ایک انقلابی کی سرگزشت(1)۔۔دیپک بُدکی

میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسّی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گُل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا، قحط، بھوک مری، غلامی اور بے روزگاری نظر آتی تھی۔ ملک پر فرنگیوں کا قبضہ تھا جو ہمیں غلامی کی زنجیروں میں ہمیشہ جکڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ ہندوستانیوں میں  اپنا ملک چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اِدھر میں زندگی کے زینے چڑھتا گیا، اُدھر ملک کروٹیں لیتا رہا۔ کہیں عدم تشدد کا صور پھونکا جا رہا تھا اور کہیں تشدد لہو کی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں چرخے والا ترنگا نظر آ رہا تھا اور کسی کے ہاتھ میں درانتی ہتھوڑے والا سرخ پرچم۔

جوانی میں انقلاب، بغاوت اور جدلیات کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ اُبلتا خون رگ رگ میں دوڑنے لگتا ہے۔ سو میں نے بھی اپنی آنکھوں میں نئے عزم اور انقلاب کے خواب سنجوئے۔ مارکس، اینگلز اور لینن کو اپنا رہنما بنایا، پشکن، گورکی، دوستوفیسکی اور چیخوف کا مطالعہ کیا، ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گیا اور احمری رہنماؤں کی خوش الحانی سے محظوظ ہوتا رہا۔ میں اس بات کا قائل ہو گیا کہ قوم کی تعمیر انفرادی ضرورتوں سے زیادہ اہم ہے۔

افسوس کہ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی میرے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔ فرنگی حکمرانوں نے انتہا پسندوں کی جگہ اعتدال پسندوں سے سمجھوتا کر لیا تاکہ خود انگریز منتقمانہ خونریزی سے بچ جائیں، ان کا بنایا ہوا راشی نظام بدستور چلتا رہے اور فرنگی کمپنیوں کا دبدبہ یوں ہی قائم رہے۔ اِدھرکمیونسٹ پارٹی بھی انتشار میں مبتلا ہو گئی، کئی قائدین پاکستان جا کر بس گئے، ہندستان میں پارٹی کے ٹکڑے ہو گئے، کوئی مارکسی بن کر الگ ہو گیا اور کوئی نکسلی بن کر جنگلوں میں سرگرم ہو گیا۔ ہر روز ایک نیا مسیحا سامنے آتا رہا۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے غریبوں کا حقیقی مسیحا کون ہے۔ ایک صدی کی تگ و تاز کے باوجود ہم دو تین ریاستوں سے آگے اپنا اثرو رسوخ نہیں بڑھا پائے۔

بنگال، ترپورا اور کیریلا میں میرے رفیقوں نے کرسیاں سنبھالیں۔ اب وہ جدلیاتی مادیت کو بھول کر انتخابات، سوشلزم اور مساوات کی باتیں کرنے لگے۔ جس ہندستان کے سپنے ہم نے مل کر دیکھے تھے اس میں نہ غربت کے لیے کوئی جگہ تھی، نہ استحصال کے لیے، نہ مذہب کے لیے اور نہ ہی ذات پات کے لیے۔ اس کے برعکس ہم نے تخریبی نظام کو ترجیح دی۔ ہندستان کچھ اور ہی بنتا جا رہا تھا۔ ہڑتالیں۔۔ ۔ چکا جام۔۔ ۔۔ ملیں بند۔۔ ۔ دفتر بند۔۔ ۔ کام ٹھپ۔۔ ۔ !ہمارے رہنماؤں نے غریب رعایا کو برس ہا برس اپنے لیے قبریں کھودنے میں مصروف رکھا۔ روز بروز جاہلوں اور بے روزگاروں کی فوج بڑھتی رہی جبکہ رہنما اپنے منشور چاٹتے رہے۔ کوئی کسی کو ٹوکنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اب تو عوام کے بدلے ووٹ بنک کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مانا سیلاب، خشک سالی اور بھوک مری قدرت کی دین ہیں مگر آبادی تو روک سکتے تھے، ماحول کی حفاظت تو کر سکتے تھے، جنگلوں کی بے دریغ کٹائی تو روک سکتے تھے۔ نہیں ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ میرے رفیقوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ جب تک اس ملک میں بھوک اور بیکاری ہے، ان کی تاجداری قائم ہے۔ اس لیے وہ غریبوں کی جھولیوں میں سبسڈیاں ڈال کر رجھاتے رہے۔ ہر الیکشن سے پہلے نئی فلاحی سکیموں کا اعلان کرتے رہے۔ ان سکیموں پر زمین پر کم اور کاغذ پر زیادہ عمل کرتے رہے اور ہر وہ موقع ڈھونڈتے رہے جسے ذاتی مالی منفعت بہم پہنچ سکے۔ دونوں سیاست داں اور افسر شاہی غیر ملکی کھاتوں میں اپنی بڑھتی بنک بیلنسوں کو دیکھ کر بغلیں بجاتے رہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد کمیونسٹ، جو لا مذہبیت کا دعویٰ کرتے ہیں، مذہبی بولیاں بولنے لگے۔ ہر سال کروڑوں روپے درگا پوجا پنڈالوں پر خرچ کرتے رہے۔ اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے کی بجائے ذات پات اور مذہبی الجھیڑوں میں دلچسپی لینے لگے۔ سچ پوچھو تو آزادی کے بعد مذہبی رہنماؤں، سیاسی لیڈروں اور ان کے گرگوں کی تگڑی ہمارے ملک پر حاوی ہو گئی۔

جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، اپنے گھر کا ماحول قدامت پرست اور مذہبی پایا۔ میں چوری چھپے فیض ؔ، مخدوم ؔ، سردارؔ، مجروحؔ اور ساحرؔ کی شاعری سے فیض یاب ہوتا رہا۔ ان کی شاعری سے تحریک پا کر میری رگوں میں گرم لہو گردش کرنے لگا۔ اس لیے میں خود بھی میدان عمل میں کود پڑا۔ ابتدا میں تک بندی کرتا تھا لیکن بعد میں باضابطہ شاعری کرنے لگا۔ ترقی پسند شاعروں کی مجلسوں اور مشاعروں میں جانا میرا معمول بن گیا۔ میرے نام کی تقلیب ہوئی اور میں وحید الدین چودھری سے وحیدؔ بھارتی بن گیا۔

ایک روز مشاعرے کے اختتام پر صاعقہ نُصیری ہال کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی۔ جونہی میں باہر نکلا تو وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مجھ سے مخاطب ہوئی۔ ’’ وحیدؔ بھارتی صاحب، میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔ کیا آپ مجھے اس کتاب پر اپنا آٹوگراف دے سکتے ہیں ؟ ‘‘اس نے کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔

کتاب کو دیکھ کر میں اچنبھے میں پڑ گیا۔ میری شاعری کا پہلا مجموعہ ’ آزاد لبوں سے پرے ‘ تھا۔ میں نے اپنے تاثرات لکھ کر دستخط کر دیے۔ ’’صاعقہ نُصیری کے نام۔۔ ۔۔ ۔ بولنا ہی کافی نہیں، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈھیر ساری محبتوں کے ساتھ۔ وحیدؔ بھارتی‘۔

اس روز کے بعد صاعقہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہنے لگی۔ بہت ہی جذباتی اور نڈر لڑکی تھی۔ گریجویشن کر کے ایم اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لیا تھا۔ کمیونزم نے اس کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ البتہ میں نے اسے ابتدا ہی میں آگاہ کیا کہ ’’ میری زندگی غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی خدمت کے لیے وقف ہو چکی ہے اور شاید زندگی میں مجھے کبھی استحکام نصیب نہیں ہو گا۔ اس لیے مجھ سے کوئی امید رکھنا بیوقوفی ہو گی ‘‘۔ لیکن اس پرتو عشق کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ میری ہزار کوشش کے باوجود وہ مجھ سے دور رہنے کو تیار نہ تھی۔ در اصل جوانی میں جوکھم اور رومانس انسان کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ عاشق کی عقل پر تالے پڑ جاتے ہیں۔

صاعقہ کے قرب نے میری شخصیت میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ پیدا کر لیا۔ پس آزادی اکثر رفیقوں کو اپنا گھربساتے دیکھ کر مجھے بارہا خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی ازدواج میں بندھ جاؤں۔ اپنے سے زیادہ مجھے صاعقہ کی فکر ستارہی تھی کیونکہ وہ عسکری تحریک سے وابستہ ہونے لگی تھی اور مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ کوئی انتہا پسند قدم نہ اٹھا لے۔ وہ رفتہ رفتہ عید کا چاند ہونے لگی تھی۔

بہت عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملنے آئی۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اپنے دل میں ٹھان لی کہ آج تو میں اپنی بات کہہ کر رہوں گا۔ مگر وہ اس دن بہت ہی طیش میں تھی۔ بیٹھتے ہی گویا ہوئی: ’’وحید، میں نے نکسلی تحریک کے ساتھ جڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘

مجھے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ وہ تو کب سے اس تحریک کے ساتھ جڑ چکی تھی۔ شاید میرا دل رکھنے کے لیے گوش گزار کرنا چاہتی تھی۔ در اصل وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی، بغاوت پسند اور اشتعال پسند تھی۔ نہ جانے کس کے زیر اثر وہ طبقاتی جد و جہد کا اہم رکن بن گئی اور نکسلی مہم کے ساتھ جڑ گئی۔ اور وہ بھی زندگی کے اس موڑ پر جب میں اپنے خوابوں کی نئی تعبیریں سوچ رہا تھا۔ میرے دل میں نکسلیوں کے خلاف عجیب سی نفرت پیدا ہو گئی۔

’’ تم پاگل ہو گئی ہو صاعقہ۔ ہمارا ملک آزاد ہو چکا ہے۔ تین ریاستوں میں مارکسی کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔ جمہوری ملک ہے، بدلنے میں وقت تو لگ ہی جائے گا۔ ‘‘ وہ بپھر کر بولی۔ ’’ خاک بدل جائے گا۔ مساوات، آزادی اور اخوت کے حسین خواب۔  سب کافور ہو چکے ہیں۔ گلی سڑی پیپ کی طرح بہہ رہے ہیں۔ اب تو انھیں نکاسی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ سارا معاشرہ متعفن ہو چکا ہے۔ جن کمیونسٹوں پر تمھیں ناز ہے۔۔ ۔ جو تمھارے رفیق کار ہیں۔۔ ۔ وہ خود سرمایہ داری کی چکا چوند میں کھو چکے ہیں۔ ان کے بچے امریکا، جرمنی اور جاپان میں جا کر بس چکے ہیں اور جو یہاں ہیں وہ صنعت کار بن چکے ہیں۔ لاچار غریب بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں اپنی زیست تلاش رہے ہیں یا پھر چوراہوں پر لال بتی ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ موٹر کاروں میں سفر کرنے والے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر چند سکّے ڈال سکیں۔ یہ ملک صارفی آکٹوپس کے پنجوں میں پھنس گیا ہے۔ اب کسانوں کو ہر سال کمپنیوں سے بیج خریدنے پڑتے ہیں۔ فصلوں پر دوسری کمپنیوں میں بنی ہوئی زہریلی کرم کش دواؤں کا بے تحاشہ چھڑکاؤ کرنا پڑتا ہے۔ یہ زہر کچھ ان کی رگوں میں اور کچھ صارفین کی رگوں میں پھیلتا جاتا ہے۔ پھر بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کے لیے کچھ اور کمپنیوں کی بنائی ہوئی ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔ شیطان کی آنت کی طرح ایک لمبا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یہ۔ زمین سے نل اکھڑتے جا رہے ہیں۔ ان کی جگہ پانی کی بوتلیں اُگ رہی ہیں۔ پانی قدرت مہیا کرتی ہے مگر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے لیبل چڑھا کر اسے بیچتی ہیں۔ جو قیمت ادا نہیں کر پاتا اسے آرسینک ملے زہریلے پانی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ہڈیاں پگھلتی رہتی ہیں۔ پھر بھی ہماری سوشلسٹ حکومتیں غریب نواز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ‘‘

’’ مگر صاعقہ تم سمجھتی کیوں نہیں یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کی مرضی چلتی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ بنگال ہو یا کیریلا، بہار ہو یا گجرات، حکومتیں تو لوگ چنتے ہیں۔ ‘‘

’’لوگوں کو بدنام نہ کرو، نئے طفیلی حکمرانوں کی بات کرو۔ چھ دہائیوں تک سوشلزم کے نام پر دیش کو لوٹتے رہے اور جب ملک کنگال ہوا تو نئے راگ الاپنے لگے۔ پہلے سوشلزم اور قومیانے کے نعرے بلند کر کے رعایا کو بیوقوف بناتے رہے اور اب کھلے بازار، سرمایہ کاری اور پیداواریت کی باتیں کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل سے جتنا نچوڑا جا سکتا تھا اتنا امیٹھ لیا۔ انسانی وسائل کی باتیں کرنے والے اب مشینوں اور کمپیوٹروں کی باتیں کر رہے ہیں۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ آخر کب تک یہ دھرتی ہمارا بوجھ اٹھاتی رہے گی۔ کہاں تک ہماری معیشت قرضے کا اتنا بوجھ برداشت کر تی رہے گی۔ غور سے دیکھو چہرے وہی ہیں صرف چارٹر بدل گئے ہیں۔ ‘‘

صاعقہ نُصیری بولتی چلی جا رہی تھی۔ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ’’ وحید، اب تو زمینوں پر فصلوں کی نہیں بلکہ بلند و بالا مکانوں کی کھیتی ہو رہی ہے۔ شہروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی، انسان مٹھی بھر دھوپ کے لیے ترستا ہے، موریاں زمین دوز ہو گئی ہیں، برسات میں شہر کے شہر ڈوب جاتے ہیں، گندے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی، ہر طرف جوہڑ، تالاب اور ان میں پلتے مچھر دکھائی دیتے ہیں۔ جدھر دیکھو پلاسٹک اور پولی تھین کے پہاڑ جمع ہو رہے ہیں۔ کرم کش دوائیاں اب اثر نہیں کرتیں۔ ہر سال نئی نئی بیماریوں کے نام سننے میں آتے ہیں۔ ملیریا، ڈینگو، چکن گونیا، ایچ ون این ون، ایڈس، ہپاٹائٹس۔۔ ۔ اس پر ہسپتالوں کی بد نظامی۔۔ ۔ اور مرتے ہوئے لوگوں کے ٹھٹ۔ دھرتی پانی کے بدلے زہر اگل رہی ہے اور ہوا آکسیجن کے بدلے دمّے کی بیماری پھیلا رہی ہے۔ پھر رات کے مناظر بھی کچھ الگ نہیں ہیں وحید۔ اگلے زمانے میں طوائفیں ہوتی تھیں، بالاخانے ہوتے تھے، اب ہوٹل، ڈسکو، پارلر اور لاج ہیں۔ کالج ہیں، اسکول ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، ہوسٹل ہیں۔ اب تو یہ منظر بھی پرانا ہو گیا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ پر سب کچھ دستیاب ہے۔ ایسکارٹ، لڑکے، لڑکیاں، پورن اور دیگر من بہلاوے اب گھروں میں گھس آئے ہیں۔ اور اس تناظر میں مجبور اور لاچارانسان کرے تو کیا کرے ؟ ہم اس کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں !

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

دیپک بُدکی
Deepak Kumar Budki, IPS (Retd) MSc, BEd, Associate, Insurance Institute of India, ndc, Retired Member, Postal Services Board. Pen Name: Deepak Budki Urdu Short Story Writer & Critic,

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply