نقش سویدا۔۔شاہین کمال

میں اسکول ڈرائیو کرتے ہوئے روز اس کو چاندنی اسکوائر کے پاس دیکھتی تھی ۔ میں محتاط ڈرائیور ہوں اور ڈرائیونگ کے دوران دائیں بائیں دیکھنے سے حتی الوسع گریز کرتی ہوں پر جانے کیا بات تھی کہ وہاں پہنچتے ہی میرے پیر کا دباؤ بریک پر بڑھ جاتا اور لاکھ کوشش کے باوجود اپنی گردن کو دائیں جانب گھومنے سے روک نہیں پاتی تھی۔ یہ کوئی ساعت بھر کا ہی معاملہ تھا، پر تھا اور تسلسل کے ساتھ تھا۔ جانے وہ کب سے وہاں تھا پر میں پچھلے چھ ماہ سے اسے نوٹس کر رہی تھی۔ اگر اسکول سے واپسی پر مجھے وہ اپنی مخصوص جگہ نظر نہیں آتا تو میرے دل میں ایک کھدبد سی لگ جاتی، پر کسی سے کیا کہتی، کس سے اس کا احوال لیتی؟
لوگ باگ دیوانی ہی سمجھتے۔

عورتوں کی بھی بڑی مجبوری ہے کہ ان کو طے کردہ ضابطہ اخلاق میں ہی قید رہنا پڑتا ہے۔ اتنا سنٹی میٹر منہ کھول کر ہنسو۔
قہقہہ ایسے لگاؤ کہ حلق کا کؤا نظر نہ آئے۔
چلو ایسے، بیٹھو ویسے۔
خدایا خدایا!
بندش ہی بندش۔
میرا بڑا دل چایتا ہے کہ برستی بارش میں سڑک پر بھیگتی چلوں۔
ظاہر ہے ناممکن۔
کسی سے بھی بےدھڑک بات کر لوں۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
معاشرے کی اس قدر جکڑا بندیاں ہیں کہ کبھی کبھی تو اپنا آپ بالکل محبوس پرندے جیسا محسوس ہوتا ہے ۔ خیر مجھے تو مردوں پر بھی ترس آتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مرد کو رونا نہیں چاہیے؟
بکواس!

بھئی رونے کا دل چاہے تو زور شور سے رو۔ چیخنے کا دل کرے تو چیخو۔ جزبات کے اظہار کے لیے مرد اور عورت کا مروجہ طریقہ کار کیوں؟
اس دنیا کی بہت سی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں سو یہ بھی سہی۔
میں کون سا افلاطون زماں ہوں ۔

آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے۔
پھر سردیاں آ گئی کراچی میں کیا ہی سردی۔ مانگے تانگے کی کل مل ملا کے دو ہفتے کی سردیاں ہوتی ہیں لیکن کھلے آسمان تلے وہ بھی برچھی بن کر لگتی ہے۔ اگلے دن اسکول سے واپسی پر میں نے صدر سے درمیانے درجے کا ایک لحاف خریدا۔ اس رات کھانے میں شلغم گوشت پکایا تھا، روٹی بیلتے ہوئے چار اضافی روٹیاں بھی سیک لیں اور ڈسپوزل برتن میں اس کے لیے کھانا نکال لیا۔ صبح اسکول کے لیے

قدرے جلدی نکل گئی اور چلتے چلتے ایک بوتل پانی رکھنا نہیں بھولی۔

چاندنی اسکوائر پر گاڑی دائیں ہاتھ کو اندر موڑ لی اور اس سے قدرے فاصلے پر گاڑی روک کر بمشکل تمام سامان اتارا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ارد گرد کتوں کا مجمع تھا۔ مجھے کتوں سے ڈر تو نہیں لگتا پر سب آوارہ اور جنگلی کتے تھے اور پیٹ میں انجیکشن کے خیال سے میری جان جاتی ہے۔ سست روی سے اللہ پیر کرتی ہوئی آگے بڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے شاید ہم انسانوں سے زیادہ جانوروں کو مردم شناس بنا دیا ہے۔
کسی نے بھونکنا تو درکنار چوں بھی نہ کی بلکہ ایک آدھ تو دم بھی ہلانے لگے۔ جب میں نے سامان اس کے پیروں کے پاس رکھا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
اچھے لباس اور حلیے میں ہوتا تو خوش شکل

گردانا جاتا پر الجھے بالوں، بے ترتیب داڑھی اور کیچڑ بھری آنکھوں نے اسے دیکھنے جوگے کب چھوڑا تھا۔ صحیح عمر کا اندازہ تو مشکل تھا پر چالیس بیالیس سے اوپر ہی ہوگا۔
میں سامان رکھ کر پلٹنے لگی تو کہنے لگا
کیوں بی بی یہ مایا جال کیوں چھوڑے جا رہی ہو ؟ میرے اور میرے خاندان کے لیے یہ گدڑی کافی ہے۔
میں تو ششدر رہ گئی۔ صاف اردو میں اس قدر بلیغ بات!!
مجھ پر حیرت کا شدید غلبہ تھا اور بس میں اتنا ہی کہہ سکی کہ نہیں رکھ لیجئے سردی بڑھ رہی ہے۔
اس شخص کے متعلق میرا تجسس اور بڑھ گیا تھا۔
یہ کون ہے؟
منگتا تو لگتا نہیں۔
پھر کون اور ان حالوں میں کیوں؟

میرا معمول تھا کہ مہینے میں ایک آدھ دفعہ رک کر اسے کچھ نہ کچھ ضرور دیتی۔ دو جوڑے بھی دئیے اور اب وہ قدرے بہتر حالت میں نظر آتا تھا پر نہ کچھ منہ سے پھوٹتا نہ سر سے کھیلتا۔ میرے لیے یہ بھی غنیمت تھا کہ ناک بھوں چڑھائے بغیر سامان قبول کر لیتا ہے۔
البتہ میری کتا اسکواڈ سے خوب دوستی ہو گئ تھی اور وہ سب کے سب میری گاڑی دیکھتے ہی دم ہلاتے ہوئے جمع ہو جاتے تھے سو ان کی ناز برداری واجب ٹھہری لہذا ان کے لیے میں ایک دن پہلے ہی مرغی والے سے کلیجی اور پوٹے لے لیتی تھی ۔
وہ شخص ابھی تک اس قدر پر اسرار تھا کہ میں اس کا نام بھی نہیں جانتی تھی۔
یہ خاموش تعلق تقریباً چار پانچ مہینے چلا۔ میری کتوں سے تو خوب دوستی ہو گئی تھی مگر اس سے معاملہ ہنوز سلام تک ہی رہا، کلام  تک نہ پہنچا۔ اس کا کتوں کے گروپ میں چہیتا کتا کالا اور سفید تھا اور اس کو وہ موتی کہہ کر بلاتا تھا۔ اب موتی بھی میرے پاس آنے لگا تھا اور یہ بات اسے واضح طور پر ناگوار تھی۔
آخر ایک دن اس نے تنگ آ کر پوچھا آپ چاہتی کیا ہیں ؟
میں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ بس انسانی ہمدردی کے ناطے۔
کہنے لگا بی بی میں نے اپنی زندگی سے سمجھوتہ کرلیا ہے انسانوں کی جدائی بہت ستاتی ہے اس لیے میں انسانوں سے بھاگتا ہوں۔
آخر ایسا کیا ہوا آپ کے ساتھ؟
تو آپ جانے بغیر نہیں مانےگی؟
میں نے کہ اگر آپ کو بتانے سے تکلیف ہوتی ہے تو بالکل مت بتائیں۔ میرا مقصد آپ کو تکلیف میں مبتلا کرنا نہیں۔
کہنے لگا میں تقریباً پچھلے چھ سالوں سے اس

شہر میں آوارہ پھر رہا ہوں۔ کبھی کسی نے نہیں پوچھا تو آپ ہی کیوں؟
میں نے کہا کہ شاید اگر آپ اکیلے ہوتے تو میں بھی توجہ دئیے بغیر ہی گزر جاتی مگر آپ کے ساتھ کتوں کا غول اور ان کے ساتھ آپ کے شفیق برتاؤ نے مجھے آپ کے بارے میں تجسّس میں مبتلا کیا۔ اس دور نا پرساں میں جب کوئی انسانوں کو نہیں پوچھتا آپ اللہ تعالیٰ کی اس بے زبان اور راندی درگاہ مخلوق پر اس قدر مہرباں کیوں ؟
اچھا تو اس مہربانی کے پیچھے یہ تجسّس تھا؟
اس نے خاصے کٹیلے انداز میں کہا۔
میں خاموش رہی کہ حقیقت یہی تھی۔
اس کی تلخ نوائی کے باوجود میرا مہینے کا ایک پھیرا جاری رہا۔ اس ریسنٹ وزٹ پر اس نے پوچھا آج آپ کے پاس وقت ہے؟
میں نے کہا آج کے لیے معذرت کہ رات کے کھانے پر مجتبیٰ نے اپنے کچھ دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ میں نے کہا اگر سنیچر کو دن کے گیارہ بجے میں آ جاؤ تو ٹھیک رہے گا؟
کہنے لگا میرے پاس وقت کے علاوہ ہے ہی کیا؟
آ جائیں۔
میں نے رشک سے وقت کے بے تاج بادشاہ کو دیکھا اور گھر کی راہ لی کہ سینکڑوں کام میرے منتظر تھے گو کہ میں دعوت کا تین چوتھائی کام کل ہی نبٹا چکی تھی پھر بھی عید کی خریداری کی طرح دعوت میں بھی آخر آخر کئی کام نکل ہی آتے ہیں۔
مجتبی میرے پیارے میاں کی ساری ادائیں نہایت دل نواز ماسوائے اس عادت تنگ کے۔ شورٹ نوٹس پر دوستوں کی دعوت اور وہ بھی ویک ڈیز میں۔ خیر اب میں نے بھی اس کا توڑ دریافت کرلیا ہے۔ کچھ نہ کچھ پیشگی بنا کر یا میرینیٹ کرکے فریزر کا پیٹ بھرتی رہتی ہوں کہ اس کو کہتے ہیں

تم چلو ڈال ڈال ہم چلیں پاتے پات۔
مزے کی بات اپنی اس چالاکی سے میاں کے دل پر اپنے سگھڑاپے کا رعب بھی جما لیا ہے۔
میں اپنے اجنبی دوست کی داستان حیات جانے کی بہت متمنی تھی اسی  لیے  بہت ایکسائیٹڈ بھی۔
سنیچر کو ناشتے کے دوران میں نے مختصراً مجتبیٰ کو اس کے بارے میں بتایا۔ مجتبیٰ کا فوری ردعمل تھا کہ
تمہارا دماغ تو خراب نہیں یہ کیا کرتی پھر رہی ہو؟
لو کیا کیا میں نے ؟
اس کو کھانا اور کپڑا ہی تو دیا ہے اور کیا کیا ہے؟
اب جو داستان سننے جا رہی ہو اس کی کیا تُک ہے؟ مجتبیٰ نے قدرے غصے سے کہا۔
اس کی تین” تک” ہے۔
پہلی کے میرا تجسّس ختم ہو جائے گا اور

دوسری اس کا دل ہلکا ہو جائے گا اور تیسری اور سب سے اہم کہ شاید اس کی مدد کی کوئی سبیل نکل آئے۔
پلیز تم بھی چلو میرے ساتھ مجتبیٰ ۔
مجھے بخشو تمہارا یہ سوشل ورک تمہیں ہی مبارک ہو۔
میں نے اس کے لیے کھانا پیک کیا اور اپنے دوستوں کے لیے مرغی کی کلیجی اور پوٹہ کا شاپر فریج سے نکالا۔
میں ٹھیک دس پچاس پر اس درخت کے نیچے تھی جہاں یہ انوکھا خاندان فروکش تھا۔ کتوں نے میرا پرجوش استقبال کیا۔ ان سے نبٹ کر اس تک پہنچی اور آج پہلی بار اس نے سلام میں پہل کی۔ آج مجھے وہ گزشتہ دنوں کے مقابلے میں زیادہ پژمردہ اور بوڑھا لگا۔ ستی ہوئی آنکھیں اور پیلا پھٹک رنگ۔
آج مجھے اس کے چہرے کے سکوت سے ڈر لگا۔
کہیں میں اس کے زخم چھیڑ کر غلط تو نہیں کر رہی؟
آپ چائے پئیں  گی بی بی؟
ارے نہیں نہیں! میں نے آج دیر سے ناشتا کیا ہے۔
ہم دونوں کے درمیاں خاموشی کا ایک دبیز وقفہ تھا۔
پھر اس نے دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا۔

میرا نام یونس بٹ ہے اور میں ڈاک خانے میں کام کرتا تھا۔ میں بالا کوٹ جیسے حسین شہر کا رہائشی۔ اسی جنت نظیر میں میری جنت بھی تھی۔ 6 اکتوبر کو میں کام سے مظفرآباد گیا تھا اور 8 کی شام مجھے لوٹنا تھا مگر میرے پلٹنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے زمین ہی پلٹا دی اور ساتھ ہی میری زندگیاں اور خوشیاں سب روند دی گئی۔
جانے میں کیسے اور کیوں بچ گیا؟
زلزلے کی شدت تو مظفرآباد میں بھی شدید تھی۔
وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے مجھے کیوں زندہ رکھا؟
میرے پاس چناؤ کا اختیار ہوتا تو میں کبھی بھی زندگی نہ چنتا۔ میں لڑھکتا لڑکھڑاتا چار پانچ دن بعد بالاکوٹ پہنچا۔ وہاں سب ملیامیٹ تھا۔ میں تو اپنا اور اپنے عزیزوں کے گھر بھی نہیں شناخت کر سکا۔ پورا شہر شہر خموشاں میں ڈھل گیا تھا۔
میں ہفتوں پتھر ڈھوتا اور سریے اٹھاتا رہا مگر نہ مجھے کسی کی نعش ملی اور نہ ہی دل کو قرار۔ میں سال بھر بالاکوٹ میں اپنے بچوں گل خنداں، شاداب اور آفتاب کو آوازیں دیتا رہا۔ میری بیوی میرے تینوں بچے اور میری دو بہنیں اور ان کا خاندان، کل ملا کر میرے خاندان کے پندرہ لوگ چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں زور زور سے چیخوں اور دھائی دوں۔

مگر کس کے خلاف؟
سب کچھ تو اسی کی مرضی سے ہوا تھا سو میں نے لب تو سی لیے مگر دل بھٹی ہو گیا۔
میرا دل بھی سویدا ہے۔
سویدا سمجھتی ہیں آپ؟
جب ہرنی کے بچے مر جائیں یا شکاری بچہ پکڑ لے تو ہرنی کے دل پر ان کی جدائی کے سبب ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے۔ اس داغ کو نقش سویدا کہتے ہیں۔ میرا بھی دل اپنے بچوں کی جدائی کے سبب داغ داغ ہے۔

مجھے تو یہ بھی نہیں یاد کہ میں کراچی کیسے پہنچا؟
نہ میں کراچی کو جانتا تھا اور نہ یہاں کوئی میرا تھا۔ میں شاید کسی عطیات لانے والی ٹرک میں سو گیا تھا اور یہاں پہنچ گیا۔
سچی بات ہے کہ مجھے کچھ خبر نہیں۔
مجھے تو شہر کا نام بھی پتا نہیں تھا۔ تین دن

بھوکا مارا مارا پھرتا رہا۔ سوال کرنے کی ہمت تھی اور نہ مانگنے کی عادت ۔ میں اس دیالو شہر کے دسترخوانوں سے بھی لاعلم تھا۔
ندھال ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس موتی نے ایک ادھ کھائی تندوری روٹی میرے پیروں کے پاس ڈال دی اور خود ذرا پرے ہو کر بیٹھ گیا اور مجھے نظریں بچا کر دیکھتا رہا۔
کیسا حرام اور کہاں کا حلال!
بھوکے کا نہ تو مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی مسلک۔ میں مربھکوں کی طرح اس کو روٹی کوکھا گیا اور جب میرے لبوں سے الحمد للہ نکلا تو میں حیران رہ گیا! بالکل ساکت!!
کیونکہ میں تو اپنے طور پر اس سے ناراض تھا مگر حقیقتاً ایسا ہوتا نہیں کیونکہ بندے کا تو رب کے سوا کوئی اور ہے ہی نہیں لہزا آپ اس سے ناراض ہو ہی نہیں سکتے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں  مگر آپ رب کے حاجت مند ہیں نہ وہ آپ کو چھوڑتا ہے اور نہ آپ اس سے  کنارہ کش ہو سکتے ہیں۔
شکایت بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ اولاد اور مال سب اسی کی عطا تھی اس نے واپس لے لی۔
پر یہ دل!
اس دل کا کیا کروں؟
بس پھر موتی نے مجھے اپنے ساتھ نتھی کر لیا اور ایک دن میں ادھر آ نکلا اور اسی درخت کے نیچے پڑاؤ ڈال لیا۔ اس اپارٹمنٹ بلڈنگ کے پیچھے کافی ساری کریانے کی دکان ہے جہاں آ کر لوگ ماہانہ راشن کی خریداری کرتے ہیں اور انہیں سامان گاڑی تک پہنچانے کے لیے مزدور کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں وہیں سے بقد ر  ضرورت روزی کما لیتا ہوں اور ہم سب ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے ہیں۔ زیادہ کا کرنا بھی کیا ہے؟
زندہ رہنے کو ایک وقت کا کھانا کافی ہے۔ یہ بیچارے خود بخود میرے دوست بن گئے ہیں

تو ان کی کفالت بھی مجھ پر لازمی ٹھہری۔ ویسے کتے کی فطرت میں مالک نے صرف وفا ہی نہیں بہت صبر بھی رکھا ہے۔
تو یہ ہے میری کہانی۔
اب میرا ماضی،حال اور مستقبل اک گونگا خلا بن کر رہ گئے ہیں۔ ماضی بسرتا نہیں اور آگے کچھ نظر آتا نہیں پر جتنی سانسیں ہیں وہ تو پوری کرنی ہیں  اب سنگت میں انسان ہو یا سگ۔

میں سانس روکے یونس صاحب کا قصہ الم سن رہی تھی اور میں اتنی تہی دامن کہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کے دو بول بھی نہیں تھے۔
بہت بوجھل دل سے گھر لوٹی اور مجتبیٰ کو سارا قصہ سنایا وہ بھی اداس ہو گئے۔
میں مجتبی کے سر ہو گئی  کہ ان کی نوکری کا بندوبست کرو۔ ایک ہفتے بعد مجھے مجتبیٰ نے یونس بٹ کی نوکری کی نوید دی۔ دل تو چاہا کہ شام میں ہی جا کر انہیں یہ خوشخبری سنا دوں مگر صبح کا انتظار لازمی تھا۔
اگلی صبح میں اپنی جلد باز طبیعت کے ہاتھوں وقت سے پہلے ہی اسکول کے لیے نکل گئی اور جب چاندنی اسکوائر پہنچی تو درخت کے نیچے لوگوں کا رش تھا۔ میں جلدی سے گاڑی سے باہر نکلی مگر میرے پیر من من بھر کے ہو رہے تھے اور میرے دل کو انہونی کا یقین تھا۔
درخت کے نیچے اپنا لحاف تانے یونس صاحب دنیا سے بےنیاز ہو چکے تھے اور موتی ان کی پیشانی پر اپنی تھوتھنی رکھے اداس بیٹھا تھا اور باقی سارے کتے ان کے گردا گرد تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سویدا دل اپنے پیاروں سے ملنے کی خوشی میں آسودہ ہو کر خاموش ہو چکا تھا۔
اب موتی میرے ساتھ ہے گو کہ اداس ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply