افسانہ    ( صفحہ نمبر 14 )

آگ کا دریا۔۔دیپک بدکی

میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ تجربے کی کمی ہونے کے سبب فائیلوں پر فیصلے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ فائلیں تو نپٹانی تھیں۔ آخر تنخواہ کس بات کی لے رہا تھا۔ ماتحتوں پر بھروسہ←  مزید پڑھیے

بہتر کون؟۔۔حبیب شیخ

یہ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟ ایک اونچی دیوار بن رہی ہے، میں ا بھی ادھر ہی سے دیکھ کر آ رہی ہوں۔ دیوار، وہ کیوں؟ وہ تو راستہ روکنے کے لئے بنائی جاتی ہے نقل و حرکت کو←  مزید پڑھیے

گواہوں کی تلاش۔۔دیپک بدکی

میں نے گواہوں کی تلاش میں سارا شہر چھان مارا مگر کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ انھیں عدالت میں جھوٹ نہیں بولنا تھا بلکہ سچائی بیان کرنی تھی، پھر بھی کسی کو میرے ساتھ ہمدردی نہ ہوئی۔←  مزید پڑھیے

موت کا کنواں ۔۔دیپک بدکی

پتا جی نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا تاکہ میں کہیں اِدھر اُدھر نہ چلا جاؤں اور بھیڑ میں گُم ہو جاؤں۔ میرے ساتھ میری ماں اور بڑی بہن بھی تھی جو عمر میں مجھ سے آٹھ سال←  مزید پڑھیے

اب میں وہاں نہیں رہتا۔۔دیپک بدکی

ڈاکیہ تین بار اس ایڈرس پر مجھے ڈھونڈنے گیا تھا لیکن تینوں بار مایوس ہو کر لوٹ آیا۔ اس نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی، بلند آواز میں میرا نام پکارا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ لیا←  مزید پڑھیے

تھری ناٹ تھری(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

8 اکتوبر 1970 میری پیاری۔ حیات کے اس گھور اندھیرے میں، میں تمہیں اور صرف تمہیں ہی سوچ رہا ہوں اور حیران ہوں کہ مقدر ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا ہے۔ اب جبکہ میں خوش گمان تھا کہ مجھے←  مزید پڑھیے

تھری ناٹ تھری(1)۔۔شاہین کمال

تیس سالوں کے بعد میں اپنی سسرال لوٹ آئی تھی۔ جو سچ کہوں تو میں تو اس واپسی کے  حق میں نہیں تھی کہ میں دیار غیر میں اپنے دونوں بیٹوں کے قریب رہنے کی آرزو مند۔ ماں ہونا بھی←  مزید پڑھیے

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

پولیس مجھے تھانے لے جانے پر مُصر اور پرنسپل کا اصرار کہ  معاملہ یہیں  حل ہو جائے۔ وہیں آفس میں مجھے پتہ چلا کہ رشنا قادری کے چچا تھانہ سنٹرل کے ایس پی ہیں۔ جب تھانے دار نے ایس۔ پی←  مزید پڑھیے

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے(1)۔۔شاہین کمال

سو سوری یوسف میری آنکھیں ہی نہیں کھلیں۔ نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولہے کا برنر آن کیا۔ رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو میں نے انڈا ابال کر کھا لیا←  مزید پڑھیے

“مانا”-میرا دوست۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

دوست اور دوستی کی کوئی عمر نہیں ہوتی ۔دوستی ایک قلبی لگاؤ ہے،ایک ذہنی مانوسیت ہے،ایک جیسی ذہنی فریکوئنسی ہے،دوستی بھی ایک رشتہ ہے،ایسا رشتہ جس میں خون کی آمیزش تو نہیں ہوتی لیکن خلوص کی فراوانی ضرور ہوتی ہے۔←  مزید پڑھیے

برمی گاؤں۔۔ڈاکٹر انور نسیم

کبھی کبھی جب انسان ساری دنیا سے الگ تھلگ صرف اپنے آپ سے مخاطب ہوتو یوں لگتا ہے جیسے ہم سب بہت ہی تنہا ہیں،شاید اس لیے کہ ان مخصوص لمحوں میں دنیا بھر کی رونقوں سے دور ہوجانے کا←  مزید پڑھیے

نقش سویدا۔۔شاہین کمال

میں اسکول ڈرائیو کرتے ہوئے روز اس کو چاندنی اسکوائر کے پاس دیکھتی تھی ۔ میں محتاط ڈرائیور ہوں اور ڈرائیونگ کے دوران دائیں بائیں دیکھنے سے حتی الوسع گریز کرتی ہوں پر جانے کیا بات تھی کہ وہاں پہنچتے←  مزید پڑھیے

سوز ِنہاں۔۔شاہین کمال

اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ہم ولیمے میں سو لوگ لائیں  گے؟ جب ہم لوگ بارات میں پچاس لوگ لے کر جا رہے ہیں تو انہیں بھی ولیمے میں پچاس ہی لوگوں کو لانا چاہیے، کہ اسی طرح←  مزید پڑھیے

ادھوری کہانی محبت کی۔۔شاہین کمال

یہ کہانی کراچی یعنی میرے شہر دلبرا کے ایک گنجان محلے کی ہے جہاں نہ صرف گھر سے گھر ملے ہوئے تھے بلکہ دلوں میں بھی دوریاں نہ تھیں۔ سکون کا زمانہ تھا، رات کے آخری پہر بھی اگر گھر←  مزید پڑھیے

کھیلن کو مانگے چاند(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

مجھے بھی شائستہ اور بچوں سے بہت محبت ہے مگر عظیم کا تو لیول ہی الگ تھا۔ وہ مجھ سے کوئی چار پانچ سال چھوٹا ہو گا مگر میں واقعی اس کے جزبہ محبت سے بہت انسپائر تھا۔ ایک آدھ←  مزید پڑھیے

ہزار رنگ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

کبھی کبھار لاڈپیار میں ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔تو اچھا لگتا ہے ، لیکن ہرروز کام پہ جانے سے پہلے جب بھی میں نے عاصم سے خرچہ مانگا ۔۔۔ اس نے پیسے ہاتھ میں پکڑانے کی بجائے خود رکھے ۔کئی بار←  مزید پڑھیے

کھیلن کو مانگے چاند(1)۔۔شاہین کمال

مجتبٰی صاحب میں کینٹین جا رہا ہو ہوں جلدی سے آ جائیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔ ہاں تم پہنچو! میں بس آیا کہ آیا۔ میں نے تیزی سے فائل سمیٹتے ہوئے جواب دیا۔ آج کیا ہے خاصے میں جناب؟←  مزید پڑھیے

مصور(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار بلوچ

ناصر نے اپنی انگلیاں اپنے ہی بالوں میں ڈال کر تیزی سے گھما دیں اور خود ہی بول اٹھا یہ اصل تصویر ہے حقیقی معنوں میں میرا چہرہ جو مکمل طور پر میری زندگی کا عکاس ہے۔ اُس پر اداسی←  مزید پڑھیے

من تحب۔۔طوبیٰ حسن

وہ ایک نہایت خوبصورت دل کی مالک تھی۔ ہم کافی عرصے بعد ساتھ بیٹھ کر پچھلی باتوں پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اسکا اچانک کیا جانے والا سوال مجھ پر بجلی بن کر گرا۔ “کیا کہا؟۔ ” اس نے←  مزید پڑھیے

ہجر کا نم۔۔شاہین کمال

گلستان جوہر تو خود اپنی ذات میں ایک شہر بن گیا ہے، اپارٹمنٹس کا جنگل ۔ کبھی کبھی تو یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ شاید یہی میدان حشر ہو گا، لوگ ہی لوگ ایک جم غفیر ہے۔ آج کل←  مزید پڑھیے