برمی گاؤں۔۔ڈاکٹر انور نسیم

کبھی کبھی جب انسان ساری دنیا سے الگ تھلگ صرف اپنے آپ سے مخاطب ہوتو یوں لگتا ہے جیسے ہم سب بہت ہی تنہا ہیں،شاید اس لیے کہ ان مخصوص لمحوں میں دنیا بھر کی رونقوں سے دور ہوجانے کا ایک مختصر سا وقفہ اور پھر وہی بھاگ دوڑ،مصروفیات،تگ و دو،یہ دنیا تو بڑی خوبصورت اور بارونق جگہ ہے،ہنگامے،جنگ و جدل،غربت،امارت،اقتصادی اتار چڑھاؤ۔۔پھر اتنے سارے لوگ،ان سب کی اپنی اپنی کہانیاں،مسائل،سوچ۔۔کبھی کسی بازار کا رُخ کرلیں تو اِدھر اُدھر چلنا دشوار ہوجاتا ہے،ایک زمانے میں لاہور کا انار کلی،ایک پوری دنیاہے،مگر جانے کیوں اسے ہمیشہ سے ہی  ہوائی اڈے بہت متاثر کرتے تھے۔کیا بات ہے،دنیا کے ایک سِرے سے نکلے اور اگلی صبح دوسرے سِرے پر سورج طلوع ہوگا۔پھر یہ ہوائی اڈوں کی ایک اپنی مکمل دنیا ہے۔ایک نظام،مختلف زبانوں میں طیاروں کی آمد اور روانگی کا اعلان ہورہا ہے،ہر طرف خوبصورت سکرینز آویزاں ہیں،اور لوگ اپنے ہاتھوں میں اٹھائے سوٹ کیس لیے تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔منزل کا علم سب کو ہے۔دنیا میں بہت سارے شہر ایسے ہیں جہاں ہر پندرہ منٹ بعد ایک جہاز پرواز کے لیے اُڑان بھرتا ہے۔نیویارک،لندن،شکاگو،ٹوکیو۔۔کیا بات ہے،اور کیا لطف ہے اس کھیل میں۔

اس نے جانے کتنے ائیرپورٹس دیکھ لیے۔۔سب سے زیادہ دلچسپ ہوائی اڈہ دبئی کا ہے،اَن گِنت ڈیوٹی فر ی دکانیں،خریدو فروخت کے ہنگامے،وہ ہمیشہ بڑے انہماک سے ارد گرد دیکھتا۔یہ اتنے سارے لوگ کہاں جارہے ہیں۔۔کبھی کبھارکوئی بہت بڑا گروپ نظر آتاہے،یہ لوگ غالباً اپنی آئندہ زندگی میں عاقبت سنوارنے کے لیے عمرہ کرنے جارہے ہیں،مگر وہ جو بچپن سے ہی اسے تھری پیس پہنے ہوئے خوبصورت ٹائی لگائے اور ایک بہت ہی شاندار قسم کا اعلیٰ بریف کیس تھامے لوگ ہوائی اڈوں پر نظر آتے ہیں،یہ واقعی شاندار قسم کی شئے ہے۔کبھی کبھاروہ عنداً کوشش کرکے ان کی گفتگو سننے کی کوشش کرتا رہا ہے،ہیلو جیمز کہاں جارہے ہو۔۔کتنے دِنوں کے لیے ہاں وہ سوئٹزر لینڈ کے شرڈیوس میں بین الاقوامی اقتصادی کانفرنس ہورہی ہے،دنیا میں غربت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،یہ جو اتنے بڑے بڑے بین الاقوامی ادارے ہیں،ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف یہ سب غربت ہی تو مٹانے کی فکر میں ہیں۔۔مسلسل اجلاس ہورہے ہیں۔
بھائی کیا خوبصورت تجزیہ کرتے ہیں۔۔

سفارشات کی ایک طویل فہرست مرتب کرتے ہیں،کبھی کبھار اسے یوں لگتا ہے کہ شاید گزشتہ کئی برسوں سے ایک ہی جیسی سفارشات۔۔۔مگر کیا کِیا جائے؟۔۔دراصل غربت کا یہ مسئلہ ہی بہت پیچیدہ ہے،کوشش جاری رکھنا لازم ہے۔جلد یا بدیر ضرور غربت یا غریب ختم ہوجائیں گے،یہ اجلاس بہت اہم اور مفید ہیں۔پاکستان سے بھی تو ایک قومی وفد محترم کاظمی کی قیادت میں سوئٹزرلینڈ جارہا ہے،اخبارات اور ٹی وی پہ ان اہم خبروں کا مفصل تذکرہ ہوتا ہے۔یقیناً اہم فیصلے ہوں گے۔ہمارے ملک کے سادہ لوح دیہاتی شاید ان باتوں کی اہمیت سے واقف نہیں مگر جب غربت سے نجات ملے گی تو پھر سمجھ جائیں گے۔

ٹھیک سے یاد نہیں،وہ ایک اہم اجلاس کے لیے شاید جنیوا جارہا تھا۔اس نے سامنے سکرین پر اپنی پرواز کی روانگی کا وقت دیکھا۔۔ابھی تو شاید ایک گھنٹہ باقی ہے،اچانک اسے اپنے قریب ایک عمر رسیدہ خاتون نظرآئی،اس کے پاس کوئی بریف کیس نہیں تھا۔سفید چادر میں لپٹی ہوئی ایک پوٹلی نما تھیلی تھی،صاف نظر آرہا تھا کہ اس نے خود ہی مختلف جگہوں پرگانٹھ بنا کر۔۔اس میں کیا ہوگا؟۔۔مکئی کا آٹا یا پھر ستو۔۔گھبراہٹ کے عالم میں وہ ہر طرف دیکھ رہی تھی۔اس کے ہاتھ میں کاغذکا ایک چھوٹا ساٹکڑا تھا۔مجھے یوں لگا کہ وہ کاغذ کی تحریر بھی شاید نہیں پڑھ سکتی تھی۔
آپ کو کہاں جانا ہے؟۔میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔وہ پھر بھی خاموش رہی،شاید و ہ اردو نہیں جانتی ہو،اب شاید یہ بات کسی حد تک اس کی سمجھ میں آگئی۔۔جی وہ برمی گاؤں جانا ہے۔
برمی گاؤں کہ کونسا شہر ہے
کبھی یہ نام نہیں سنا،اس کے ہاتھ سے کاغذ کا ٹکڑا لے کر پڑھا۔۔ارے ہاں برمی گاؤں تو برمنگھم ہے۔کاغذ پر ایک نام،سعید احمد،برمی گاؤں میں اس کا پتہ فون نمبر وغیرہ لکھا ہوا تھا۔
اچھا اچھا۔۔آپ کو اردو نہیں آتی۔
اس نے سر ہلاتے ہوئی نہیں میں جواب دیا،
اچھا پنجابی بولتے ہیں۔۔۔؟ہاں تھوڑی تھوڑی،مگر پشتو آتی ہے۔برمی گاؤں میں شاید پشتو بولنے والے۔۔۔
اچھا پھر ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں اُس نے بتایا،وہ جی سعید میرے بیٹے کو ملازمت(نوکری نہیں ملی)،پھرجانے اس نے کہاں سے ایک کاغذ(میں سمجھ گیا کہ ویزہ)لے لیا۔اور گاؤں سے چلا گیا۔اب تو شاید بیس برس ہوگئے ہیں،وہ کبھی کبھار مجھے گاؤں میں پیسے بھیج دیتا ہے،کسی نے بتایا کہ اس نے کسی گوری سے شادی کرلی ہے(لوجی بس کیا کہوں،بس فٹے منہ)اب اس کے دو بچے ہیں،ان دونوں کے نام مسلمانوں والے نہیں،مجھے تو ملنے بھی نہیں آتے،کچھ ڈاگ نس اور خدا کیا بلا وائسر پرجی میں کیا کروں،مجھے سعیدخاں بہت یاد آتا ہے،اب تو اس کی شکل بھی بھول گئی ہوں،کافی عرصے سے سعید پُتر کے بھیجے ہوئے پیسوں سے رقم بچا رہی ہوں،تب کہیں جاکر ٹکٹ خریداہے۔۔یہ پوٹلی میں گڑ اور ستو باندھے ہیں،اسے بچپن میں بہت پسند تھے،اب پتہ نہیں۔۔شاید بدل گیا ہو۔۔اس کی بیوی بھی میم ہے۔پر خیرجو اللہ کو منظور۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے،۔۔وہ اب میں کہاں جاؤں۔۔میں نے سامنے چمکتی ہوئی سکرین پر ا سکی فلائیٹ کا نمبر پڑھا،گیٹ نمبر221۔۔میں نے اسے کہا”میرے نال نال چلتے جائیے“۔گیٹ کے پاس پہنچ کر اسے اشارے سے سمجھایا کہ وہ جو سامنے ڈیسک ہے،وہاں پر کھڑی ایک انتہائی خوبصورت لباس پہنے خاتون کو اشارہ کیا کہ اس کی مدد کردے،ڈیسک سے اسے برمی گاؤں جانے کے لیے ایک کاغذ کا ٹکڑایعنی بورڈنگ پاس بھی مل گیا۔وہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی،میں سمجھ گیا اور اسے اشارہ کیا کہ سامنے جاکر کسی خالی کرسی پر بیٹھ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں خاموشی سے اپنی جنیوا جانے والی فلائیٹ میں پرواز کے لیے چل پڑا۔۔سعید خاں کی تلاش میں اس کی ماں کسی چھوٹے سے گاؤں سے غریب سے گاؤں سے برمی گاؤں کی تلاش میں اور کاظمی صاحب وفد کی قیادت کرتے ہوئے غربت ختم کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ روانہ ہورہے ہیں۔۔وفد میں کسی معروف دانشور اور تجزیہ نگار بھی شامل ہیں۔اب تو غربت کی خیر نہیں۔۔یہ دنیا بڑی دلچسپ جگہ ہے۔دبئی کے ہوائی اڈے پر بڑی رونق ہوتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply