تھپڑ۔۔عنبر عابر

چٹاخ کی آواز سنائی دی اور چیک پوسٹ پر موجود لمبی قطار کے سرے پر کھڑے ادھیڑ عمر شخص کا دایاں گال سرخ ہوتا گیا۔
تھپڑ سے پڑنے والا سرخ رنگ سمندر کا سا سینہ رکھتا ہے، اس میں بیک وقت خفت، کمتری کا احساس اور غصے کا عنصر شامل ہوتا ہے۔مشاہدے سے معلوم پڑتا ہے کہ اگر تھپڑ کے بعد نگاہیں جھک جائیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ تھپڑ کھانے والا یا تو واقعتاً مجرم ہے(اگرچہ موجودہ وقت میں وردی پوشوں کے سامنے ہر فرد پر طاری بلاوجہ کا احساسِ جرم اور جھکی نگاہوں نے اس تجزیے کو مشکوک بنا دیا ہے) یا انتہائی کمزور حیثیت کا حامل ہے اور وہ موجودہ وقت میں یا مستقبل میں کسی قسم کے احتجاج یا انتقام کا ارادہ نہیں رکھتا۔دراصل نظریں جھکا کر وہ یہ باور کراتا ہے کہ میں تھپڑ کھانے کے باوجود بھی وفادار اور باادب ہوں۔ایسے شخص سے یقینی توقع ہے کہ وہ اس تھپڑ کو بھول جانے میں ہی اپنی بہتری سمجھے گا۔یہاں بھی بعینہٖ یہی معاملہ ہوا، نگاہیں جھک گئیں، ہاتھ تھوڑی دیر تک رخسار پر پڑا رہا اور پھر بڑی آہستگی سے اپنے فطری مقام پر لوٹ گیا۔

چیک پوسٹ پر کھڑے اس ادھیڑ عمر شخص کو تھپڑ سے زیادہ چند ہاتھ دوری پر موجود اپنے دس سالہ بیٹے کی فکر تھی۔اگرچہ ذاتی طور پر وہ اتنا باحوصلہ تھا کہ جہاں اس کا بیٹا موجود نہ ہو وہاں وہ ایسے دس تھپڑ سہنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا، یہاں تھپڑ پر فکرمند ہونا بنتا تھا۔

دس سالہ بیٹے کی آنکھوں میں حیرت تھی، خوف تھا اور شکستہ اعتماد تھا۔بیٹے کیلئے اس کا یہ تھپڑ کھانے والا باپ ہی کُل دنیا کی حیثیت رکھتا تھا۔وہ اس کی نظروں میں ناقابل تسخیر و ناقابل شکست تھا اور اپنے ناقص شعور کے باوجود وہ یہ جان گیا تھا کہ اس کا باپ اس کے ہر مسٔلے کو چٹکی بجا کر حل کرنے پر قادر ہے۔لیکن یہ تھپڑ؟ باپ کو پڑنے والا تھپڑ بھی تو بیٹے کیلئے مسٔلہ ہوتا ہے(کیونکہ یہ سکول کی کتاب میں درج کسی مشکل سوال کی طرح ناقابل فہم ہوتا ہے) اور فی الوقت باپ کی جھکی نگاہیں اور کمزور لہجہ یہ بتا رہا ہے کہ شاید وہ اس مسٔلے کو حل کرنے پر قادر نہیں ہے۔یہاں سے ایک اہم سوال پیدا ہوتا تھا۔وہ یہ کہ دنیا میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن پر میرا باپ قادر نہیں ہے۔یہ خوفناک سوال تحفظ کے اس احساس کو پارہ پارہ کر رہا تھا جو بیٹا اپنے باپ سے پاتا تھا۔

دوسری طرف باپ ڈر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ چٹاخ کی یہ آواز معمولی نہیں ہے بلکہ یہ آواز اس کے بیٹے کے اندر بہت کچھ چکنا چور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس کا بیٹا اس سے مختلف سوالات پوچھتا تھا، پہاڑوں کے متعلق، پانی کے متعلق،زمین و آسمان کے متعلق۔ وہ کبھی لاجواب نہیں ہوا اور ہمیشہ اپنے بیٹے کی پیچیدہ گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔ویسے بھی بچوں کی پیچیدہ گھتیاں سلجھانا یا سلجھانے کا تاثر پیدا کرنا آسان ہوتا ہے لیکن یہ تھپڑ؟ وہ کیونکر اس تھپڑ کا جواب دے سکے گا؟ کیا کوئی ایسا بہانہ یا تاویل موجود ہے جو چٹاخ کی یہ آواز ایک معمولی آواز میں بدل کر بچے کے دماغ سے کھرچ کر نکال دے؟

“تفتیش مکمل ہونے کے بعد جب میں یہاں سے نکلوں گا تو اپنے بیٹے کو ہنس کر کہونگا۔تم کیوں پریشان ہورہے ہو، دراصل وہ فوجی میرا جگری دوست ہے۔کیا تم اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ چھیڑ خانی نہیں کرتے؟”

باپ نے خشک ہوتے حلق کے ساتھ سوچا، وہ اپنے دماغ میں پنپنے والی تلخی اپنی زبان پر محسوس کر رہا تھا۔بالآخر تفتیش مکمل ہوئی اور باپ نے جلدی سے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا۔اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولا۔” یہ میرے دوست ہیں” یہ سن کر بچہ خاموش رہا اور باپ سمجھ گیا کہ اس کی اداکاری مکمل نہیں تھی۔بچہ اتنا بھی چھوٹا نہیں جو سچی اور جھوٹی مسکراہٹ کے بیچ فرق نہ کر سکے۔

ابھی وہ چیک پوسٹ سے نکلا بھی نہیں تھا کہ ایک دوسرا فوجی اپنے آفیسر کی آنکھ بچا کر تیز تیز چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر ایک کونے میں لے جا کر کھڑا کر دیا۔باپ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اس فوجی کو دیکھ رہا تھا کہ ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔اس فوجی نے یکدم ایڑی بجائی تھی اور ہاتھ ماتھے کی طرف لے جا کر اسے سلیوٹ مار دیا تھا۔

اگرچہ سلیوٹ اور تھپڑ میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، بس ہتھیلی کی ہیئت اور زاویے میں معمولی تبدیلی ایک تھپڑ کو سلیوٹ بنا دیتی ہے لیکن جہاں اکثر تھپڑ پڑتے ہوں وہاں سے سلیوٹ ملنا یقیناً حیرت انگیز ہوتا ہے۔باپ جس قدر حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اس سے زیادہ حیرت بچے کی آنکھوں میں موجزن تھیں اور سلیوٹ مارنے والا زیرک فوجی کھنکھیوں سے بچے کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا۔
سلیوٹ کرنے کے بعد فوجی نے جھک کر باپ کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور بولا۔
“سر! آپ کو ہمیشہ یہاں ویلکم کہا جائیگا”

بادی النظر میں اس دوسرے فوجی کا یہ فعل زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ پہلے تھپڑ مارو اور پھر سلیوٹ کرو لیکن بچوں سے زخموں کو چھپانے کیلئے ان پر نمک برداشت کرنا گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا، وہ بھی ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک عام فوجی اور باپ یکساں مجبور ہو۔باپ بھی اس سودے پر راضی محسوس ہو رہا تھا۔وہ تھوڑی دیر تک اس فوجی کو دیکھتا رہا جس کے چہرے پر مکمل سنجیدگی طاری تھی اور جو ایک بچے کی ذات میں رونما والی نازک تبدیلیوں اور بیٹے کے سامنے تھپڑ کھانے والے باپ کی پریشانی اچھی طرح سمجھتا تھا، پھر اس نے ایک طویل سانس لیا، اثبات میں سر ہلایا، فوجی کا کاندھا تھپتھپایا، اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر چیک پوسٹ سے نکلنے لگا۔

تھوڑی دور جا کر باپ نے اپنے بیٹے کی گردن میں بانہہ حمائل کیا اور گرمجوشی سے بولا۔
“میں نے کہا تھا نا کہ یہ میرے دوست ہیں”

Advertisements
julia rana solicitors london

بچہ کھل اٹھا تھا کیونکہ اس کا باپ ایک بار پھر ناقابل تسخیر بن گیا تھا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply