بہتر کون؟۔۔حبیب شیخ

یہ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟
ایک اونچی دیوار بن رہی ہے، میں ا بھی ادھر ہی سے دیکھ کر آ رہی ہوں۔
دیوار، وہ کیوں؟ وہ تو راستہ روکنے کے لئے بنائی جاتی ہے نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لئے کھڑی کی جاتی ہے ایک دوسرے کو دور کرنے کے لیے تعمیر کی جاتی ہے۔‘ اس نے حسبِ معمول زور سے کہا۔

بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ دیوار کے اور بھی تو مقاصد ہوسکتے ہیں جیسے دیوار بنا کر کسی کی زمین پر قبضہ کر لینا، لوگوں کو بے روزگار کر دینا، شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دینا یا اجتماعی سزا دینا ۔

پچھلے زمانے میں دیوار صرف حملہ آوروں کو روکنے کے لئے بنائی جاتی تھی لیکن یہاں تو کوئی فوج کسی طرف سے حملہ نہیں کر رہی۔

یہ بات بھی درست ہے ۔  وہ شور کی سمت گردن موڑ کر بولی۔

اس دیوار کی تعمیر کے خلاف ہنگامے ہو رہے ہیں، کئی لوگ مر چکے ہیں اور زخمی بھی ہو چکے ہیں لیکن اس کی تعمیر پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔

دیکھو کیسی کیسی مشینیں بنا لی گئی ہیں اور اتنی تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ واقعی ان لوگوں نے بہت ترقی کر لی ہے یہ دیوار ان اونچی چوکیوں کے ساتھ چند ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔  سنا ہے کہ پہلے زمانے میں دیوار بنانے میں کئی سال لگ جاتے تھے اور ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔ وہ سٹپٹا کر بولا۔

ہاں بھئی! انسان ترقی کی سیڑھیاں پھلانگ رہا ہے، ہر روز مشینیں ایجاد کر رہا ہے یا انہیں بہتر بنا رہا ہے۔

واقعی کمال ہے انسان کا، بلکہ کمال کیا معجزے دکھا رہا ہے۔

لیکن یہ تو کوئی معجزہ ہے نہ کمال، دیکھا نہیں تم نے کہ اس دیوار نے گھروں کو بانٹ دیا، ہمسایوں کو جدا کردیا، لوگوں کو اپنی زرعی زمین سے محروم کر دیا، ان کو اپنی عبادت گاہ جانے سے ہمیشہ کے لئے روک دیا، بہت سوں کو بے روزگار کر دیا۔ تم اسے ترقی کہتے ہو؟۔پہلے نہ تو لوگوں کی نقل و حرکت روکنے کے لئے دیواریں تھی نہ ہی ویزا یا پاسپورٹ، جو کوئی چاہتا وہاں جا کر آباد ہو جاتا ۔
انسان پستی کی طرف تو نہیں چلا گیا کیا؟ یہی تو میری سمجھ  میں نہیں آتا ،ایک طرف اتنی ترقی اور دوسری طرف اتنی پستی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بات میں ضرور کہوں گی۔ ہمیں تو کوئی روکنے والا نہیں ہے نہ کوئی مخصوص دن یا وقت، جب چاہیں دیوار کے اس پار یا کسی اور جگہ چلے جا ئیں ۔  پھر اس نے خوشی سے اپنے پر پھیلائے اور اُڑان بھر تے ہوئے بولی۔ ۔ “ہم انسانوں سے بہتر ہی نکلے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply