ہمزاد۔۔فیصل فارانی

کسی کارِ زیاں میں وہ
بہت مصروف رہتا ہے
کبھی گر دل میں یہ آئے
کہ اُس کے پاس جا بیٹھیں
کہیں اُس سے
نہاں خانوں میں جو گُم ہیں
سبھی باتیں
کسی ویراں جزیرے کی
(مِرے اپنے جزیرے کی )
جسے چاروں طرف سے پانیوں نے گھیر رکھا ہے
جہاں منہ زور سی موجیں
مِرے بے نام ساحل پر
کئی بے چین لہروں کو اُٹھا کر رقص کرتی ہیں
مجھے بے چین کرتی ہیں
تو دل گھبرا کے کہتا ہے
چلو چل کر مِلیں اُس سے
کہیں اُس سے یہ سب باتیں
(مِری باتیں)
جنہیں میں ٹھیک سے خود کو کبھی سمجھا نہیں پایا
کسی سے کہہ نہیں پایا
مگر ہمزاد میرا اُس گھڑی مِل ہی نہیں پاتا
کہ وہ اپنے جزیرے کے
کسی گُمنام ساحل پر
مجھے ہی ڈھونڈتا پھرتا ازل سے گمشدہ سا ہے
اِسی کارِ زیاں میں وہ بہت مصروف رہتا ہے!

Facebook Comments

فیصل فارانی
تمام عُمر گنوا کر تلاش میں اپنی نشان پایا ہے اندر کہِیں خرابوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply