چوہے دانوں کی مخلوق (ایک غصیلی نظم)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بد صورت، مکروہ چڑیلوں
کی مانند گلا پھاڑتی، بال نوچتی ؎۱
دھاڑیں مارتی، چھاتی پیٹتی
باہر ایک غصیلی آندھی
پتے، شاخیں، کوڑ کباڑ، کتابیں اپنے ساتھ اڑاتی ؎۲
مُردہ گِدھوں کے پنجوں سے جھٹک جھٹک کر
زندہ حیوانوں سے ان کی جان چھینتی
کھڑکی پر دستک دیتی ۔۔۔۔
یہ بار بار کہتی ہے مجھ سے
چوہوں کی مانند بلوں میں
چھُپ کر مت بیٹھو، اے شاعر
باہر نکلو

بار بار یہ آندھی مجھ کو
چیخ چیخ کر ایک ہی بات کہے جاتی ہے
باہر نکلو، باہر نکلو ۔۔۔
اور اگر ہمت ہے تو ان خونی گِدھوں کے پنجوں سے
اپنا ورثہ، اپنی ثقافت چھین کے دیکھو
تم نے شایدسقراطوںکی
نئی نسل کے بارے میں کچھ سن رکھا ہو
زہر پیالہ پینے سے ڈرتے ہیں سارے
گھر کے اندر چھپ کر بیٹھے چوہے ہیں سب
سب کو علم ہے
باہر نکلے تو سب کے سر
نوچ لیے جائیں گے۔۔۔اور پھر
لوگوں کی عبرت کی خاطر،چوراہوں پر
بجلی کے کھمبوں سے لٹکائے جائیں گے

Advertisements
julia rana solicitors london

’’کیا سوچا ہے۔۔۔؟‘‘
زہر خند یہ آندھی مجھ سے پوچھ رہی ہے
کیا سوچا ہے؟
۔۔میں البتہ یہی کہوں گی
باہر مت نکلو اے چوہے دانوں کی مخلوق
کہ دانائوں نے کہا ہے
دُم سے باندھو چھاج کہ چوہا بِل سے باہرآ نکلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ ۱چڑیلیں : استعارہ ۔۔۔ شیکسپیئرؔ سے مستعار
؎۲ کوڑ، کباڑ ، کتابیں۔۔۔استعارہ لوئی میکنیسؔ سے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply