• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کتھا چچار جنموں کی‘‘ کا نیا روپ’’​/قسط3۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کتھا چچار جنموں کی‘‘ کا نیا روپ’’​/قسط3۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جب مجھے بتایا گیا کہ اب مجھے نوشہرہ چھاونی جانے کی تیاری کرنی ہو گی ، تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے غیر مرئی طور پر یہ محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے کی ابتدا ہے۔ میں کوٹ سارنگ آتا جاتا رہوں گا، لیکن اب میں پردیسی ہو چکا ہوں۔ اس گھر تک،اس گلی تک اور کوٹ سارنگ تک میرا رشتہ ایک ڈور سے بندھا ہوا ہے، جس کے آگے گانٹھ پڑی ہوئی۔ اب میں کوٹ سارنگ نہیں رہ سکتا۔پانچویں جماعت کا امتحان نہ جانے کیسے پاس ہوا۔ مجھے یاد تک نہیں ہے کہ میرے رزلٹ کارڈ یعنیSchool Leaving Certificate پر کیا لکھا ہوا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میرے بابو جی نوشہرہ چھاؤنی سے کچھ دنوں کے لیے آئے اور سب کوتیارہونے کے لیے کہا۔ ماں، دادی اور اس سے دو برس بڑی بہن ساتھ لے جانے والا سامان باندھنے لگ گئیں۔ میں بد حواس سا کبھی ادھر دیکھتا، کبھی اُدھر دیکھتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
‘‘ہم کوٹ سارنگ چھوڑ کر کیوں جائیں؟’’
آگے پڑھنا نہیں ہے کیا؟ یہ اسکول تو صرف پانچویں جماعت تک ہے۔‘‘ میری بہن نے کہا۔’’
ہاں، پڑھنا ہے،‘‘ میں نے کہا تھا’’
‘‘لیکن، کیا ہم یہاں اب کبھی واپس نہیں آئیں گے؟
کیوں نہیں آئیں گے؟ ہر برس گرمیوں کی چھٹیوں میں آیا کریں گے۔میری ماں نے کہا۔’’

میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے لگا جیسے میرا کنچوں (بنٹوں) سے بھرا ہوا چھوٹا سا کپڑے کا تھیلا اچک اچک کر مجھ سے کہہ رہا ہو، ’’مجھے ساتھ لے جانا نہ بھولنا۔ وہاں بھی سنگ سنگ کھیلیں گے۔

گلی ڈنڈا دالان میں اکٹھے پڑے تھے۔ گُلی جیسے تلملا رہی تھی، میری آنکھوں کو شاید دھوکہ ہوا ہو، لیکن مجھے لگا کہ ڈنڈا تو چُپکا پڑا رہا، لیکن گلی اچھل کر میرے پاؤں کے پاس آ گری۔ بولی، ’’ہونہہ، ہونہہ ، میں بھی ساتھ چلوں گی۔ ڈنڈے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں، وہاں کوئی ترکھان کہاں ہو گا، جو نئی گُلی بنا دے گا۔ مجھے ابھی سے اپنی کتابوں میں یا کپڑوں میں چھپا دو۔ ماں نے دیکھ لیا، تو نہیں لے جانے دے گی۔

میں نے دیوار پر نظر دوڑائی۔ میرے پتنگ کی مانجھا لگی ڈور کی چرخڑی دیوار پر ایک کیل کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔ پتنگ نیچے زمین پر پڑا تھا۔ مجھے لگا جیسے پتنگ کو شاید ہوا کے ایک نا دیدہ جھونکے نے اڑا دیا ہو اور وہ میرے پاؤں کے پاس آ گرا ہو۔ لیکن نہیں، پتنگ تو وہیں پڑا تھا، ہو ا کے جھونکے نے اسے ہلا دیا تھا اور وہ پھڑپھڑا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ پتنگ کی بولی صرف میں ہی سمجھ سکتا تھا، کوئی اور نہیں۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’وہاں بھی تو میں نے ہی دوسرے پتنگ بازوں کے بو کاٹے کرنے ہیں۔ مجھے کیسے نہیں لے جاؤ گے۔ نہیں لے جاؤ گے، تو میں خود اُڑ کر آ جاؤں گا۔

میں نے یہ ہوشیاری ضرور کی تھی کہ لکڑی کی گلُی کو آدھ درجن بنٹوں کو اپنے کپڑوں والے بکس میں چھپا دیا تھا، لیکن ڈور کی چرخڑی بہت بڑی تھی اور جب مجھے اس کے لیے کوئی جگہ نہ ملی تو میں نے دادی کی منت سماجت کی، لیکن دادی۔۔ جس نے زندگی میں کبھی غصہ نہیں کیا تھا، کبھی اونچی بولی تک نہیں تھی، کہنے لگی، ’’مجھے یہیں چھوڑ جاؤ بیٹے، اور میری جگہ اپنی اس ڈور کو لے جاؤ۔میں، قسمت کی ماری بدھوا،آج تک میں نے کوٹ سارنگ سے پاؤں باہر نہیں نکالا۔ صرف ایک بار کلر کہار کے کٹاس راج میلے پر گئی تھی، گھوڑی پر بیٹھ کر، پر تب تمہارے دادا زندہ تھے، پٹھان ڈاکوؤں نے انہیں گولی سے نہیں مارا تھا۔

“اب میری مٹی کیوں خراب کر رہا ہے تمہارا باپ؟ اس سے پوچھو، مجھے نوشہرہ ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے یہیں چھوڑ جاؤ۔ گھر ہے، اناج ہے، گائے ہے، ان سب کی نگہبانی کون کرے گا۔

اور میں نے واقعی ہمت کر کے ماں سے بات کی۔ بابو جی سے بات کرنے کی جرات مجھ میں نہیں تھی۔ ماں اور بابو جی کے بیچ کچھ کہا سنی بھی ہوئی، لیکن آخر یہی طے ہوا، کہ بے بے یعنی دادی ماں کو کوٹ سارنگ میں ہی رہنے دیا جائے۔ ان کی ست سنگنی دوسری عورتیں بھی ہیں، روز آ جایا کریں گی اور چرخوں کا ’’بھنڈار‘‘ لگایا کریں گی۔ یعنی مل جل کر پانچ چھ  عورتیں اپنے اپنے چرخوں پر سوت کاتیں گی اور بعد میں دیکھیں گی، کس نے زیادہ سوت کاتا ہے۔

دوسرے دن انہیں لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہوناتھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پنڈی گھیب سے بس بدل کربسال جائیں گے، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑیں گے جو انہیں نوشہرہ تک لے جائے گی۔ میں نے ریل گاڑی کبھی دیکھی نہیں تھی، تو بھی اس کی تصویریں ضرور دیکھی تھیں۔ میں جانتا تھا کہ بھاپ سے چلتی ہے اور کوئلہ انجن میں رکھے ہوئے پانی کے ایک ٹینک کو لگاتار ابالتا رہتا ہے، جس سے بھاپ بنتی ہے

کہاں جا رہے ہو؟

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

یہ آواز کس کی ہے؟ کس نے کہا ہے؟
وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کوئی تو ہو گا
مگر اک گھڑی دو گھڑی کے لیے وہ اکیلا ہے گھر میں
سبھی لوگ گاؤں میں سب سے بدا ئی کی خاطر گئے ہیں
’’کہاں جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر یوں اکیلا؟‘‘
کوئی تو مخاطب ہے اس سے!
سراسیمہ، تنہا، ذرا سہما سہما،
اسے اپنی گونگی زباں جیسے پھر مل گئی ہو
‘‘وہ کہتا ہے، ’’جو کوئی بھی ہو نظر آؤ، میں بھی تودیکھوں
میں چاروں طرف ہوں تمہارے’’
مرے دل کے ٹکڑے،مری آل اولاد، بیٹے
تمہیں کیا مرے دل کی دھڑکن
مرے سانس کا دھیما، کومل سا سرگم
مرے جسم کی عطر آگیں مہک
جیسے صندل کی لکڑی میں بٹنا گھسا ہو۔۔
مرا کچھ بھی کیا تیرے احساس کوجگمگاتا نہیں
،اے مرے دل کے ٹکڑے؟
میں گھر ہوں، مکاں ہی نہیں، تیرا مسکن ہوں، بیٹے
مری چھت کے نیچے ہی پیدا ہوا تھا
یہیں تیری نشاۃ اولیٰ نے تجھ کو جگا کر کہا تھا
ذرا آنکھ کھولو، تمہاری ولادت ہوئی ہے
مگر آج توُ، یوں بِدا ہو رہا ہے
‘‘کہ جیسے ترا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، میرے بچے؟

سنا اس نے، دیکھا کہ دیوار و در بولتے ہیں
سنا اس نے، دیکھا
کہ کمرے کی چھت بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا
ہوا سنسناتی ہوئی بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا
کہ زینہ اترتی ہوئی دھوپ بھی بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا
کہ پنجرے کی مینا
پھدکتی ہوئی چیختی ہے
کہاں جا رہے ہو؟
سنا اس نے، دیکھا
کہ آنگن کی بیری کی شاخوں میں بیٹھے پرندے
چہکتے نہیں، بس خموشی سے
اس کی طرف دیکھتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭
(یہ نظم کوٹ سارنگ سے ہجرت کے پندرہ برس بعد یعنی 1962میں خلق ہوئی)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments