شاعری    ( صفحہ نمبر 9 )

غالب فہمی سیریز(3)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شور ش ِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں دل ِ محیط ِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند اہل ِ فارس کی طرح، اے بندہ پرور، آپ بھی کچھ عجب اغلاط کے وہم و←  مزید پڑھیے

غالب فہمی سیریز(2)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم اُلٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند آپ اگر کہتے , بصد نخوت و طرہ بازی الٹے پھر آئے، در میکدہ گر وا←  مزید پڑھیے

لاہور ۔۔اے لاہور/ڈاکٹر صابرہ شاہین

لاہور تری ان سڑکوں پر اک خوشبو عشق ۔۔۔کی آتی ہے۔۔۔ پھر شام کے کہرے میں لپٹی اک یاد مسلسل روتی ہے تب۔۔۔۔کاسنی دھند آترتی ہے چپ چاپ سی۔۔۔کالی آنکھوں میں۔۔۔۔ اسلام پورے کی سڑک پہ جا۔۔۔۔ ارمان مچلنے لگتے←  مزید پڑھیے

راستہ اور میں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

راستہ کہتا ہے ، مجھ سے بچ نہیں سکتے تمہارے پاؤں اور میں لازم و ملزوم ہیں زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں۔ اور میں کہتا ہوں میرے پاؤں چلتے ہیں کہ آگے منزل ِ مقصود میری منتظر ہے! راستہ ہنس←  مزید پڑھیے

​گِنی چُنی نظمیں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بحر خفیف میں ’’رن آن لائنز‘‘ میں اردو میں پہلا تجربہ مالا دی دامور​ (Paris 1984) آپ کے شہر میں سُنا تھا، بہت پھول ہوتے ہیں، پھولوں کی مانند تازہ مسکان، ادھ کھِلے غنچوں کا تبسم ہے ۔۔۔ چاند راتوں←  مزید پڑھیے

سبلیمیشن(Sublimation)۔۔۔جنید جاذب

دریا، لہریں بہاؤ، اٹھانیں تصور، اُڑانیں پاتال، اونچائیاں ریگ، چٹانیں وسعتیں، حدود اندھیار، نور طاقت، بے نوائیاں جبر اورسُپردگِیاں اتصال کے اتھاہ گہرے سمندر میں ایک ہوئے! انیک ہوئے! دریا، صحرا اور روانی !←  مزید پڑھیے

بُھولا بسرا دیس انگلستان۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بُھولا بِسرا دیس انگلستان جیسے اک کباڑی کی دکاں ہو بوڑھے، دیرینہ، دریدہ چیتھڑوں سے مرد و زن بکھرے ہوئے کٹھ پتلیوں سے بانس کی ٹانگوں پہ چلتے مسخرے سرکس کے جیسے منہ بسورے ہنس رہے ہوں←  مزید پڑھیے

گزرتے وقت کے بارے میں نظمیں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

آج کا دن اور کل جو گزر گیا۔۔یہ دونوں میرے شانوں پر بیٹھے ہیں کل کا دن بائیں کندھے پر جم کر بیٹھا میرے بائیں کان کی نازک لو کو پکڑے چیخ چیخ کر یہ اعلان کیے جاتا ہے ’’میں←  مزید پڑھیے

دولت بہ غلط نبود از سعی پشیماں شو / کافر نہ توانی شد، ناچار مسلماں شو۔۔۔مرزا غالب سے خطاب از ستیہ پال آنند

ستیہ پال آنند: تو کیا ہے؟ مسلماں ہے یا کافر ِ زنـاری؟  کچھ بھی ہے، سمجھ خود کو اک معتقد و مومن  مخدوم و مکرم ہو، ماجد ہو، مقدس ہو ممت اذ و منور ہو، برتر ہو زمانے سے ہاں، دولت ِ لافنی ہے، رتبہ ء شہ بالا←  مزید پڑھیے

​قصہ طوطا مَینا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

1-​حیوان ِ ناطق اچھا، ​طوطے ، یہ کہو یہ لوگ اکثر جھوٹ ہی کیوں بولتے ہیں؟ جھوٹ تو بولیں گے ۔۔۔ مولا نے زباں جو دی ہے ان کو دیکھ، مَینا جانور سچےہیں کیونکہ بے زباں ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2-نسل کش←  مزید پڑھیے

آئینہ در آئینہ سے یہ اقتباس۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

آئینہ در آئینہ سے یہ اقتباس، صرف ان دوستوں کے لیے ہے، جو فن ِ شعر کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے خواہاں ہیں ۔ سوال :(علامہ ضیائی) شاعری زندگی اور موت کی بند عمارت میں دروازے کی درزوں میں←  مزید پڑھیے

ہمزاد۔۔فیصل فارانی

کسی کارِ زیاں میں وہ بہت مصروف رہتا ہے کبھی گر دل میں یہ آئے کہ اُس کے پاس جا بیٹھیں کہیں اُس سے نہاں خانوں میں جو گُم ہیں سبھی باتیں کسی ویراں جزیرے کی (مِرے اپنے جزیرے کی←  مزید پڑھیے

ان کتابوں کو جلا دیا جائے۔۔عدیل رضا عابدی

مگر کیوں ؟ ان میں سچ چھپا ہے اور ان کتابوں میں تمہارے مسائل کا حل ہے!←  مزید پڑھیے

میرے جیون کا اکتوبر۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں باہر سارے پیڑ دریدہ، پیلے، یرقانی پتّوں کے مَٹ مَیلے ملبوس میں لپٹے، نصف برہنہ باد ِ خزاں سے الجھ رہے←  مزید پڑھیے

سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 4۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

ادب خاص طور پہ سرائیکی ادب میں دلچسپی رکھنے والے احباب کی خدمت میں سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کی چوتھی قسط دس قدیم و جدید سرائیکی اشعار کے ساتھ بمع اردو ترجمہ حاضر خدمت ہے←  مزید پڑھیے

سنو سائیں۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

سنو  سائیں ترے لہجے کا مصنوعی یہ بھاری پن وفا کی راگنی جاناں لگاوٹ کے سبھی پلٹے یہ آروئی  و امروہی مگر، ان تیز سانسوں لچکتی ڈال سے کومل بدن پہ ہونٹ کی سرگم یہ رعنائی وفا کے سارے وعدوں←  مزید پڑھیے

ضرورت ہی نہیں میری….ڈاکٹر صابرہ شاہین

“ضرورت ہی نہیں میری”   محبت ڈھونڈنے نکلی تو جنگل میں۔۔۔۔۔ کئی وحشی درندے لوبھ کے مارے جناور راہ  کو روکے ہوئے اپنے بدن کے خفتہ حصوں کو کھجاتے۔ گھورتے جاتے تھے صدیوں سے۔۔۔۔میری جانب٠٠٠٠ کئی قرنوں سے میں اپنے←  مزید پڑھیے

تھوکنا چاہتا ہوں(ایک غصیلی نظم)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو مجھے دیکھنے دو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو←  مزید پڑھیے

اے مَری چادر۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

اے مری چادر مِری شرم و حیا کی پاسباں سُندر سہیلی،سُن ذرا تیرے ان چھیدوں کے رَستے میرے سارے کچے خوابوں،کے سجل آنسو ٹپک کر،بہہ گئے کچھ کہہ گئے جسم کے کورے دئیے کی سب لوئیں بُجھ بُجھ کے ہی←  مزید پڑھیے

غالب کے شعر پر استوار نظم۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“ریڈکتیو ایڈ ابسرڈم ٭کی تکنیک میں غالب کے دس فارسی اشعار کو میں نے نظموں کا جامہ پہنایا تھا (کہ برہنہ بدن یہ اشعار فارسی میں بدصورت دکھائی دیتے تھے) ان میں سے ایک شعر پر استوار نظم یہ ہے۔←  مزید پڑھیے