سیریز-​مرزا غالب کا فارسی کلام(4)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​غلب کے اشعار پر ریدکتیو اید ابسردم تکنیک سے استوار کی گئی نظم ۔۲
قافیہ بندی
غالب نبود شیوہٗ من قافیہ بندی۔۔
ظلمیست کہ بر کلک ورق می کنم امشب
غالب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید
ڈگمگاتے، گرتے پڑتے
کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے
پیچھے ہٹتے
اپنے ’ہونے‘ کی شہادت ڈھونڈتے تھے
کس طرف جائیں، کہاں ڈھونڈیں
کوئی مفہوم جس کو
ان کے خالق نے کسی ’آورد ‘ کے لمحے میں شاید
اپنے شعروں میں سمو کر
ان کی نا بینائی کے پردے کے پیچھے رکھ دیا تھا
لوٹ کر خالق سے اپنے کیسے پوچھیں
اے خدائے لفظ و معنی
تو نے ہم کو زندگی بخشی ہے، لیکن
ظلم کیسا تو نے اس کاغذ کے صفحے پر کیا ہے
رمز و تشبیہ و علامت
حمزہ و زیر و زبر
اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، پر
معنی و مفہوم کی بینائی۔۔
(جس پر اس قدر نازاں ہے تیری خود نگاہی)
واژگوں ژولیدگی، ریزہ خیالی میں کہیں گم ہو گئی ہے
کیسے اتنے فخر سے کہتے ہو غالب
( لفظ جن کی چشم بینا بجھ چکی ہے) پوچھتے ہیں
’’قافیہ بندی مرا شیوہ نہیں ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر کا آزاد ترجمہ یہ ہے: اے غالب، قافیہ بندی میرا شیوہ کبھی نہیں رہا، تو بھی آج کی رات میں کاغذ کے صفحے پر کیا ظلم روا رکھ رہا ہوں

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply