سڑکات

اس لمبی سی کالی شے کو سڑک کہتے ہیں۔ جو انسانوں کو ادھر ادھر لیجانے کے کام آتی ہے۔ پتھروں کو باقاعدہ کوٹ کر اور ان پر کول تارکی تہہ چڑھا کر موجودہ شکل میں سڑک بنانے کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ جب نئی نئی سڑکیں بننا شروع ہوئیں تو لوگ سمجھتے تھے کہ فلاں سڑک فلاں شہر جاتی ہے۔ اور فلاں سڑک فلاں شہر۔ تب ایک بزرگ کسی جگہ رستہ بھول گئے انہوں نے بےخیالی میں سڑک پر کھیلتے ہوئے بچوں سے پوچھا کہ یہ سڑک کہاں جاتی ہے۔ بچوں کا نمائندہ جھٹ سے بولا، انکل یہ جاتی واتی تو کہیں نہیں ہے بس یہیں پڑی رہتی ہے ۔ ان بزرگوار نے پھر سب کی غلط فہمی دور کی۔ واقعی ذرا سوچئے کہ اگر سڑکیں سچ میں جاتی ہوتیں، آپ صبح سو کے اٹھتے تو پتہ چلتا کہ آپ کے گھر کے باہر کی سڑک ملتان جا چکی ہے اور اب وہاں پر کچھ بھی نہیں تو آپ پر کیا بیتتی۔
سڑکیں بنانا ظاہر ہے کہ سرکار کا کام ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے تو ہمیں سڑک بنانے والوں پہ بہت غصہ آتا ،کہ کمبخت ڈھونڈ کر عین اس جگہ سڑک بناتے ہیں کہ جہاں پر کوئی نہ کوئی قومی خزانہ دفن ہوتا ہے۔
پھر بعد میں بے چارے قومی خزانے والے اس کی تلاش میں آتے تو بڑی مشکل سے تازہ بنی سڑک کو کھود کر اپنا، خزانہ کی تلاش والا فریضہ ادا کرتے ۔ہمیں ان پہ بہت پیار آتا۔۔ لیکن جب ہم تھوڑا بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ نہیں یہ قومی خزانہ کی تلاش والے نہیں بلکہ یہ تو سیوریج، گیس اور پانی کی لائنیں بچھانے والے ہیں جو تازہ بنی سڑک کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں ۔تب ہمیں ان پر غصہ آنا شروع ہو گیا کہ بھلا سڑک بنانے سے پہلے کیوں ان کو ہوش نہ آیا اور بنانے والوں پہ پیار ۔پھر ہم تھوڑا اور بڑے ہوئے تو ہمیں پتہ چلا کہ سڑکیں بنانے والے اور سڑکیں اکھاڑنے والے دراصل دونوں ہی قومی خزانے کی “تلاش”میں ہوتے ہیں. تب سے ہمیں دونوں پہ غصہ آتا ہے اور قومی خزانے پہ پیار۔
معلوم انسانی تاریخ میں سب سے پہلے باقاعدہ سڑک بنانے کا سہرا ہمارے خطہ کے بزرگوں کے سر ہے۔جنہوں نے قریب چھ ہزار سال پہلے موہنجوڈارو میں باقاعدہ تراشیدہ پتھروں کو جوڑ کر یہ کارنامہ سرانجام دیا ، اورعصرِ حاضر میں سڑک کے مکمل اور صحیح استعمال کی دریافت کا سہرا بھی اس خطے کے باسیوں کے سر ہے۔ دیکھئے نا، ساری دنیا ،گھامڑ، سڑک سے صرف گاڑیوں یا پیدل لوگوں کی آمدورفت کا کام لیتی ہے جبکہ وطنِ عزیز میں پورے نظامِ حیات کی عمارت سڑک پر ایستاده ہے۔ منے کی پیدائش ہوئی ہے ۔ موتی چور بنیں گے دیگیں چڑھیں گی۔ لگاؤ سڑک پر قناتیں اور چڑھاؤ دیگیں ۔ منے کے ختنے ہیں ۔لگاؤ سڑک پر قناتیں ۔بلاؤ سارا محلہ ۔چڑھاؤ سڑک پر دیگیں۔ منا کرکٹ سیکھے گا، لگاؤ سڑک پر وکٹیں۔ منے کی سالگرہ ہے, منے کی منگنی ہے ۔ منے کی بارات ہے یا ولیمہ ۔لگاؤ سڑک پر قناتیں ۔چڑھاؤ دیگیں۔ منے کو دو روز سے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ، سرکار پر غصہ ہے ۔جلاؤ سڑک پر ٹائر۔ عوامی نمائندوں کو منے کی بھلائی سوجھی ہے۔ جلسہ ہوگا سڑک پر۔اور منے کے ابا اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ۔لگاؤ سڑک پر قناتیں ڈالو پھوڑی۔
ذہن کو بس ایک کھٹکا سا لگا رہتا کہ کہیں منے کی پیدائش بھی سڑک پہ نہ ہو جائے سو وہ بھی پورا ہوگیا ۔سنتے ہیں کہ ٹریفک جام میں پھنسی سواریوں میں کئی “رکشہ خان”اور”چنگ چی میاں”عدم سے عالمِ موجود تشریف لا چکے ہیں ۔ اب تو بس اس حیاتی چکر کے نقطہ آغاز والا عملِ حیاتیات وجذبات ہی بچا ہےدیکھئے اس کی باری سڑک پر کب آتی ہے۔
جدید سڑکیں تو ساری کالے رنگ کی ہوتی ہیں۔ اور اپنے لوگوں کو شاید کالے رنگ سے کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اچھا بھلا معتبر تعلیم یافتہ باؤ ابھی چند لمحے پہلے بنک کی منیجری کر رہا تھا، یا اپنے ذاتی کاروبار میں اپنے ملازمین کو ہدایت دے رہا ہوتا ہے کالی سڑک پر آتے ۔کسی ان دیکھے آسیب یا واہمہ کے زیرِ اثر چلا جاتا ہے۔ اپنی موٹر سائیکل یا کار کو اڑانے کی کوشش کریگا ۔ کبھی آگے والی گاڑیوں کے دائیں سے ،کبھی بائیں سے، جی چاہے کہ بس چلے تو ان کے اوپر سے گذر کے کسی طرح جلد سے جلد گھر پہنچ جائے ۔اشارہ بند ملے تو دندل پڑتے ہیں اور،گھر پہنچتے ہی پھر سے پرسکون ۔ دھوتی باندھے پاؤں پسارے ٹی وی پہ کارٹون دیکھے۔ سرکار نے عوام کی اس آسیبی عجلت کے تدارک کے لیے جوتشیوں سے رابطہ کیا ہے۔انہوں نے سپیڈ بریکر نامی تعویذ تجویز کئے ہیں۔ سڑک کیلیے ۔لیکن ابھی کچھ آفاقہ نہیں ہوا ۔اب شاید ماہرین نفسیات کو دکھایا جائے گا ،عوام کو،ہو سکتا ہے وہ گلابی رنگ کی سڑکیں تجویز کردیں۔
ہماری معصوم عوام کو سڑک کو لے کر کچھ زبردست غلط فہمیاں ہیں۔ ان میں سے کچھ اور ان کے ممکنہ حل
دائیں ہاتھ سے کھانا اور دایاں جوتا پہلے پہننے کی طرح انتہائی دائیں طرف گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا کارِ ثواب ہے۔
حل: ہرگز نہیں ۔اور نہ ہی بائیں ہاتھ گاڑی چلانے والا شیطان کا بھائی تصور ہوگا ۔قسمے۔
سڑک کے درمیان لگی غیر مسلسل لائن اس لیے ہوتی ہے کہ موٹر سائیکل عین اس کے اوپر اور گاڑی اس کوعین درمیان میں رکھ کر چلائی جائے۔
حل ۔لکیر کا فقیر اسکو نہیں کہتے جو دو لائنوں کے درمیان گاڑی چلائے۔ نیز یہ سڑک کی لکیر ہے خوش قسمتی کی نہیں ۔
آپ سے اگلی گاڑی کوئی برقی مقناطیسی شے ہے جو مسلسل ہارن بجانے سے ہوا میں تحلیل ہو جائے گی ۔
حل، باقی سب گاڑیاں بھی بد قسمتی سے دھاتوں وغیرہ سے بنی ہیں۔
سڑکوں اور چوراہوں میں لگے ٹریفک کے اشارے دراصل کسی دشمن ملک کی فوجی تنصیبات ہیں اورہماری حیات اور بقا کا راز ہے کہ میں ان پر ہرگز عمل نہ کریں
حل: ہمارا یقین کریں دشمن کی فوجی تنصیبات اور طرح کی ہوتی ہیں۔
فٹ پاتھ اور سڑک کے آخری کنارے اس لیے ہوتے ہیں کہ ان پر خوانچہ فروشوں کو بٹھایا جائے اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلیے دکاندار دکان کا آدھا سامان وہاں رکھیں ۔
حل، دنیا کے جن ممالک میں لوگ فٹ پاتھوں پر چلتے ہیں اور دکانوں کا آدھا سامان سڑکوں پر نہ رکھنے کے باوجود بھوکے نہیں مرتے ان کا خدا ہمارے والے سے زیادہ رحیم نہیں ہے۔
سڑک پر کرکٹ کھیلنے اور ون ویلنگ کرنے سے انسان بہت جلد وسیم اکرم اور مائیکل شوماخر بن سکتا ہے ۔
حل: وسیم اکرم اور مائیکل شوماخرنے میدان میں کھیلنا سیکھا تھا ۔
میرے سوا باقی سب پر قانون لاگو ہوتا ہے ۔
حل: اس مسئلہ کا حل ابھی دریافت نہیں ہوا

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply