تاریخ کا اِک باب ہوں،غرقاب ہوں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنی جِلا وطنی کے نام اِک نظم

(پنجاب کے پانچ دریاؤں کے نام)
۔۔۔۔۔۔
اس جگہ ڈوبا تھا میں۔۔
ہاں، تین چوتھائی صدی پہلے یہیں ڈوبا تھا میں
مضطرب، شوریدہ سر لہروں کے نیچے آنکھیں کھولے
ایک ٹک تکتا ہوا میں آج بھی اس آسماں کو دیکھتا
پہچانتا ہوں
جس میں بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا
ایک لمحے کے لیے سائے کی چھتری تانتا
اور ترس کھا کرایک دو بوندیں گراتا
بے نیازی سے گذر جاتا ہے
جیسے جانتا ہو
زیر ِ سطح ِ آب کوئی غرق ہو ، تودھوپ اس کو کیا کہے گی؟

غور سے دیکھے کوئی اڑتا ہو ا آوارہ طائر
تواسے شاید مرا چہرہ
(ذرا سا دھندلا، گیلا، مگر)
لہروں کے آبی چوکھٹے سے جھانکتا
ایسے نظر آئے گا، جیسے
روپ نے بہروپ کا چولا بدل کر
زیر ِ سطح ِ آب خود کو پا لیا ہو

کون سا دریا ہے جس میں ڈوب کر میں جی رہا ہوں؟

اغلباً ستلج؟
تپسّوی بیاسؔ کا ہم نام، بیاسا؟
عاشقوں کی آبجو، راوی؟
چنھاں ؟جو سوہنیوں کی ’آبگاہ‘ ہے
یا پھر بھٹکتا
ٹھوکریں کھاتا ہوا، کشمیر کا فرزند جہلم؟
کوئی بھی ہو
آریوں کے ’’پنجند‘‘ اور آج کے’’ پنجاب‘‘ کی دھرتی کو دھوتے
پانچ پانڈو بھائیوں سے ایک تو ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھ کو مت ڈھونڈو کہ میں
تاریخ کا اک باب ہوں
جو سات ساگر پار امریکا میں زیرآب ہے
غرقاب ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply