تھری ناٹ تھری(1)۔۔شاہین کمال

تیس سالوں کے بعد میں اپنی سسرال لوٹ آئی تھی۔ جو سچ کہوں تو میں تو اس واپسی کے  حق میں نہیں تھی کہ میں دیار غیر میں اپنے دونوں بیٹوں کے قریب رہنے کی آرزو مند۔ ماں ہونا بھی کتنا کٹھن ہے نا، حالانکہ وہ کل کے بچے جو سوتے ہوئے بھی میرا پلو نہیں چھوڑتے تھے وہ اب کئی کئی دن سیل فون کا بٹن پریس کر کے ماں کی خیر خبر بھی نہیں لیتے پر ممتا کا کیا کیا جائے کہ دل ادھر ہی ہمکتا ہے، وہ نہ تو دودھ کا حساب مانگتا ہے اور نہ ہی خدمت کی جزا۔ قیصر میرے سر تاج من پاکستانی سفارت خانے میں درمیانے درجے کے ملازم تھے۔ ان سے میری ملاقات جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانے میں عید ملن پارٹی پہ ہوئی اور وہ تقریب ہمارے ملن کی نوید ٹھہری ۔ان کی پوسٹنگ کے صدقے میں نے خاصہ ایشیا و افریقہ دیکھ ڈالا، رنگ رنگ کے لوگ اور طرح طرح کے رسم و رواج مگر یقین کیجئے بنی آدم کے دکھ سکھ کل عالم میں یکساں، اس میں کوئی تغیر و بہتری نہ ملکی سرحدیں لا سکیں اور نہ ہی مذہب اور ذات برادری۔ قیصر کی آخری پوسٹگ فن لینڈ میں تھی، گرچہ ہم لوگ وقفے وقفے سے پاکستان آتے رہے مگر قیصر ہمیشہ سے کسی بیرونی ملک ہی میں مستقل سکونت کے حامی تھے۔

دونوں بیٹے بھی پڑھنے باہر گئے تو وہیں کے ہو گئے اور اب وہیں کہ شہری ہیں۔ ان کے ناطے ہم لوگوں کے لیے بیرونی ملک کی رہائش ممکن تھی، پر جانے آخری دنوں میں قیصر کے سر پر کیا سودا سمایا کہ انہوں نے پاکستان کی رٹ لگا لی۔ میں نے بہت زور لگایا کہ وہ اس ارادے سے بعض رہیں پر نہ  جی مرد اپنی ہٹ کے پکے۔ اس معاملے میں ہم عورتیں تو عبث ہی بدنام ہیں۔ خیر مجھے ہتھیار یوں  بھی ڈالنا پڑا کہ دو سال پہلے میاں جی کا دل چلتے چلتے رک گیا تھا، بس وہ تو اللہ تعالیٰ کو مجھ بے بس پر رحم آ گیا اور میری اکلوتی پونجی یعنی میرے میاں کے بوڑھے شکستہ دل کو دوبارا مجھے لوٹا دیا۔

آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں، ماں بچوں کے لیے بے قرار رہتی ہے مگر عورت شوہر سے وفادار ۔ یہ جو میاں بیوی اور بچوں کی مثلث ہے بڑی ہی جاں لیوا اور عورت کے لیے سخت کٹھن و دشوار۔ بس عورت دونوں کو خوش رکھنے کے جتن میں ساری عمر کسی ماہر نٹ کی طرح تنے ہوئے رسے پر چلتی رہتی ہے۔ خیر پیار کی یہ بازی سرتاج من جیت گئے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ہمراہ پاکستان آنے پر مان گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر چھ ماہ تک یہاں میرا دل نہیں لگا اور طبیعت نے میل نہیں کھایا تو بڑے بیٹے کے پاس سڈنی واپس۔ چھوٹے کے پاس تو یوں بھی نہیں رہ سکتی کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں چھ ماہ سورج ڈوبتا نہیں اور اگلے چھ ماہ نکلتا نہیں۔ وہاں تو میرا پاکھنڈی فشار خون بڑا فساد مچاتا اور دل افسردگی کی دھند میں ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ سڈنی البتہ طبیعت اور مزاج دونوں کو معتدل رکھتا۔ قیصر پردیس کی خاک چھان چھان کر اوب  چکے تھے سو کہنے لگے نہیں مجھے انجان مٹی میں دفن نہیں ہونا ۔ ساری عمر پردیس میں بتانے کے بعد اب انہیں کراچی کے بپھرے سمندر، گرمیوں کی حبس بھری دوپہر اور شفق رنگی شاموں کی نمکین ہوا نے بےقرار کر دیا تھا۔ وہ شدت سے نوسٹیلجیا میں مبتلاء تھے اور کسی ٹین ایجر عاشق کی طرح اپنے معشوق کے ہجر میں رنجیدہ اور ملن کے لیے آب دیدہ۔ مجھے اپنے جکارتہ کو کہیں بہت بہت پیچھے چھوڑنا پڑا کہ جہاں پیا وہیں جیا۔

کراچی میں ہمارا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں اور کسی بھائی کے ساتھ رہنا قیصر کو گوارا نہیں۔ ابھی ہم دونوں رہائش کے سلسلے میں متفکر ہی تھے کہ قیصر کے بہت پرانے دوست محمود بھائی جو کہ اب دنیا میں نہیں رہے ان کے لائق بیٹے مسعود نے یہ مسئلہ نہایت خوش اسلوبی سے حل کردیا۔ ان لوگوں کی کوٹھی کراچی کے۔ ڈی ۔اے اسکیم نمبر ون میں عرصے سے خالی پڑی تھی، جس کی دیکھ بھال محمود بھائی کے زمانے میں موجود چوکیدار کا پوتا کرتا ہے۔ مسعود نے بصد اصرار ہم لوگوں وہ وہیں رہنے کہا اور شیر باز کو ہم لوگوں کے آنے کی خبر دے دی۔

ائیرپورٹ کے کالے شیشوں کے باہر کراچی کی نمناک رات نے اپنے بچھڑے بیٹے کا گلے لگا کر سواگت کیا اور ہم اوبر میں بیٹھ کر دھندلاتے ستاروں اور برقی قمقموں کی مصنوعی جگمگاہٹ کے درمیان سفر کرتے ہوئے، مٹتے نقوش اور رنگ اتری چادیواری پر مشتمل اداس کوٹھی کے زنگ آلود پھاٹک پر اوبر سے باہر آئے، جہاں کمسن پٹھان چوکیدار اپنی روایتی مستعدی سے چوکس کھڑا ہمارا منتظر تھا۔ صبح میں نے کوٹھی کا تفصیلی جائزہ لیا اور قیصر کو اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا کہ کوٹھی ہماری ضرورت سے بہت زیادہ بڑی ہے سو ہم لوگ کوٹھی سے ملحق اینکسی میں منتقل ہوجائیں گے۔ مجھے کاٹیج کے طرز پر بنی اینکسی پہلی نظر میں بھا گئی تھی، اوپر دو بیڈ روم اور نیچے ایک کشادہ ڈرائینگ روم، اسٹڈی اور بڑا سا روشن ہوا دار کچن اور کچن کی مغربی دیوار میں باغ کی جانب کھلتی کھڑکی جس کے ساتھ لگی دو آدمیوں کی ڈائننگ ٹیبل، بالکل پکچر پرفیکٹ۔ یہ اینکسی ہمارے لئے آئیڈیل تھی۔ باغ فی الحال اجڑا ہوا تھا، خیر دیکھا جائے گا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ میں شیر باز کے ساتھ مل کر اینکسی کی صفائی ستھرائی میں جت گئی  اور مہینے بعد یوں لگا جیسے جنموں جنم سے یہیں رہتے آئے ہیں۔

اینکسی کا ایک مقفل دروازہ جس پر ایک کہنہ تالا جھولتا رہتا تھا پہروں  مجھے متجسس رکھتا۔ آخر کار میں نے مسعود سے اجازت لیکر اس اسٹور کو کھولا جہاں کچھ بہت پرانے فرنیچر اور کتابوں کے کارٹن تھے۔ وہاں سے ایک قدرے بہتر حالوں میں روکنگ چیئر اور کتابوں کے کارٹن کی تلاشی پر کچھ کتابیں اور ایک بوسیدہ چمڑے کی بھوری پڑتی جلد والی ڈائری اٹھا لائی۔ گزشتہ کل برستی بارش کی مدھر رم جھم میں برآمدے میں روکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے گرما گرم بھاپ اڑاتی کافی کے ساتھ میں نے کسی مقدس صحیفے جیسی عقیدت کے ساتھ بھوری بوسیدہ چرمی ڈائری کھولی اور۔۔۔
میرے سامنے دھندلے اور کہیں کہیں سے مٹے الفاظ میں مختلف تاریخوں میں روداد دل تحریر تھی اور نیلے لفافوں میں کچھ ذاتی خطوط اور دو آفیشل خط بھی۔ خوشنما تحریر ہجر کے سوز میں سلگتی نا انصافی پہ نوحہ کناں تھی۔ جگر تھام کے آپ بھی میرے ساتھ ساتھ پڑھیں۔

20 مئی 1970

میرے خدا میری سمجھ سے یہ معمہ بالاتر ہے۔

یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس بھی بڑا اور مہیب سوال کہ  “کیوں ہو رہا ہے”۔ میں نے اپنی تمام سروس میں ایمان داری کو ترجیح دی اور راست بازی کو پہلااصول رکھا، میری سروس کے ٹریک ریکارڈ اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔ مری پچھلی تمام سروسز مری، سیالکوٹ، منٹگمری، ڈیرہ غازی خان اور جہلم سب میری صلاحیتوں اور شب و روز کی محنتوں اور کاوشوں کے گواہ ہیں پھر اب لاہور میں ایسا کیا کر دیا میں نے ؟ پچھلے سال ہی تو مجھے تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا تھا۔ اب اس جرنیلی دور میں جب قانون کی گرفت زیادہ مضبوط ہونی چاہیے تھی ایک ناجائز کام کو روکنے اور بریگیڈیئر کے بہنوئی کی رشوت قبول نہ کرنے کے پاداش میں اس بد ہیبت اور زندہ پھڑکتے تھرکتے گوشت کے شیدا اور ساغر و مینا کے رسیا جرنیل نے مجھے معطل کر دیا، اور معطلی بھی بد عنوانی کے الزامات کے ساتھ۔ نیا نیا مارشل لاء تھا اور تازہ تازہ کرسی کے نشے میں مدہوش اس نشئ نے بیک جنبشِ قلم 303 بیوروکریٹ کو برطرفی کا پروانہ پکڑا دیا ۔
میں نے1950  میں ہندوستان سے خالی ہاتھ ہجرت کی اور پاکستان میں کسی بھی قسم کی جائیداد کلیم نہیں کی۔ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے سرشار یہاں اپنی ذہانت اور محنت کے بل پر مقابلے کا امتحان پاس کیا اور اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا۔ اب میری ذات کا سارا مان اور بھرم بھاری جرنیلی بوٹ تلے کچلا گیا اور آج میں کرپٹ اور بدنام آفیسر گنا جاتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

21 مئی 1970

تو بھی نہ کہیں اجڑ کر رہ جائے
وحشت میں بدل نہ جائے دستور

اے ملک تیرے بہت سے شہری
بن باس پہ ہو نہ جائیں مجبور
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
5 جون 1970

میرا بھیانک سفر جاری ہے، جسے میں کسی اندھیری سرنگ میں ہوں جہاں روشنی کی کوئی کرن نہیں۔ یہ خیال مجھے رات دن ڈستا ہے کہ میں کسی کام کا نہیں اور یہ تصور ہی روح کا آزار ہے۔ مانو کہ ایک میخ ہے جو سینے میں گڑی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں نہیں آ رہا اور میں عرصے دراز سے اپنی تنہائی کا قیدی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

29 جولائی1970

جان پدر ۔
تمہارے اسکول کے ساتھیوں کے تعارف اور تمہاری سائیکلنگ کی مشق کی روداد نے مزہ دیا۔ مجھے تم تینوں کی جدائی بہت شاق ہے اور تم تک پہنچنے کا شدت سے تمنائی۔ سوچو وہ کیسا خوشیوں بھرا دن ہوگا جب ہم ماضی کی طرح اکٹھے ہوں گے۔
تمہاری مما بتا رہیں تھیں کہ جرمن زبان کے مضمون میں تمہاری تئیس غلطیوں کی نشاندھی کے سبب تم پہروں  روتی رہی۔جان پدر بھلا یہ کوئی رونے کی بات ہے؟ نئی زبان سیکھنا ایک دقت طلب امر ہے اور یہ کڑا صبر اور کامل لگن مانگتا ہے۔ یہ کیا کم خوشی کی بات ہے کہ تم نئی  زبان سیکھ رہی ہو اور جلدی ہی اپنے بل بوتے پر نئے افق کی اڑان بھرو گی۔ اداس مت ہو میری پیاری بلکہ پوری بہادری کے ساتھ جس کا تم تینوں نے اب تک مظاہرہ کیا ہے، اسی ہمت کو بروکار لاتے ہوئے خوش رہو بلکہ چڑیا کی طرح مگن چہچہاؤ، خوش گوار نکھرے دن کے سورج کی طرح روشن اور اٹکھیلیاں کرتی ہواؤں کی طرح سرشار رہو۔ میری جان غلطیوں پر رویا نہیں کرتے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہو کر فتحیاب ٹھہرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14اگست 1970

Advertisements
julia rana solicitors

کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوار وطن
کبھی کبھی تجھے تنہائیوں میں سوچا ہے
تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply