت بھید رہا ہے۔ اگلے مہینے وہ میرا سالانہ خفیہ رپورٹ لکھیں گی۔ اس لیے اس وقت مزید جھگڑا مول لینا اچھا نہیں ہو گا۔ بات کاٹ لو اور جیسے تیسے بِلیں پاس کر لو۔ ‘‘ بات در اصل یوں تھی کہ کئی مہینوں سے ہمارے درمیان رسہ کشی چل رہی تھی۔ میں اب یہ کوشش کر رہا تھا کہ کم سے کم سال کے آخری مہینے میں باس کا غصہ ٹھنڈا کر لوں اور ناراض ہونے کا پھر کوئی موقع نہ دوں۔

’’ نو سر، ایسا نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ اس کی آواز قدرے بلند ہو گئی۔ ’’ میں ان بِلوں پرکار روائی نہیں کر سکتا۔ آرڈر نہ تصدیق اور نہ یہ معلوم کہ زمینی حقیقت کیا ہے۔ یہ کام ہوا بھی یا نہیں، کسے معلوم ؟ہو سکتا ہے ہوا ہی نہ ہو یا پھر غیر معیاری ہوا ہو۔ در اصل ہمارے محکمے کے ساتھ فراڈ کھیلا جا رہا ہے اور سارا روپیہ لوٹا جا رہا ہے۔ ‘‘

میں نے پھر نرم لہجے میں کہا۔ ’’ اچھا ایسا کر لو، آپ فائیل میں ایک نوٹ ٹائپ کروا کے چڑھاؤ اور دستخط کرنے کے بغیر ہی مجھے بھیج دو۔ میں خود ہی اس پر دستخط کر لوں گا۔ ‘‘

’’ سر، ایسا ممکن نہیں ہے۔ میں اس لوٹ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ میں نہ تو فائیل بناؤں گا اور نہ ہی اس پر نوٹ لکھواؤں گا۔ یہ کام سراسر غلط ہو رہا ہے۔ ‘‘ وہ اونچی آواز میں بدستور بول رہا تھا۔ ’’چاہے آپ ناراض ہوں یا خفا ہوں، چاہے مجھے معطل کر لیں یا پھر فرد جرم ایشوع کر لیں، میں یہ کام کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوں اور نہ ہی اس کام کے ساتھ کسی بھی طرح وابستہ ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘

میرے سامنے میرا ماتحت کھلم کھلا عدول حکمی کر رہا تھا۔ جی میں آئی کہ اسی وقت اس پر تادیبی کار روائی کر لوں اور اس کا تبادلہ کروا لوں۔ لیکن میں نے اپنا آپا نہیں کھویا۔ صرف اس کو کمرے سے باہر جانے کے لیے کہہ دیا۔ پھر کستوری لال کو واپس بلاکر اسے دوسرے دن آنے کا حکم دیا۔

رات بھر میں فکر و تردّد میں ڈوبا رہا۔ ’’ کیا میرا ڈپٹی بغاوت کر رہا ہے یا پھر اپنے اصولوں سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ؟ اس میں اتنی سخت مزاجی کیوں ہے ؟ نوکری میں تھوڑا بہت ایڈ جسٹ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ ان بلوں پر کار روائی کرنے میں اس کا کیا جاتا، ہم تو صرف اوپر والے افسر کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔ ‘‘

پھر کہیں اندر۔۔ ۔ بہت اندر سے آواز آئی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔ ’’ یہ وہ بندہ ہے جس نے آج تک کسی بی پی ایم کے گھر میں چائے کا قطرہ بھی نہیں پیا ہے۔ جو گھر سے دفتر سائیکل پر آتا ہے۔ جس نے کبھی کسی سے دس روپے کی رشوت نہیں مانگی ہے۔ پھر وہ ان بلوں کو پاس کرنے کی سفارش کیسے کر سکتا ہے۔ وہ ایسے افعال پر ہمیشہ لعنت بھیجتا رہا ہے۔ میری سنو، تمھیں بھی اس سے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ ایمانداری صرف نمائشی نہیں ہوتی بلکہ فکر و عمل سے جھلکنی چاہیے۔ ‘‘

صبح سویرے میں دفتر پہنچ گیا۔ کستوری لال میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اس کو کمرے میں بلایا اور کہا۔ ’’ دیکھو، پی ایم جی صاحبہ نے یہ زبانی آرڈر تم کو دیا تھا اس لیے تم یہ کیس اپنے آفس میں بنا کر میرے پاس پوری تفصیل کے ساتھ بھیج دو۔ اس نے ویسا ہی کر لیا اور ہمارے آفس نے منظوری دینے کی سفارش کی۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ اس روز ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ غیر حاضر تھے۔ میں نے فائیل پر اپنے دستخط ثبت کر لیے اور احتیاط کے طور پر آرڈر کی کاپی مع تفصیل کے پی ایم جی آفس برائے تصدیق بھیج دی۔ وہاں سے نہ کوئی جواب ملا اور نہ کوئی تفتیش ہوئی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت عرصہ بعد میں پوسٹل سٹاف کالج میں نئے بھرتی ہوئے افسروں کو سی سی ایس کنڈکٹ رولز یعنی افسروں کے چال چلن کے قواعد پڑھا رہا تھا۔ اعلیٰ افسروں کے حکم سے متعلق میری نظر ایک وضاحتی نوٹ پر پڑی۔ لکھا تھا کہ جب کوئی اعلیٰ افسر زبانی حکم صادر کرے تو اس صورت میں اس حکم پر عمل آوری کر کے فوراً اس کی کاپی اعلیٰ افسر کو تصدیق کے لیے بھیج دینی چاہیے۔ یا تو وہ اس کی تصدیق کرے گا یا پھر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرے گا۔ دونوں صورتوں میں آرڈر ایشوع کرنے کی بات قبول مانی جائے گی۔ مجھے سولہ سال پرانا وہ واقعہ یاد آ رہا تھا اور دل میں خوشی ہو رہی تھی کہ ایک دیانت دار ماتحت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مجھے ایمان داری پر کاربند رہنے کا پہلا اور سب سے بڑا سبق ملا تھا۔

Facebook Comments

دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply