غالب فہمی سیریز(2)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم
اُلٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
آپ اگر کہتے , بصد نخوت و طرہ بازی
الٹے پھر آئے، در میکدہ گر وا نہ ہوا
یا کہ بتخانہ کا ہی ذکر کیا ہوتا اگر
پھر تو یہ شعر یقیناً ہی تھا اک شہ پارہ
پر ’’در ِ کعبہ‘‘ کا مذکور تو بے ادبی ہے
ایسی تضحیک تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی
چشم ِ کم سے اگر دیکھے گا کوئی کعبہ کو
عفو و غفران کا وہ اہل نہیں ہو سکتا۔
اس لیے میں ا گربے دین کہوں، استاذی
آپ کے واسطے یہ الزام غلط ہوگا کیاَ؟

مرزا غالب
کوئی کچھ بھی کہے، یہ بات پر کہنے کی نہیں
تم تو یہ شعر سمجھ ہی نہیں پائے آنند
اور پہنچے بھی تو اس طے شدہ مفروضہ تک
یہ تو ادعائے فضیلت ہے تمہاری ، سمجھو
تنگ نظری ہے ، تعصب ہے، سخن سازی ہے
اک کنایہ ہے یہاں کعبہ کا مذکور، میاں
استعارہ ہے یہ، تلمیح ہے، اک صنعت ہے
اس کی تشریح ہے وہ جگہ جو افضل ہوبہت
اکملیت میں نہ ہو جس کا کوئی بھی ثانی
بات اتنی سی تھی جو میں نے کہی تھی آنندؔ
اور تم اس کو الٹ پھیر میں کیا کیا سمجھے

ستیہ پال آنند
ہو سکے تو ذر ا اور بھی تشریح کر یں

مر زا غالب
بندگی ایک فریضہ ہے ،یہ سب جانتے ہیں
پر ضروری تو نہیں اس میں انا کی تدفین
اہم ہے اپنے تکبر سے رہائی، لیکن
منہ چھپائے ہوئے رہنا تو ہےذلت ، آنند ؔ
کعبہ ہو، کوئی کلیسا ہو کہ ہو بتخانہ
ہم تو سر اونچا کیے جائیں گے اٹھلاتے ہوئے
الٹے پھر آئیں گے، دروازہ اگر وا نہ ہوا

ستیہ پال آنند
بہمہ پاس ِ ادب ، عجز و کرم فرمائی
ہر مسلماں کا فریضہ ہے یہ کعبہ کے لیے
آپ کے شعر کی تصویر تکبر سے ، مگر
پیش کرتی ہے فقط آپ کی مرزائی، حضور
یہ تعلی ہے کہ جو موزوں نہیں کعبہ کے لیے

مر زا غالب
تم غلط ماپ رہے ہو مجھے، اے ستیہ پال

Advertisements
julia rana solicitors

ستیہ پال آنند
آپ ذی شان ہیں میرے لیے، مہتم، بالشان
میں تو اک صاف گو انسان ہوں ، روکھا پھیکا
غیر مسلم ہوں مگر پست، بد تہذیب نہیں
مجھ کو اس عظمت و حشمت کا ہے اندازہ
جو کبیرہ ہے، اتم، بیش بہا، اعلیٰ ترین
آپ کا اس کے لیے ایسا اشارہ، استاد
ہے تو لاحول وِلا قوۃ الّا بِلاّ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply