داڑھی والا : انعام رانا

اگر میں کہوں کہ میں داڑھی والے کو تب سے جانتا ہوں جب داڑھی نہیں تھی تو شاید لوگ حیرت میں ڈوب جائیں۔ بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی حسنین جمال کی داڑھی نا تھی؟ اب تو سنا ہے کہ پرانی تصاویر دیکھتے اگر اسکے بچپن کی کوئی تصویر آ جائے تو اسکے ابا بھی پوچھ لیتے ہیں کہ بھئی یہ بچہ کس کا ہے؟ حسنین کی کتاب آئی ہے اور نام یا عنوان ہے داڑھی والا۔ حسنین اور اسکی کی تحریروں کا عاشق ہونے کی بنا پہ اسکی کتاب کا اسی قدر منتظر رہا ہوں جتنا میری قوم ہمیشہ کسی نجات دہندہ کی، بلکہ داڑھی والے کی۔ مگر کتاب کے نام نے چونکا دیا۔ پھر سوچا اس کتاب کا عنوان کیا ہو سکتا تھا، کئی نام سوچے مگر “داڑھی والا” سے موزوں کچھ مل نا سکا۔

بات تو کتاب پہ کرنی ہے مگر صاحب کتاب کو جانے بنا کتاب فقط ایسے الفاظ کا مجموعہ ہے جو اندھوں کے ہاتھ لگا ہاتھی بن جاتا ہے، جس نے نکالی مختلف ہی تعبیر نکالی۔ صاحب کتاب سے واقفیت ہو جائے تو ہر لفظ وہ معانی آشکار کرنے لگتا ہے جو منشائے مصنف ہو، بھٹکنے کے امکان کم ہو جاتے ہیں۔ حسنین زندگی میں کچھ سال قبل داخل ہوا مگر اتنے رنگ لئیے ہوے کہ اس سے قبل کی زندگی کچھ پھیکی سی پڑ گئی۔ یہ دیکھئیے خلوص کا رنگ، مشکل میں پڑ گئے تو فون نہیں کرنا پڑے گا، وہ کسی جن کی مانند آن حاضر ہو گا چاہے آپ نے دوستی کا چراغ رگڑا بھی نا ہو۔ اک رنگ رونق کا ہے کہ جس محفل میں ہو شمع محفل بن جائے۔ یہ روشن ہو اور دوست پروانہ بن کر نثار ہونے کو بیتاب۔ اک رنگ درویشی کا، چاہے جیسی بھی مصیبت ہے، “گُرو دیکھی جائے گی” کا منتر خود بھی پڑھتا ہے اور مریدوں کو بھی پڑھاتا ہے۔ اک رنگ عجز کا ہے، آپ اس سے بطور فین ملیں، لگے گا آپ نے دراصل اس پہ احسان کیا ہے۔ اک رنگ داستان گوئی کا ہے، اور کیا ہی شوخ رنگ ہے۔ سنا ہے الفاظ جوش کے سامنے لونڈیوں کی مانند کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ سلوک بھی وہی کرتے تھے جو پرانے نواب لونڈیوں کے ساتھ کرتے تھے۔ پڑھئیے، چونکئیے، مزہ لیجئیے اور کچھ دیر میں بھول جائیے۔ الفاظ حسنین کے سامنے بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں مگر نیک بیبیوں کی مانند۔ یہ ان کو بے لباس نہیں کرتا بلکہ جذبات کا گھونگٹ اوڑھا کر منکوحہ و محبوبہ بنا لیتا ہے۔ انکی تعظیم خود بھی کرتا ہے اور پڑھنے والے کو بھی مجبور کر دیتا ہے۔ تاثر اس پہلے بوسے سا بن جاتا ہے جو موت سے قبل آخری یاد کے طور پہ سامنے آ کر جان کنی آسان کر دے۔

کچھ سال قبل والد پہ لکھا اک خاکہ حسنین کی پہچان بنا۔ اردو ادیب نے ہمیشہ ماں پہ قلم آرائی کی ہے۔ یقینا ماں کا مقام بہت بلند ہے مگر باپ اس سارے سفر میں جیسے ایک متروک خدا بنا دیا گیا جسے وقت کی گرد نے ڈھانپ لیا ہو۔ حسنین نے اس خدا کو جھاڑا پونچھا اور ایک چھوٹے سے مندر میں سجا دیا۔ پجاری چونکے کہ یہ کہاں سے لوٹ آیا مگر پھر اسکی عظمت کے آگے سجدہ ریز ہو گئے۔ خوش نصیب ہیں جمال یاسین کے جنکو انکا جائز مقام ملا اور انکی زندگی میں ملا۔ وہیں سے اس ہیرے کو وجاہت مسعود جیسا جوہری ملا اور اسکی تراش اور چمک آنکھوں کو خیرہ کرنے لگی۔ مگر خوشی اس بات کی ہے کہ حسنین نے اپنی تحریر کو وجاہت کے اثرات سے محفوظ رکھا۔ وجاہت کی تحریر کہ جب تک اک صفحے میں تیس پینتیس ایسے الفاظ و ترکیبات نا آئیں جو ابولکلام کی یاد دلا دیں، انکی تشفی نہیں ہوتی چاہے قاری کا وہی حال ہو جو ان سکھ ملاقاتیوں کا ہوا جو پانچ منٹ کی ملاقات کا احوال یوں بیان کرتے ہیں کہ مولانا اپنے مذہبی اشلوک پڑھتے رہے اور ملاقات ختم ہو گئی۔ حسنین کی تحریر البتہ ایسی سہل ہے کہ دل میں بھی اتر جاتی ہے اور دماغ بھی بوجھل نہیں ہوتا۔ قاری کو لغت کا اضافی کشٹ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ آج جب ماہرین نے انسانی فوکس کا دورانیہ دو منٹ سے بھی کم بتایا ہے، ابلاغ اہم ہے نا کہ مشکل و بوجھل لعل و گُہر سے آراستہ ایسا تاج جو گردن میں بل ڈال دے۔ ارے دیکھئیے میں انگریزی کا لفظ استعمال کر گیا۔ کتاب کی پشت پہ والد کے زور پہ بنے اک کالم نویس کا حسنین کو مشورہ موجود ہے کہ وہ انگریزی الفاظ نا برتا کریں اور “مشورہ” دیا کہ ایسے الفاظ یوں استعمال کیجئیے جیسے بادل نخواستہ مانع حمل ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ زبان کس قدر آگے نکل چکی اور کون سا اسلوب مقبولیت پا چکا یہ سمجھنے کیلئیے جمال کی مانند اپنے زور پہ ابھرنا لازم ہے۔ حسنین سے عرض ہے کہ وہ اپنی تحریر کی چاشنی برقرار رکھتے ہوے ایسے مشوروں کو ویسے ہی برداشت کر لیا کریں جیسے ایسے کالم نگاروں کو قاری کر جاتا ہے، بادل نخواستہ۔

صاحبو، اخبارات و سائٹس پہ لکھے کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ دیکھ لیجئیے کہ معروف ترین کالم نگاروں کے مجموعے بھی بہت کامیاب نہیں ہو پاتے۔ مگر کچھ تحاریر ایسی پراثر ہوتی ہیں، عنوان ایسے تازہ اور ہر وقت ریلیونٹ کہ وہ باسی نہیں ہونے پاتیں۔ زرا توجہ کا پانی چھڑکئیے، وہ نئی مہک دینے لگتی ہیں۔ “داڑھی والا” ایسا ہی اک گلدستہ ہے۔ “محبت کرو یا مر جاو”، “پندرہ سال کا ہونے پر بیٹی کے نام خط”، “شکر کریں آپ لڑکی نہیں ہیں”، “جب بسنت پولیس کے اشتہاروں میں نہیں آتی تھی”، “محبت کا برگد اور نفرت کی زمین پہ بچھی بیل”؛ خود ہی سوچئیے ایسے عنوان کبھی باسی ہوتے ہیں؟ حسنین کو میں پیار سے “گُرو رجنیش” کہتا ہوں۔ رجنیش کی آنکھ اور داڑھی میں بھی وہ جنسی کشش کہاں تھی جو اس “داڑھی والے” نے سنبھال رکھی ہے۔ مگر یہ رجنیش داسیاں نہیں بناتا، سارا فلسفہ محبت اپنی تحریروں میں مجسم کر دیتا ہے۔ اسکی کتاب بھی اک ایسا حرم ہے جس میں اٹھاسی عدد گوپیاں ہیں۔ حرم گھر منگوا لیجئیے اور ان گوپیوں کے کرشن بن کر محبت کی مُرلی بجانے پہ مجبور ہو جائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب: داڑھی والا
مصنف: حسنین جمال
قیمت: فقط سات سو
پبلشر: بک کارنر
لنک: http://www.bookcorner.com.pk/book/darhi-wala

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے