تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے(1)۔۔شاہین کمال

سو سوری یوسف میری آنکھیں ہی نہیں کھلیں۔ نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولہے کا برنر آن کیا۔
رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو میں نے انڈا ابال کر کھا لیا ہے اور چائے میں کالج میں پی لوں گا۔ تمہاری تمام رات حارث کی وجہ سے بے آرامی میں کٹی ہے، ابھی وہ سو رہا ہے سو تم بھی تھوڑی نیند لے لو۔ میں نے نمرہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ مجھے کالج سے دیر ہو رہی تھی کہ ہر منگل کو میرے پہلے دو پریڈ ہوا کرتے ہیں ۔

میری اور نمرہ کی شادی کو سات سال ہو چکے ہیں۔ چار سال کی ہانیہ اور اب تین ماہ کا حارث۔ یہ شادی محبت کی شادی ہی سمجھیے، کہ کزن کی شادی پر نمرہ کو دیکھا اور دو مہینے کی چیٹ اور ایک آدھ ملاقات کے بعد زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیا۔ ہماری اچھی گزر رہی ہے، نرم گرم حالات تو ازدواجی زندگی کے پیکج میں شامل ہیں کہ شادی گلابوں کی سیج جو ٹھہری۔ جی جناب گلابوں کے ساتھ منسلک کانٹوں کو بھی ذہن میں رکھیے، کہ ایسی ہی مہکتی اور چبھتی ہوئی ہوتی ہے ازدواجی زندگی۔ میں خاصی حد تک سیلف میڈ ہوں کہ میرا خاندان پشتوں سے حلوائی ہے، جہاں بس میٹرک تک کی ہی تعلیم ضروری کہ پھر سنبھالنی ہے گلک   کی ذمہ داری۔ اس سے آگے کی تعلیم کو وقت اور پیسے کا زیاں گنا جاتا ہے۔ گو کہ اب ہم لوگ ایک سولہ بائی دس فٹ کی دکان سے اٹھ کر ملک کے تقریباً ہر بڑے شاپنگ مول میں موجود ہیں اور ہمارے خاندان کے نوخیز نہال ایم ٹی وی اور دوبئی یاترا کی بدولت انگریزی بھی بولنے لگے ہیں مگر سب اوپری سطح تک، ذرا سا کھرچو تو اندر سے وہی روکڑو روکڑو صدا جاری و ساری۔

میں اپنے خاندان کا واحد پوسٹ گریجویٹ ہوں ۔ خواب تو میرے سی ایس ایس کے تھے مگر پیلے اسکول کی بدولت میری انگریزی کمزور تھی۔ اس میں وہ کونوینٹ والی پختگی اور اعتماد نہیں تھا گو میں نے اپنے آپ پر بہت محنت کی اور اپنا اندرون بیرون بدلنے کی حتی المقدور کوشش بھی۔ پر اس تمام تر کوششوں کے باوجود میں نہ سرخاب بنا نہ بگلا، بس کچھ ہی اوپر اٹھ سکا۔ خیر میری سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ میں مقامی کالج میں معاشیات پڑھا رہا ہوں، بھئ اب خون میں دوڑتے روکڑو روکڑو (پیسہ) کا اثر کہیں نہ کہیں تو ظاہر ہونا تھا بھلے معاشیات کے مضمون کی صورت ہی سہی۔

اب اسے خدا کی کرنی کہوں یا اپنی خوش سماعتی کہ نابکار دل آیا بھی تو اہل زبان پر۔ نمرہ بلاشبہ خوش شکل تھی مگر مجھے اسیر اس کے اندازِ  گفتگو اور سخن فہمی نے کیا تھا۔ اردو مجھے ہمیشہ ہی بہت پُرکشش لگا کرتی ہے اور نمرہ کے منہ سے تو گویا پھول جھڑتے تھے گویا فراز کی غزل،
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

ایسی آراستہ پیراستہ اور برجستہ گفتگو کہ بندہ بس بندہء بےدام ہی ہو جائے۔ اب آپ سے کیا پردہ۔۔

چوتھی جماعت میں میرا پہلا اور آخری کرش بھی میری اردو کی استانی مس شمشاد تھیں۔ میرے بزرگوں نے زور تو بہت مارا کہ میں خاندان ہی میں کہیں بندھ جاؤں کہ میرے گھر کی کچھ لڑکیاں ڈگری یافتہ تھیں۔ ابا کا مجھے اپنی بھتیجی جمیلہ سے بیاہنے کا پورا پورا اردہ تھا اور با خدا وہ عفیفہ تھی بھی شکیلہ پر بھلا اتھرے دل کو کب کوئی مائی کا لعل لگام ڈال سکا ہے ، سو جو اس دل نے ٹھانی وہ کر گزرا کہ وہ نمرہ کے استھان پر سر نہواڑ چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ ابا اور کاکا مجھ پر جمیلہ سے شادی کرنے کے لیے دباؤ بڑھاتے، میں نے نمرہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس گستاخی پر گھر بدر کر دیا گیا۔

نمرہ کے گھر والوں کو منانا بھی ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے جتنا ہی مشقت طلب تھا پر بیٹی کی رضا مندی کے آگے انہیں بھی مجبوراً راضی ہونا پڑا۔ میری شادی پر میری جانب سے مارے باندھے صرف میری امی اور بڑے بھائی شریک ہوئے تھے۔
شادی سے پہلے میں نے بورڈ آفس کے پاس کرائے پر فلیٹ لیا کہ وہاں سے پریمئیر کالج نزدیک پڑتا تھا ۔

اب تو ماشاءاللہ سے میں صاحب کار بھی ہوں ورنہ وہ دور بھی تھا جب ہونڈا 70 پر نمرہ اور میں کراچی چھانا کرتے تھے۔ امی چار چھ مہینے پر میرے گھر چکر لگا لیتی ہیں اور لاکھ منع کرنے کے باوجود میرے بینک اکاؤنٹ میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ رقم ڈالتی رہتی ہیں۔ واقعی ماؤں کی محبتوں کا نہ تو مول ہے اور نہ ہی کوئی تول۔

اب اپنی سسرال میں، میں کھلے دل اور بازوؤں سے ویلکم ہوں مگر میرے باپ کے گھر کے در مجھ پر ہنوز مقفل۔ خیر ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔

میرے شاگرد میرے پڑھانے کے طریقے سے خوش ہیں گو کہ میری شہرت قدرے سخت گیر استاد کی ہے۔ میں شاگردوں کو اپنا سو فیصد دیتا ہوں اس لیے اپنے طالبعلموں سے بھی سخت محنت کا متقاضی ہوں۔ میری اچھی ریٹنگ کی بنا پر پرنسپل بھی مجھ سے راضی باضی پر میرے کولیگ قدرے کبیدہ کہ میں لکیر کا فقیر نہیں اور پڑھانے میں جدیدیت کا قائل۔ راوی اب تک تو چین ہی چین لکھ رہا تھا مگر بی کا م کا جو نیا بیچ آیا ہے وہ کچھ زیادہ ہی منہ زور اور بےباک ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ یوں بدلا ہے کہ یقین کیجیے میں تو ششدر ہوں۔ ہم لوگوں کے اساتذہ کا کیا دبدبہ اور رعب ہوا کرتا تھا۔ اگر ان سے کہیں راستے میں مڈبھیڑ ہو جاتی تو ہم یا تو سک دم مؤدب کھڑے ہو جاتے یا اگر رگڑائی کھنچائی کا خدشہ ہوتا تو خاموشی سے راستہ ہی بدل لیتے، پر اب میرے کچھ شاگرد تو ایسے بے ادب ہیں کہ میرے سامنے سگریٹ بجھانے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔ تعلیمی ماحول کچھ اس تیزی سے بدلا ہے کہ اب کلاس کے لڑکے اور لڑکیوں کا اکٹھے آئس کریم پارلر یا پیزا ہٹ جانا گویا معمول ٹھہرا اور اس پہ روک ٹوک یا سرزش کی گنجائش ہی نہیں۔ میں نے ایک دفعہ اس طور طریقے پر پرنسپل صاحب کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تو پرنسپل صاحب نے میرا کندھا دباتے ہوئے کہا کہ یوسف صاحب ہم صرف کالج کی چار دیواری کے اندر تک کے  ذمہ دار ہیں۔

میرے اس سال کے تھرڈ ائیر کے بیچ کی رشنا قادری اور فاران مغیص کی دوستی حد سے تجاوز کر رہی تھی۔ کینٹین اور کوریڈور تو چھوڑئیے اسٹاف روم میں بھی یہی ذکر تھا۔ رسمی طور پر ایک بار پرنسپل نے انہیں آفس بلا کر سرزش بھی کی مگر جناب کہاں، مانو صاحب زادے نے کندھے پر سے بیٹھی مکھی اڑائی اور محترمہ نے جز بز ہو کر پہلو بدل کر چونگم کا پٹاخہ بجا دیا ۔ بس اتنا ہی ردعمل تھا ان کا اس رسمی فہمائش پر۔

مجھے تو یقین کامل تھا کہ دونوں لیلیٰ مجنوں کی ایک دو پیپر میں سپلی ضرور آئے گی مگر ہوا اس کے عین برعکس۔ خیر یہاں کے تعلیمی بورڈ میں ایسا ہونا کوئی عجوبہ نہیں۔ تعلیمی سیکٹر کیا، کسی بھی شعبے میں قائد اعظم کو پہیہ لگا دو بس پھر کھل جا سم سم ۔ ہر در وا ہوتا چلا جائے گا اور ہر ناممکن ممکن۔ مجھے ابھی سے سوچ سوچ کر کوفت ہے یہ دونوں ابھی ایک سال اور میرے سر پر مسلط ہیں۔ باوجود ان دونوں کو ناپسند کرنے کے میں نے کبھی ان کے امتحانی پرچے یا اسائنمنٹ پر اپنا غصہ نہیں نکالا۔ میرے پاس ایک یہی تو فخر ہے کہ میں اپنے پیشے سے مخلص ہوں ۔ سو نااتفاقی یا ناپسندیدگی کے باوجود بھی متعصب نہیں۔ میں اپنے کام سے کام رکھنے والا بندہ ہوں اور اسٹاف روم کی یاوہ گوئی سے سخت پرہیز کرتا ہوں۔ یوں بھی میرے پاس وقت کہاں، کالج سے چھٹی پر گھر اور پھر عصر سے رات تک دو دو اکیڈمیوں میں کلاسیں لیتا ہوں کہ ہوشربا مہنگائی کے ہنومان کو بھیٹ تو چڑھانی ہی پڑتی ہے اور میرے پاس میرے دماغ کے عرق کے علاوہ ہے ہی کیا۔ اس عرق ریزی کے بدلے میں حاصل سکوں سے کنبے کے لیے کچھ اضافی خوشیاں مول لیتا ہوں۔

یہ تماشا اسی صبح کا ہے، جب مجھے کالج کے لیے دیر ہو رہی تھی اور نمرہ وقت پر اٹھ نہیں پائی تھی کہ تین چوتھائی رات تک حارث بے آرام رہا تھا۔ بظاہر وہ صبح بالکل دوسری صبحوں جیسی تھی۔ دھوپ کی تپش، موسم کا حبس، سڑکوں پہ بے ہنگم ٹریفک اور ہارن کا بےپناہ شور۔ راہ چلتوں کا پان کی پیک اگلنا، چنگچی اور موٹر سائیکلوں کا کٹ مارنا اور ہر گزرنے والے کا راہ چلتی یا سواری کے انتظار میں کھڑی عورت کا ایکسرے اتارنا۔ اسٹاف روم کی بھی ہمیشہ جیسی مسموم فضا تھی، سب کچھ بالکل گزشتہ صبحوں ہی جیسا تھا۔ طوفان سے پہلے آنے والا سکوت تو کہیں بھی نہیں تھا۔ ہاں رات کی بے آرامی کے سبب میرے سر میں شدید درد ضرور تھا سو میں نے اسٹاف روم میں بیٹھنے کے بجائے اپنی  کلاس میں جانا بہتر سمجھا اور اسٹاف روم سے نکلتے ہوئے پیون مقبول کو چائے کلاس میں پہچانے کی تاکید کرتا ہوا کلاس کی جانب نکلتا چلا گیا۔ ابھی میں ٹھیک سے کرسی پر بیٹھ بھی نہیں پایا تھا کہ دھڑام  سے دروازہ کھلا اور رشنا قادری تن فن کرتی اندر آئی اور اپنا اسائنمنٹ میرے ٹبل پر پٹخ  دیا اور چیخی کہ میرے نمبر کم کیوں ہیں؟

اس بدتمیزی پر تو میرا سر ہی گھوم گیا۔
یہ کیا طریقہ ہے رشنا قادری؟
میں نے درشتی سے پوچھا۔
طریقے وریقے کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ جب میرے پوانٹس عطرت سے زیادہ ہیں تو پھر نمبر کیوں کم ہیں؟ سیدھی طرح سے میرے نمبر بڑھا دو۔

وہ میرے کالر کو جھٹکتے ہوئے غرائی۔
میں سناٹے میں رہ گیا !
میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والا۔
میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کرسی کا سہارا لینے کی کوشش کی جو جھٹکے کے باعث پہلے ہی گر چکی تھی اور اس سے جھونک کھا کر میں بھی زمین بوس ہو چکا تھا ۔

کریں گے تو تمہارے اچھے بھی ۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے شانے کے پاس سے اپنی قمیض ادھیڑ دی اور تیزی سے چیختے ہوئے میرے گال پر اپنے ناخنوں سے کھرونچے ڈال دیئے۔ عین اسی وقت  دروازہ کھلا اور میری بے عزتی کے باعث دھندلاتی آنکھوں نے دروازے پہ بت بنے پیون مقبول کو دیکھا اور پھر کچھ لڑکے جن میں فاران سب سے آگے تھا ، انہوں نے اسے دھکا دے کر راستے سے ہٹایا اور مجھے گھونسوں اور لاتوں پر رکھ لیا۔ میرے ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا اور میری شرٹ لیرو لیر تھی ۔ اچانک کمرے میں بہت سارے لیکچرار گھس آئے اور مجھے ان لڑکوں کے نرغے سے نکالا اور پھر یہ سارا قافلہ پرنسپل کے آفس پہنچا۔

پرنسپل نے مجھے کرسی پر بیٹھا کر پانی دیا اور ابھی وہ فاران کو خاموش کرانے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ آفس میں پولیس   چلی آئی۔ اسی دوران کسی نے اس واقعے کی وڈیو بھی یوٹیوب پر ڈال دی جو اب تک وائرل ہو چکی تھی۔ چالیس پینتالیس منٹوں کے اندر اتنا کچھ ہو چکا تھا کہ میری عقل ماؤف تھی اور میں کچھ بھی بولنے سے قاصر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply