محبت اب نہیں ہوگی(1)۔۔محمد افضل حیدر

کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کے لیے یونیورسٹی میں زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نئے دوست ملے, زندگی کو نئے ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ ملا, اس کی زندگی میں یہاں جتنے بھی نئے لوگوں کا اضافہ ہوا ان میں سب سے خاص افشین تھی۔سردیوں کی دھوپ کی طرح خوشکن,تیکھی اور میٹھی میٹھی سی افشین!

فیضان جس ڈیپارٹمنٹ میں بی ایس کر رہا تھا افشین کی بڑی بہن نازیہ اسی ڈیپارٹمنٹ میں لائبریرین تھی, وہ اپنی کلاسسز سے فراغت کے بعد بہن کے پاس لائبریری آتی تو دونوں کا تقریباً روز ہی آمنا سامنا ہو جاتا۔دونوں کو تکلفات سے آزاد ہونے میں بہت ہی کم وقت لگا۔ لائبریری کی بڑی بڑی سٹڈی ٹیبلز کے آمنے سامنے پڑی کرسیوں پر بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرنا ان کے روز کا معمول بن گیا۔اکثر وہ دونوں کلاسسز بنک کرکے لائبریری آکر بیٹھ جاتے اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر ڈھیر ساری باتیں کرتے ,افشین اور فیضان نے نازیہ کی طرف سے دی گئی آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔افشین اس کا بچوں کی طرح خیال رکھتی تھی۔گھر سے اپنے کھانے پینے کے لئے جو کچھ بناکر لاتی اس میں اسے ضرور شامل کرتی۔اکثر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر مٹر گشت پر ہوتا تو اسے میسج پہ میسج کرتی “جلدی آؤ میں تمہاری وجہ سے بھوکی بیٹھی ہوں “وہ قدرے تاخیر سے اس کے پاس آتا تو کہتی “میں بھوک سے مر گئی تو اس کی ساری ذمہ داری تم پر عائد ہوگی۔اور کبھی کبھار مجھے لگتا ہے میں تمہاری دوست نہیں بلکہ ماں ہوں جو کھانا لیکر ہر وقت تمہارے پیچھے پیچھے بھاگتی پھرتی ہوں”۔

وہ اسے چھیڑنے کے لئے کہتا “اس کا مطلب آئندہ تمہیں افشین کے بجائے اماں افشین کہہ کر پکارا جائے “آگے سے چڑ جاتی اور کہتی “اب جاؤ جس ماں کے پاس جانا ہے میرے پاس کوئی کھانا وانا نہیں”وہ جان چھڑانے کے لئے “سوری” کرتا اور تب جا کر جان چھوٹتی اس کی۔

یونیورسٹی میں ڈگری مکمل کرنے کے بعد دونوں کی راہیں نا چاہتے ہوئے بھی جدا ہوگئیں۔فیضان بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوں مگر ناجانے کیوں اس دن ان دونوں کو اتنی جلدی کس بات کی تھی۔ “دیکھو افشین ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ وہ وعدے کبھی نہیں کرنے چاہیے جو ہم کبھی پورے ہی نہ کر پائیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک مختلف فیملی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں تمہارا پتہ نہیں جبکہ میرے گھر والے شاید تمہیں کبھی قبول نہ کر پائیں۔میں تمہیں ایک جھوٹی امید کے ساتھ کبھی باندھنا نہیں چاہتا۔ہو سکتا ہے میری یہ باتیں تمہیں ابھی تلخ لگ رہی ہوں مگر ہم ان کی صداقت سے کبھی آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ہمارے سامنے ہمارا کیریئر ہے ہمیں ادھر ادھر کی سوچ رکھنے کے بجائے اس پہ فوکس کرنا چاہیے۔ویسے بھی اللہ نے چاہا تو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کسی نا کسی حیثیت کے ساتھ جڑے رہیں گے۔دوستی بھی تو ایک خوبصورت اور پاکیزہ بندھن ہے ناں۔۔

“یونیورسٹی لان میں کانووکیشن کے لئے لگائے گئے شامیانوں کے عقب میں فیضان کی بات کے ختم ہوتے ہی وہ سچ مچ رو پڑی تھی۔اس کی آنکھوں میں جا بجا موتی سے تیرنے لگے تھے۔فیضان نے آنسو پونچھنے کی کوشش کی تو بجلی کی سی تیزی سے اس نے اس کے ہاتھوں کو زور سے جھٹک ڈالا۔ ایک سرد آہ بھری اور بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ بولی “اس دوستی کا ناں تم اچار ڈال لو بزدل اور بے وفا آدمی”۔۔
وہ اس سے آنکھیں ملانے بغیر الٹے قدموں چلتے ہی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

ایک بڑے پبلک کالج میں لیکچرر کی جاب لگنے کے بعد فیضان نے سب سے پہلا فون افشین کو کرنا چاہا مگر بار بار کال کرنے کے باوجود اس نے فون نہ  اٹھایا۔وہ اس رات ڈھیر سارا وقت صرف افشین ہی کو سوچتا رہا اور محض اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا کہ کیا واقعی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت تھی۔اور اگر تھی تو پھر اس کا انجام ایسا پھیکا اور روکھا روکھا سا کیوں ہوا تھا۔یونیورسٹی کے دنوں میں وہ ایک دوسرے سے اس کا اظہار کیوں نہ  کرسکے۔کیا محبت سچ میں کسی اظہار کی محتاج ہوتی ہے۔آنکھوں کی چمک اور دل کی بے ترتیب دھڑکن سب کچھ بتا نہیں دیتی۔۔یہ وہ سوالات تھے جس کا اس وقت اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

پبلک کالج میں تین سال تیزی کے ساتھ بیت گئے یہاں نوکری سے متعلقہ سب کچھ اس کے حق میں بہتر رہا۔۔اس نے اپنی سیونگز سے ایک چھوٹی گاڑی خرید لی۔۔پرنسپل کے ساتھ اتنی جمی کہ ان کی شام کی واک کا وہ لازمی حصہ بن گیا۔۔فروری کے آخری ایام چل رہے تھے صبح کی تازگی اپنے اندر میٹھی سی خنکی کا احساس سموئے ہوئے تھی۔وہ معمول کے مطابق تیار ہوکر کیمپس کی طرف بڑھ رہا تھا انہی لمحات میں اس کی آنکھوں نے وہ کچھ دیکھا جس نے آنے والے وقتوں میں اس کی زندگی میں سب کچھ بدل کر رکھ دینا تھا۔

کالج کی سٹاف بس سے اترنے والی وہ پری پیکر حسن و جمال میں بے مثل و یکتا تھی۔خدا کی بنائی جنت کی طرح ہر لحاظ سے مکمل اور ندی کے پانی کی طرح گہری اور پر اسرار۔سرو قامت, چال ڈھال میں اعتدال, چہرہ ایسا روشن و نایاب کہ نظر نہ ٹھہرے,باحیا ایسی جس کی پاکیزگی کی قسم خود خدا بھی اٹھا لے۔چلے تو زمانہ ساتھ چلے، گر رکے تو کائنات تھم جائے۔ عبایا اور ملگجی رنگ کے گاؤن میں فطرت کے بے پناہ حسن کو قید کئے اس وقت بس سے اترنے والی اس ماہ جبیں کا نام مومنہ منیر تھا۔وہ جونیر ونگ میں بائیولوجی کی ٹیچر تھی۔

وہ حیران تھا کہ یہاں اتنا وقت گزر جانے کے باوجود وہ اسے پہلے کیوں نہیں دیکھ پایا۔اس نے اپنے ونگ میں کسی سے معلوم کیا تو پتہ چلا اس نے ایک ماہ پہلے ہی بطور ایڈہاک ٹیچر کے کالج جوائن کیا تھا۔چھٹی کے وقت وہ جان بوجھ کر سٹاف بس کے پاس پڑی ایک خالی بینچ پر بیٹھ گیا تاکہ اسے ایک بار پھر جی بھر کر دیکھ سکے, وہ سنجیدگی اور وقار سے آئی اور بس میں آکر بیٹھ گئی فیضان سے رہا نہیں گیا اور وہ بغیر کسی کام کے سٹاف کو شہر گھروں تک چھوڑنے والی اسی بس میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔رستے میں بار بار اسے کن اکھیوں سے دیکھتا رہا مگر مجال ہے اس نے ایک بار بھی آنکھ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا ہو۔ اس کا سٹاپ آیا تو مخصوص متانت کے ساتھ بس سے اتر کر ایک موٹر سائیکل سوار بزرگ کے ساتھ بیٹھ کر کچھ ہی پل میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔اس دن وہ کافی دقت اٹھانے کے بعد کالج واپس پہنچا۔اس رات شاید ہی کوئی لمحہ ہو جب اس کا چہرہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا ہو۔ اس نے چوبیس پچیس سال کی اپنی اس وقت تک کی زندگی بھر پور انداز سے گزاری تھی یونیورسٹی گیٹ سے داخل ہوتے ہزاروں خوبصورت چہروں سے شناسائی ہوتی تھی۔ مگر اس نے مومنہ جیسا ایک مکمل سراپا اس دن سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ایک جمالیاتی حس رکھنے والے شخص کے لئے کسی بھی حسین شے کی جانب متوجہ ہونا غیر معمولی بات نہیں تھی مگر وہ اتنی خوبصورت اور باحیا تھی کہ کوئی بھی ایک بار دیکھتا ہوگا تو دوسری بار دیکھنے کا اشتیاق رکھنے کے باوجود کہ کہیں حسن گہنا نہ جائے دوبارہ نا دیکھتا ہوگا۔ اس کی پارسائی اور حیا کسی کے سامنے ثابت کرنے والی نہیں بلکہ ایک لمحہ دیکھنے سے ہی نظر آ جانے والی تھی۔ اس نے اس دن خود سے وعدہ لیا کہ جینا ہے تو اب اسی کے سنگ,شادی کرنی ہے تو صرف اسی سے کرنی ہے وہ تین چار دن انہی خیالات میں کھویا رہا۔ان دنوں ایک حسین اتفاق یہ ہوا کہ مومنہ کا تبادلہ فیضان کے ونگ میں کر دیا گیا۔وہ کئی روز ایک دوسرے کے سامنے اور آس پاس سے گزرتے رہے مگر فیضان کو کبھی بھی اس سے بات کرنے کی ہمت  نہ  ہوئی۔ ایک روز کالج کی مرکزی لائبریری میں اخبار کے مطالعے کے دوران اس کی نظر کتابوں والی الماری کے ساتھ کسی نا معلوم کتاب کی تلاش میں کھڑی اس پری پیکر پر جا پڑی۔اس سے کئی مہینوں سے ہونے والی اس کی قلبی دستک میں شدت سی آگئی ۔اس نے زور زور سے سانس کھینچی اور لائبریرین سے آنکھ بچا کر اس کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا بڑی مشکل سے خود میں ہمت کو یکجا کرنے کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا۔

السلام علیکم! میرا نام فیضان ہے۔انگلش ڈیپارٹمنٹ سے ہوں۔آپ لٹریچر کے حوالے سے کوئی کتاب ڈھونڈ رہی ہیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں”اس کے لہجے میں بلا کی متانت تھی۔
“بہت شکریہ سر! میں تو بس ایسے ہی کتابوں کے ٹائٹل دیکھ رہی تھی۔ میری کلاس کا وقت ہو چلا ہے میں چلتی ہوں “وہ دھیمے لہجے میں بات ختم کئے اس کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے پلٹ گئی۔

اس کے لہجے کی مٹھاس اور شائستگی نے اسے کافی دیر تک مبہوت کیے رکھا۔ فیضان نے دو دن بعد اپنے ایک کولیگ(جوکہ اسی کے محلے کا ہی رہائشی تھا,سے اس کے حوالے سے کچھ معلومات لیں تو پتہ چلا محترمہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں ۔والد سکول ٹیچر اور انتہائی دیندار شخص ہیں۔مومنہ بڑوں میں دوسرے نمبر پر تھی اس لئے بھائی کی شادی کے بعد اب گھر میں اس کی شادی کی بات چیت چل رہی تھی۔فیضان نے اسی شام گھر میں کال کی اور بڑی بہن کو مومنہ سے متعلق تمام بات کھل کر کہہ دی اور امی ابو کو منانے کی ذمہ داری بھی ان کو دے دی۔

ایک شب بار بار مومنہ کا چہرہ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں آ کر ٹھہرنے لگا۔ وہ جذباتی سا ہوکر بار بار اس کا وٹس ایپ پروفائل وزٹ کرتا رہا, اسے آنلائن دیکھ کر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا اور گھبرا کر پھر مٹا دیتا۔ کئی لمحوں کی ریاضت کے بعد بالآخر اس نے اسے ایک جھوٹ موٹ کا میسج بھیجا کہ “میری ایک بہن ایف ایس سی کے امتحانات کی تیاری کر رہی ہے اس ضمن میں اسے بائیو کے کچھ نوٹس درکار ہیں اگر آپ کے پاس ہیں تو مجھے عطا کر دیں مہربانی ہوگی”۔

کچھ لمحے انتظار کے بستر پر لوٹنے کے بعد اس کا مختصر پیغام آیا”جی سر!میرے پاس ہیں میں کل کالج لے آؤں گی”

اس کا میسج ملتے ہی اس میں ایک برقی   رو دوڑ گئی ، دل کی  دھڑکن بے اختیار سی ہوگئی  اور وہ موبائل فون کی سکرین پر نظریں جمائے کافی دیر زیر لب مسکراتا رہا۔
اس نے کئی بار دماغ میں جملے ترتیب دینے کی کوشش کی مگر کوئی مناسب جواب بن نہیں پایا اس لئے وہ محض شکریہ کا میسج کرکے نیند کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔

اگلے دن مومنہ نے ایک میڈ کے ہاتھ سٹاف روم میں وہ نوٹس اس تک پہنچا دیئے اور اس نے دیکھے بغیر اپنے ریک میں رکھ دیے۔ان کے سٹاف روم میں ایک اسلامیات کے ٹیچر قاری قدوس صاحب تھے جو کہ کالج میں کنوارے اساتذہ کا رشتہ کروانے کے حوالے سے کافی مشہور تھے۔ وہ بریک کے دوران انہیں کینٹین پر لے گیا اور چائے اور بسکٹ کا آرڈر دے کر سامنے لان میں پڑی ایک خالی بینچ پر ساتھ آکر بیٹھ گیا۔

اس نے ساری بات ان کے سامنے رکھی کہ وہ مومنہ کو بے حد پسند کرتا ہے, آپ اس حوالے سے کچھ کوشش کریں تاکہ شادی کی کوئی راہ ہموار ہو سکے۔ وہ مومنہ کے ابو کو جانتے تھے اس لئے جلد مان گئے اور دو دن تک اسے اچھی خبر سنانے کا مژدہ سنایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply