والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں
قسط نمبر 24
یہ بھی عجیب اتفاق ہوا کہ میں والدصاحب کے کلیات کے لیے اُن کی شاعری کی تلاش میں ورق ورق سرگرداں تھا کہ برادرم ڈاکٹر امجد طفیل صاحب کا اطلاع نامہ نظر سے گزرا جس کے مطابق اُن کی ادارت میں شائع ہونے والے موقر ادبی جریدہ ’’استعارہ‘‘ کے آئندہ شمارہ میں ایک خصوصی گوشہ فلسطین کے حوالہ سے لکھی جانے والی تخلیقات پر مبنی ہوگا۔ اہلِ ادب کو لکھنے اور اپنی نگارشات بھیجنے کی دعوت دی گئی تھی۔ میرا ذہن فوری طور پر والدصاحب کی اُس نظم کی طرف دوڑ گیا جو ابھی ایک روز قبل ہی ان کی تحریروں میں چُھپی ملی تھی۔ نظم فسلطین کے حوالہ سے تھی۔ سات اشعار پر مشتمل اس نظم میں جہاں فلسطین کی سرزمین کو قبلہِ اول کا امین قرر دیتے ہوئے اس کی تقدیسی اور تاریخی اہمیت واضح کی گئی ہے وہاں مسلمان سیاسی رہنماوں کی بے اعتنائی پر بھی اظہار ِتاسف کیا گیا ہے۔ اس مقدس سرزمین پر قابض قوت کو ظالم اور بد طینت کہا گیا ہے اور اس سرزمین پر بسنے والے اہلِ ایماں سے اظہارِ یک جہتی کیا گیا ہے۔ وہاں برسوں سے جاری جبری عسکری کاروائیوں کے پیشِ نظر اسے بجا طور پر عصرِ نو کی کربلا سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اس کے دُکھی ماحول کو شامِ غریباں ظاہر کیا گیا ہے۔


یہ نظم ۱۹۸۳ میں لکھی گئی تھی۔ مہینہ اپریل کا رہا ہوگا کیونکہ جس پوسٹ کارڈ کے پیچھے یہ نظم تحریر ہے وہ دراصل ایک نعتیہ مشاعرہ کا دعوت نامہ ہے جو پروفیسر خالد بزمی اور عابد نظامی صاحبان کی

یہ جوش و خروش ہم بچپن سے دیکھتے آرہے تھے۔ فلسطین کے حوالہ سے اخبارات و جرائد کی خصوصی اشاعتیں، عوامی اور سرکاری ہر دو سطح پر اہلِ فلسطین سے اظہارِ یک جہتی اور پھر پُرجوش جلسے جلوس جن میں سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی شریک ہوتے اور غیر سیاسی افراد بھی۔ مسئلہِ کشمیر اور مسئلہِ فلسطین دو ایسے مسئلے ہیں جو بچپن سے لڑکپن ، لڑکپن سے جوانی او ر پھر جوانی سے عمر رسیدگی کی دہلیز تک ہمارے ساتھ ہی چلے آرہے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں کبھی کبھی ان مسائل کے حل ہونے کی خوش خبریاں بھی کانوں سے ٹکرائیں مگر پھر جلد ہی بُری خبروں میں تبدیل ہوگئیں۔
خود ہمارے گھر میں دیوار پر پی ایل او کے رہنماوں یاسر عرفات اور لیلیٰ خالد کی تصاویر آویزاں تھیں۔ یہ تصاویر ضرور کسی اخبار کے صفحات سے کاٹی گئی تھیں۔ یاسر عرفات روایتی عرب لباس میں جبکہ لیلیٰ خالد

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پرائمری سکول کے دنوں میں ہمارے بازار میں سے ایک بڑا جنازہ قبرستان میانی صاحب کی طرف جارہا تھا۔ جنازہ کے شرکا بلند آواز میں کلمہِ طیبہ کا ورد کرتے جارہے تھے اور نعرہ تکبیر بھی بلند کرتے تھے۔ میں نے اس سے پہلے ایسا جنازہ نہ دیکھا تھا۔ عام طور پر کلمہ شہادت کی صدائیں سنائی دہتی تھیں جنازوں میں۔ یہاں ماحول کچھ مختلف ہی تھا۔ میں نے والدصاحب سے پوچھا تو وہ فرمانے لگے کہ یہ ایک ایسے نوجوان کا جنازہ ہے جو فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے گیا تھا اور وہاں شہید ہوگیا۔ اس لیے لوگوں میں جوش و خروش بھی معمول سے زیادہ ہے اور ان کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی مسئلہ فلسطین پر جلسے ہوتے اور کلاسز میں اساتذہ بھی حسبِ توفیق اس پر بات کرتے۔ والدصاحب اور میرے جاننے والے ہر شاعرنے فلسطین پر نظم کہہ اور سنا رکھی تھی۔ کئی کتابیں اور مجموعے بھی سامنے آئے۔ دوایک نظمیں کہنے کی توفیق مجھے بھی ہوئی مگر والدصاحب کی یہ نظم میں نے پہلے کبھی نہیں پڑھی۔ والدصاحب اپنے کلام کے لیے کوئی مستقل بیاض یا ڈائری اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔ بس آمدِ شعر کے وقت لکھنے کو جو کچھ بھی دست یاب ہوا، مصرع، شعر، نظم یا غزل جو بھی ہوتا اس پر منتقل ہوجاتا۔ اب دستیاب شے کاغذ کا ورق بھی ہوسکتا تھا اور سگریٹ کی خالی ڈبیا بھی۔رائٹرز کی خبروں کا ایک طرف سے خالی صفحہ بھی ہوسکتا تھا اور کوئی پوسٹ کارڈ بھی۔ جیسا کہ اِ س نظم کے ضمن میں ہوا۔ لگتا ہے کہ انھوں نے نظم لکھی اور کسی لفافے میں رکھ دی کہ آرام سے کہیں بیٹھ کر ورق پر اتار لوں گا مگر یہ اس لفافے کے ساتھ ہی نظر سے اوجھل ہوگئی۔ چند برس قبل میں والدہ صاحبہ سے ملنے لاہور گیا تو ان کی اجازت سے والدصاحب کے کاغذات پر مشتمل چند خاکی رنگ کے لفافے بھی اپنے ساتھ کینیڈا لے آیا۔ ان لفافوں میں ان کی تخلیقات بھی ملیں اور خطوط بھی۔افسوس، یہ سب خاصی خستہ حالت میں ہیں ۔ میں وقت ملنے پر ایک ایک ورق کو احتیاط سے سیدھا کرتا ہوں۔ اس کی ایک تصویر محفوظ کرتا ہوں اور پھر اسے ایک پلاسٹک کی پروٹیکٹو شِیٹ میں ڈال کر فولڈر میں رکھ دیتا ہوں۔ ہر فولڈر پر مختلف اصناف کے لیبل چسپاں ہیں تاکہ تخلیقات کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔
میں نے ا س دوران میں والدصاحب کی کئی تخلیقات، ان کے خط میں بھی اور کمپوز کرکے بھی سوشل میڈیا پر احباب سے سانجھی کی ہیں۔ اورفلسطین پر یہ نظم امجد طفیل کی ’’استعارہ‘‘ کے لیے بھیجی ہے تو سوچا کیوں نہ ’’مکالمہ‘‘ پر اپنے ان دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کروں جو میرے ساتھ کئی ماہ سے والدصاحب کی یادوں سے روشن منظر منظر کہانی پڑھتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے آرہے ہیں۔:
لیجیے، اپریل 1983 کی یہ نظم پڑھیے جو آج مئی 2024 میں بھی ویسی ہی بامعنی ہے جیسی اکتالیس برس قبل تھی:
عصرِ نو کی کربلا تجھ پر سلام
اے فلسطیں، سرزمینِ انبیا تجھ پر سلام
عصرِ نو کی خوں میں ڈوبی کربلا تجھ پر سلامتجھ پہ قابض ہیں یہودی بدسرشت و بدنہاد
جن کی طینت میں ہے فتنہ، جن کی فطرت میں فساد
لیجیے، اپریل 1983 کی یہ نظم پڑھیے جو آج مئی 2024 میں بھی ویسی ہی بامعنی ہے جیسی اکتالیس برس قبل تھی:
عصرِ نو کی کربلا تجھ پر سلام
اے فلسطیں، سرزمینِ انبیا تجھ پر سلام
عصرِ نو کی خوں میں ڈوبی کربلا تجھ پر سلامتجھ پہ قابض ہیں یہودی بدسرشت و بدنہاد
جن کی طینت میں ہے فتنہ، جن کی فطرت میں فساد
قبلہ اوّل کی حرمت ہورہی ہے پائمال
خوں رُلاتا ہے مجھے ملّت کا یہ رنگِ زوال
دندناتے پِھر رہے ہیں مرحبی و عنتری
اور مُسلم ہیں کہ پھر ہیں محو ِجنگ ِ زرگری
لیکن اے ارضِ فلسطیں، اے نگارِ زندگی
دم قدم سے تیرے قائم ہے وقارِ زندگی
اے فلسطیں، قتل ہوکر بھی ہمیشہ زندہ ہے
وقت کی تاریخ میں تابندہ تھا، تابندہ ہے
ظلمتِ شامِ غریباں میں اجالے تجھ سے ہیں
موت کے دامن میں ہستی کے حوالے تجھ سے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یزدانی جالندھری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں