غالب فہمی سیریز(3)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شور ش ِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں
دل ِ محیط ِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے
۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
اہل ِ فارس کی طرح، اے بندہ پرور، آپ بھی
کچھ عجب اغلاط کے وہم و گماں میں پھنس گئے
بحر کوئی بھی نہیں اس نام کا، بندہ نواز
ـ’’دل محیط ِ گریہ ـ ‘‘ کا مطلب ادا ہوتا نہیں
یہ ہنسی کی بات ہے، پر کیا کہیں اس ضمن میں
اہل ِ فارس کا بہت کمزور تھا جغرافیہ !ـ

مرزا غالب
اتنا بے بہرہ نہ سمجھو، جانتا ہوں ستیہ پال
ہے غلط العام لیکن ما بقا ہے اسم یہ
اور پھر ہے فارسی کی دین، تو منظور ہے

ستیہ پال آنند
پھر تو باقی سیدھی سادی بات ہے، بندہ نواز
دل محیط ِ گریہ‘‘ یعنی رونے میں مصروف ہے
اور لبوں پر مسکراہٹ دیدہ ور، رخشندہ ہے
دل کے، لیکن، ر ونے دھونے کا کوئی قائل نہیں۔
میرے سب احباب مجھ کو خوش سمجھتے ہیں، تو کیوں؟

مرزا غالب
ہاں، یہی مطلب تھا، ستیہ پال، لیکن تم نے تو
یوں سبک سر کر دیا ہے معنی و مفہوم کو
جیسے معمولی ہو، ادنیٰ ، ہلکا پھلکا سا خیال
یوں تہی مایہ، سبک سر تو نہیں تھا میرا شعر

Advertisements
julia rana solicitors london

ستیہ پال انند
بندہ پرور، میں نے ہلکی سی چڑ ھا رکھی ہے آج
ایسی حالت میں کہوں جو، نصف شاید جھوٹ ہو
(اور درد ِ تہہ میں شاید کچھ ذرا سا سچ بھی ہو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ
ـ” آشنا” کا لفظ”محیط” کے مناسبات میں سے ہے۔ آشنا پیراک کو کہتے ہیں اور ’’محیط‘‘ کو فارسی والے دریا کے معنی پر باندھا کرتے ہیں اصلی معنی اس لفظ کے ’گھیرنے والے‘ کے ہیں۔ اورسمندر کو بھی بحر محیط اس وجہ سے کہتے ہیں کہ براعظموں کو گھیرے ہوئے ہے۔ مگر تمام فارسی والوں نے دھوکا کھایا ۔ وہ یہ سمجھے کہ ’’ محیط ‘‘نام ہے جیسے بحر قلزم نام ہے ۔ اوراضافت ِ بیانیہ ہے اور اس طرح وہ سمجھے کہ بحر محیط میں بھی اضافت ِ توصیفی ہے جو قید واقع ہوئی ہے بحر کی ۔۔ یہاں لفظ ’’ بحر‘‘ کو ترک کر کے لفظ ’’محیط ‘‘ پر اکتفا کر لینا درست نہ تھا مگر اس میں مصنف کی تخصیص نہیں ہے۔ جو فارسی والے حقیقت ِالفاظِ عربی سے نا آشنا ہیں ـ وہ بے تکلف دریائے محیط کو دریائے شور کے معنی پر باندھتے ہیں اور اُن کا (یعنی فارسی والوں کا) یوں باندھنا ( یعنی غلط باندھنا ) بھی غالب کے لیے سند ہے۔
نظم طباطبائی ۔ شرح دیوان اردوئے غالب۔ صفحہ ۳۱۷

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply