سنو سائیں۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

سنو  سائیں

ترے لہجے کا مصنوعی

یہ بھاری پن

وفا کی راگنی جاناں

لگاوٹ کے سبھی پلٹے

یہ آروئی  و امروہی

مگر، ان تیز سانسوں

لچکتی ڈال سے کومل

بدن پہ

ہونٹ کی سرگم

یہ رعنائی

وفا کے سارے

وعدوں کی ترے جاناں

بلمنپت  لےَ

مچلتی انگلیوں کے

لمس کی ، دیکھو

 

بہت باسی ، لگی مجھ کو

نجانے کب ، کہاں

کس ، کس کے ورتارے

میں  آئی ہوں

یہ سب مایا

سنو  سائیں!

مجھے اب ، اس

محبت کی فصیلوں ، کو گرانا ہے

چھڑا کر ہاتھ

اب اپنا

نئےرستوں کو، جانا ہے

وہ رستے کہ جہاں بس !

نخلِ تازہ کی

بہاریں ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

(تازہ شعری مجموعے ”مرکزہ” سے انتخاب)

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply