سیٹو اور سنی(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

ہمارے ڈائنگ ہال میں ایک مختصر قد و قامت اور جھلسی رنگت کا حامل عیسائی ہندوستانی بھی رہائشی تھا۔ وہ بنگال کے سحر آفریں شہر یعنی دارجلنگ کا باسی تھا اور عموماً وسیع ڈائنگ ہال کے پچھلی جانب، آتش دان کے قریب بیٹھا کرتا ۔ اچھا مہذب اور رکھ رکھاؤ کا حامل تھا۔ وہ اکثر کچن کی کھڑکی پر آ کر بنگلہ میں مجھ سے حال احوال لیتا اور یوں مختصر مدت کے لیے وہ دارجلنگ اور میں ڈھاکہ سے ہو آتے۔
آج کل اکثر لنچ بریک پر ساتھی لڑکیاں سیٹو سے چھیڑ چھاڑ کرتی مگر میں نے نوٹس نہیں لیا کہ میں ان دنوں اپنے سسر علالت کے باعث

ذہنی طور پر منتشر و فکرمند تھی۔ اپنی بھری پری سسرال میں میرے سسر میری پسندیدہ شخصیت کہ وہ بڑے ہی درد مند اور انسان دوست ہیں ۔ ذات برادری، چھوت چھات اور مسلک کی تفریق سے اوپر، درویش صفت انسان۔ ایک دن دو ویٹریس کسی بنا پر غیر حاضر تھیں اور بد قسمتی سے ہمیں ان کی متبادل بھی نہیں مل سکں، لہزا اس دن مستقل میری بھی ڈائنگ ہال کی دوڑ لگتی رہی۔ میں روتھ ( رہائشیوں کی چیٹر باکس) کو سرو کر رہی تھی کہ اس نے کہا کہ پھر تمہاری دوست شادی کب کر رہی ہے؟
میں حیران کون دوست، کس کی شادی؟
میرے حیرت زدہ تاثرات دیکھ کر اس نے پوچھا کیا تمہیں سیٹو اور سنی کے متعلق علم نہیں؟
میرے انکار پر بے ساختہ ہنسی اور کہا کس دنیا میں رہتی ہو تم؟ سب کچھ تو تمہاری ناک

کے نیچے ہو رہا ہے اور تمہیں ہی خبر نہیں؟
قصہ مختصر پتہ چلا کہ سنی صاحب ، سیٹو کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے تھے اور دونوں کا زور دار قسم کا رومانس چل رہا تھا۔ ان کا باہر کا ملنا ملانا اور سیر و تفریح بھی تھی اور سنی سیٹو کو پروپوز بھی کر چکا تھا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ ارے ہاں!! ادھر کچھ عرصے سے سیٹو نک سک سے تیار اور بہت خوش باش لگ رہی تھی۔ اللہ رے عشق کی نیرنگیاں، مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئ اور میں نے روتھ سے کہا اچھا ہے نا ، دو اداس و تنہا انسان بقیہ زندگی خوشی خوشی جی لے گے۔
شام میں جب قدرے فرصت میسر آئی تو میں نے سیٹو کو مبارکباد دی۔ سیٹو نے خوشی خوشی مجھے اپنی ہیرے کی دمکتی سولیٹئر انگوٹھی ( solitaire diamond ring)

دیکھائی اور بتایا کہ، آج میں نے سنی کا پروپوزل قبول کر لیا ہے۔ اتنی میں باقی لڑکیاں بھی جمع ہو گئی اور خوب مبارک سلامت کا شور مچا اور ہم سب نے سیب کے جوس پر ٹوسٹ کرتے ہوئے سیٹو کی منگنی کو سیلیبڑیٹ کیا۔

میں اپنے سسر کے انتقال پر بنگلہ دیش چلی گئ اور وہاں تقریباً دو مہینے رہ گئی۔ بچیوں کی پڑھائی کا بہت نقصان ہوا، مجھے نوکری کی بھی فکر تھی کہ میں تو صرف پندرہ دن کی چھٹی لے کر آئی تھی مگر ان کی جدائی میں میری ساس اس قدر نڈھال تھیں کہ انہیں اس حال میں چھوڑنے کو دل ہی نہیں مانا۔ وآپسی پر زندگی پھر وہیں سے شروع ہو گئ، وہی مصروفیت اور بھاگ دوڑ جو باہر کی زندگی کا خاصہ ہے۔ جینیفر کی مہربانی اس نے مجھے دوبارہ کام پر رکھ لیا۔ سنی نے اولڈ

ہوم چھوڑ دیا تھا اور سیٹو کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ سیٹو اب بھی کام پر آتی تھی مگر بجھی بجھی سی اور پژمردہ۔ اس کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی اور اب اس کی واحد خوراک دودھ اور دہی تھی اور وہ کسی کو کچھ بھی بتانے سے انکاری۔ پھر سیٹو نے کام چھوڑ دیا، کچھ دن لینچ بریک پر اس کا ذکر رہا پھر وہ قصہ پارینہ ہو گئی۔
ایک دن اچانک سیٹو کی بیٹی مینجر سے ملنے آئی، وہ بہت غصے میں تھی اور جو کچھ اس نے بتایا وہ ناقابل یقین تھا۔ سیٹو کو حلق کا کینسر تشخیص ہوا تھا اور بقول اس کی بیٹی کہ سنی اس کے گھر سے زیور اور نقدی لے کر فرار ہو گیا ہے۔ سیٹو کی بیٹی کا مینجر سے پر زور اصرار تھا کہ
اسے، سنی کی پرسنل فائل سے اس کا سن کارڈ نمبر دیا جائے۔ ظاہر ہے جینیفر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ غصے میں بکتی جھکتی

وآپس چلی گئی اور ہم سب دم بخود رہ گئے کہ سنی کے متعلق دل یہ مانے کو تیار ہی نہ تھا۔ ہفتہ بھر تک سیٹو پھر لنچ بریک کا گرما گرم موضوع رہی۔ پھر تیز رفتار وقت کی زد میں سیٹو بھی بھولی بسری کہانی ہوئی۔
گزرتے وقت کے بہاؤ میں میری زندگی نے بھی رخ بدلا اور میں اپنے گوہر مقصود سے فیضیاب ہوئی۔ ہمارے اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ہم لوگ بغیر سود کہ اپنے گھر کے مکین ہوئے۔ رجا بھی یونیورسٹی میں آ چکی تھی اور ہماری زندگیاں بڑی متوازن اور پرسکون تھیں۔ میں نے رحمان سے حسب وعدہ، اب نوکری چھوڑ دی تھی اور ہفتے میں تین دن مسٹرڈ سیڈ کے کچن میں والنٹیئر کرتی کہ یہ میرا اپنے آپ سے عہد تھا کہ میں کارآمد شہری بنوں گی اور اپنی ذات سے دنیا کو کچھ بہتر لوٹاؤ گی۔

ایک دن اچانک مال میں مجھے سیٹو مل گئ۔ گو اب وہ اپنی پرچھائی بھی نہ رہی تھی مگر میں نے اسے پہچان لیا اور اسے زندہ سلامت دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ہم دونوں نے فوڈ کورٹ میں فش اینڈ چپس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احوال لیا۔
دنیا واقعی حیرت کدہ ہے، سیٹو کی زبانی کیسی عجیب درد انگیز کہانی کھلی۔ یہ محبت ہی کا اعجاز تھا کہ سیٹو نے کینسر جیسے مہلک مرض کو شکست دی اور اب اس کے بد اثرات سے آزاد تھی۔ وہ اور سنی کرائے کے بیسمنٹ میں خوش باش ایک دوسرے کے درد آشنا ساتھی تھے۔ سنی کسی پاکستانی کے پٹرول پمپ میں پارٹ ٹائم کیشئیر کی نوکری کر رہا تھا اور ریٹائرمنٹ سے ملنے والی ماہانہ رقم اور قلیل تنخواہ میں دونوں خوش اسلوبی سے گزارہ کر رہے تھے۔ سیٹو سدا کی ہنر مند، اپنے گھر پر بچوں کو اوریگامی اور

ایکبانا کی کلاسز دیتی۔
میں نے منہ سے تو کچھ نہیں پوچھا مگر شاید میری آنکھوں میں تیرتا سنی پہ لگا الزام بہت واضح تھا کہ سیٹو جیسی لیے دیے رہنے والی بھی وضاحت دینے پر مجبور ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی دونوں بیٹیاں اس شادی کے شدید خلاف تھیں اور شادی ہو جانے کے باوجود انہوں نے سنی کو قبول نہیں کیا تھا ۔ سنی بھی اتنا ہی جھکی تھا جتنا کہ بڑھاپے میں آدمی ہو جاتا ہے، سو اس نے بھی میری بیٹیوں سے تعلقات بنانے کی کوشش نہیں کی۔ بیٹیوں اور داماد کی مستقل مداخلت کے سبب ہمارے آپس کے تعلقات بگڑنے لگے۔ کچھ میں اپنی بیماری کے سبب بھی چڑچڑی اور زود رنج تھی۔ سب مل ملا کر یہ ہوا کہ ایک دن سنی ناراض ہو کر گھر چھوڑ گیا۔ جس دن سنی گیا اس کے دو دن بعد میرے داماد نے شور مچا دیا کہ اس کی قیمتی گھڑی اور گھر

میں رکھی گئی نقدی نہیں مل رہی، بیٹی نے جب اپنا سامان ٹٹولا تو وہاں بھی وہی صورت حال تھی۔ گھر میں خوب ہنگامہ ہوا اور داماد بھی غصے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ میرا دل نہیں مانتا تھا کہ سنی اتنی گھٹیا حرکت کرسکتا ہے مگر میری دونوں بیٹوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔ میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بیٹی نے سنی کے خلاف پولیس میں پرچا کٹوا دیا۔ ان حالات میں میری طبیعت مزید بگڑتی گئی اور ہسپتال کا چکر بڑھتا گیا۔ بیٹی بھی اپنے میاں کے گھر چھوڑنے کا زمہ دار مجھے ٹھہراتے ہوئے مجھ سے کھنچی کھنچی رہنے لگی۔ میں ہسپتال میں داخل تھی کہ اچانک ایک رات سنی کا فون آ گیا۔ میں نے اسے اپنی طبیعت کا بتایا اور صرف روتی رہی۔ اگلی شام سنی ہسپتال میں میرے سامنے تھا۔ میں اسے دیکھ کر گھبرا گئ کہ اسے تو پولیس چوری کے الزام میں پکڑ لے گی، مگر اب شاید

چیزوں کی درستی کا لمحہ تھا۔ ایک دن پہلے ہی میری بیٹی نے اپنے روٹھے میاں کو اس کی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ، اپنی چوری شدہ گولڈ چین اور انگوٹھیوں کے سمیت ریسٹورنٹ میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ بیٹی نے پولیس میں اپنے میاں کے خلاف نیا پرچہ کروایا اور سنی کا نام وآپس لیا۔
سنی نے میری تیمارداری میں نہ دن کو دن سمجھا اور نہ ہی رات کو رات۔ میری دیکھ بھال اور دل داری میں اس نے دنیا تج دی۔ اس کی اسی بے لوث محبت اور خلوص نے مجھ میں دوبارہ جینے کی امنگ پیدا کر دی اور میں نے اپنی جانب سرعت سے بڑھتی ہوئی موت کو شکت فاش دے دی۔ سچ پوچھو تو سنی مجھے موت کے جبڑے سے چھڑا لایا۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں انتہائی خوش ہیں اور آخری سانس تک ایک دوسرے کے ساتھی و دم ساز بھی۔ شاید

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہ ہو مگر ہم دونوں لمحوں کو جیتے ہیں، ایک ایک سانس اور ساتھ سے محظوظ ہوتے ہیں۔
اچانک سیٹو کے چہرے پہ دھنک سی چمکی اور وہ
بے قراری سے ہاتھ ہلانے لگی۔
میں نے پلٹ کر دیکھا،
اس کا دلنواز و دلبر سنی شتابی سے اس کی جانب بڑھتا چلا آ رہا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply