آئینہ در آئینہ سے یہ اقتباس۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

آئینہ در آئینہ سے یہ اقتباس، صرف ان دوستوں کے لیے ہے، جو فن ِ شعر کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے خواہاں ہیں ۔
سوال :(علامہ ضیائی)
شاعری زندگی اور موت کی بند عمارت میں دروازے کی درزوں میں سے امکانیات کا سود وزیاں دیکھنے سے عبارت ہے ۔ یہ کھلم کھلا آسمانی مشاہدہ تو نہ ہوا ؟ لیکن تجسس اور راز داری کا فائدہ اس کو ہی ملتا ہے۔
جواب (ستیہ پال آنند)
سوال کا پہلا جملہ ایک خوبصورت تلمیح ہے۔ بند عمارت، دروازے کی درزیں، کے بصری منظر نامے کے بعد، شاعری کا ایک بھولی بھالی لڑکی کی طرح ان درازوں میں سے امکانیات کا سود وزیاں دیکھنے کا اشارہ۔استعارہ ، استنباط اور تلطیف عبارت euphemism کا حسین سنگم۔ لیکن سوال کے طور پر میرے لیے یہ سریع الفہم ہے، الم نشرح ہے ، یسرنا ہے۔ میں اس کا مطلب پا گیا ہوں۔
کھلم کھلا آسمانی مشاہدہ تو سائنس کا کام ہے۔ کیا امکانات کا سود و زیاں نبیوں نے (بشمولیت حضور ﷺ) نے اس طرح دیکھا تھا؟ نہیں، نہیں اور نہیں۔ان کے لیے تو ان کے دل میں آسمانی مشاہدات کھلم کھلا موجودات کی طرح حاضر تھے ۔۔۔ شاعری کے بارے میں پہلے بہت سی باتیں کہی جا چکی ہیں اس انٹرویو میں۔ شاعری جزویست از پیغمبری میں جو رمز نہاں ہے، اور جس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے، وہ یہ ہے ، کہ شاعری per se یعنی خودکفیل ’پیغمبری‘ نہیں ہے، اس کا جزو ہے۔ صرف نجماً نجماً اس سے ملتی ہے۔ ایک ڈال ہے، ایک پات ہے ، اُس شجر کا جو پیغمبری ہے۔ یہ اس درخت کا مرکزہ نہیں ہے۔

اب اگر یہ طے ہو گیا تو باقی کا کام میں باآسانی کر سکتا ہوں۔لیجیے، سقراط سے شروع کرتے ہیں اور Dylan Thomas تک پہنچ کر ختم کریں گے۔ سقراط لکھتا ہے۔
Not by wisdom do they {poets} make what they compose, but by a gift of nature and inspiration similar to that of the diviners and the oracles. (Socrates in Plato’s Apology (4th c. B.C. ) tr. Lane Cooper.

Advertisements
julia rana solicitors

میں بذات خود رومانی شاعری کو اس حد تک پسند نہیں کرتا ، جس حد تک انگریزی کی جدید شاعری کو چاہتا ہوں، لیکن رومانی شعرا میں شیلےؔ اس لیے میرا پسندیدہ ہے کہ ورڈزورتھؔ اور کالریجؔ کی نسبت شاعری کے بارے میں اس کے خیالات میں الجھاؤ بھی بہت کم ہے اور ان خیالات میں ایک مقّرر سا تخاطب کا لہجہ بھی نہیں ہے۔ A Defence of Poetry میں مشمولہ یہ اقتباسات پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔
Poetry lifts the veil from the hidden beauty of the world and makes familiar objects be as if they were not familiar. A Defense of Poetry (1821)
A poet is a nightingale, who sits in darkness and sings to cheer its own solitude with sweet sounds. A Defence of Poetry (1821)
Poets are the hierophants of an un-apprehended inspiration, the mirrors of the gigantic shadows that futurity. casts upon the present. A Defence of Poetry (1821)
کارل سینڈبرگ Carl Sandburg لکھتا ہے
Poetry is the opening and closing of a door, leaving people who look through to guess what is seen during a moment: as an eternity.
“Tentative(First Model) Definition of Poetry” Complete poems. (1950)
ولیم سٹیونز William Stevens نے صر ف ساٹھ برس پہلے لکھا تھا:The poet is the priest of the invisible .
“Adagia,” Opus Posthumous (1957)
ڈِلن تھامسؔ نے کچھ باتیں شاعری کے الوحی فن کے بارے میں اور دونوں دنیاؤں، عالمِ لاہوت اور عالمِ لاسوت کے بارے میں کہی ہیں، جو مجھے اور کسی دانشور کے ہاں اس خوبصورتی سے لکھی ہوئی نہیں مل سکیں۔
A good poem is a contribution to reality of the other world bequeathed to this world. And once it is the given, this world is never the same. A good poem helps to change the shape and significance of the universe, helps to extend everyone’s knowledge of himself and the world around him.
(On Poetry, Quite Early One Morning (1960)
ایک اور جگہ ڈلن تھامس لکھتا ہے۔
The best poem is that whose worked-upon unmagical passages come closest, in texture and intensity to those moments of magical accident.
(On Poetry, Quite Early One Morning (1960

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply