وہ ایک ہی لڑکی تھی۔۔اقبال توروالی

وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔۔

وہ جاگتے لمحوں کی انگڑائی میں قُرب کے خیالستان طغیانِ ذوق میں نگارستان حُسن جیسی پُر کشش تھی۔
درودیوار پر دمادم رقص کرتی چاندنی اور ماورائے بیان پُرخمار و پُر مسرت محوں میں ہونٹوں سے ٹپکتے نرم بوسوں جیسی جاذبِ نظر تھی۔
اُفق با اُفق پھیلے شفق شمائل اور بہار شمیم لمحات کی سی خوبصورت تھی۔

وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔۔۔
اُس کے رُخ گلگوں دہکتے لبوں، مرمریں پیکر بازوؤں، شفاف تن اور اُس کی شخصیت نے اُسے کمال قدرت کی صناعی بنا دیا تھا۔
اُس کی سحرآفرین نگاہوں کی گھنیر پُراسرار پلکوں میں حجابِ عصمت اور عِفت تھی۔ اُس کے ریشم سے ہونٹ کُھلنے پر چہار اطراف طلسماتی جھنکار سی آواز سُنائی دیتی تھی۔

وہ عُمر کے اُس حصے میں تھی جہاں رُخصت ہوتی طفلی اور اُٹھتی شوخ جوانی گلے مِلتی ہیں۔ کُفر سامان شباب اُس پر اپنا رنگ جما رہا تھا اور بلوغت کی دہلیز پر وہ قدم رکھ رہی تھی۔ نسوانیت کی اولین کِرنیں اُس کی شخصیت کے  الاؤ کو روشن کر رہی تھیں۔

وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔۔۔
وہ اتنی خوبصورت تھی کہ اُسے دیکھنے کہ بعد منہ نہیں موڑا جا سکتا تھا۔ اُس کی آنکھیں اتنی بڑی اور پُرکشش تھیں کہ جس کی طرف دیکھتی تھی لگتا تھا اُس چیز  کو تسخیر کر لے  گی۔

اُس کے حسن کے کہر سے آسمان پر ستارے کالے ہولناک سایوں کی سی تاریکیاں پھیلاتے بھاگتے چلے جاتے تھے۔ اُس کی موجودگی میں چاندنی ایسے مدھم ہو جاتی تھی جیسے گہن لگا کرب کا چاند سِسک رہا ہوتا ہے۔

وہ ہر شے پر اپنے کہر کے آنچلوں سے نمودار ہو کر ارادوں کو سلب کر لینے والی سحر آفریں قوتوں، خونخوار وحشی کِرنوں میں شکست کی لہروں کا ارتعاش کھڑا کرتے موت کے رقصِ لازوال اور زیست کی منزلوں کو َخون آلود کرتی ولولہ انگیز بے مہابی کی طرح حملہ آور ہوتی تھی۔

وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔۔۔
جب ہوا چلتی تھی پتیاں خشک ہوتی تھیں اور کھلتی تھیں یعنی وہ بات کر رہی ہو۔ اور سماں رک جاتا تھا، اُِن لبوں کی حرکت دیکھنے کو، جشنِ بہاراں میں اعلانِ رنگِ لبانانِ افشاں ہوتا تھا۔ مہک ہر سمت چھاتی تھی اور یکدم سے جب وہ ہونٹ ہلنا بند ہوتے تھے، منظر جنگلوں کو بےبرگ کرے آتشی اولوں کے آنگاروں، کالی خاموشیوں میں موت کی دستک دیتی، تیز ہواؤں کے جھکڑوں، تپتے ویران صحرا میں صدیوں کے شعلے اُٹھائے آتشی طوفانوں، شکستگی اور انہدام طاری کرتے آگ و خون کے دہکتے پیغام اور جسموں کو امن کی تاثیر سے عاری کرتے لامتناہی اور غیر مانوس قوتوں کی طرح بے رنگ اور پھیکا پڑ جاتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔۔۔
وہ سب کی تھی۔ پر ہر کسی کی نہیں تھی۔ اُسے سب نے پایا، مگر اُسے اپنا کوئی نہ کہہ سکا۔
اُسے قدرت نے جسمانی کشش اور شباب کی دل آویزیوں سے مالامال کر رکھا تھا۔
وہ ہوا کی طرح تھی کہ محسوس ہو اور ہاتھ نہ آئے۔
بادل کی طرح کہ  دکھائی دے پکڑائی نہ  دے۔
پہاڑوں کی صدا کی طرح کہ  سُنائی دے، دکھائی نہ  دے۔
وہ رسائی اور نارسائی کی گونج تھی۔
اُمنگوں اور ترنگوں سے سرشار۔
اس پر بھی دونوں میں پیمانِ وفا۔
کہ جو جیت جائے دوسرا پسپا ہو جائے۔
عجب من موجی لڑکی تھی۔
جوانی کی ترنگ، کہ درخت سے لپٹنے کو جی چاہے مگر وہ ایسی نہ تھی۔ وہ تو سالار تھی، اُس قافلے کی جو فطرت اور قدرت دونوں کی طرف رواں دواں تھا۔
ہاں وہ ایک ہی لڑکی تھی اور وہ لڑکی بھی کمال تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply