پروفیسر ایاز کیانی کے آثار قلم/ جاوید خان

مدت مدید ہوئی ایک دوست نے گاؤں پاک گلی سے شادی کی۔ہماری پہاڑی اور قدیم رسم کے مطابق میں شادی کادوست ٹھہرا۔رات دوست کو گانا(راکھی ) باندھنے کی رسم ہوئی اَور صبح سویرے ہم دونوں کو ایک کمرے سے اٹھاکر تیار ہونے کاحکم دیاگیا۔دولہامیاں اَور میں ایک بڑی بارات کے ساتھ گاؤں پاک گلی جاپہنچے ۔گھنٹے دوگھنٹے بعد ہم ڈولی لے کر دولہا میاں کے گھر روانہ ہوئے۔ٹھیک دو چار دنوں بعد دوست نے کہاتمھاری بھابھی کے ساتھ پاک گلی جاناہے تم بھی چلو۔شام ڈھلے پاک گلی پہنچے ۔مہمان داری ہوئی ۔دوست نے رات کو ایک طرف لے جاکر کان میں کہادیکھو تم صبح چلے جانا میں ذرا ٹھہر کے آؤں گا۔اس کے بعد دوست اَور میں اتفاقاً ہی مل پائے۔سناہے ہر دلہا شادی کے بعدزیرِ زمین ہوجاتاہے۔یہ ایک طرح کی گوریلہ کارروائی ہوتی ہے۔اَور پھر ٹھیک جب بالوں میں چاندنی اُتر آجانے پر گوریلے زیر سے زبر ہوتے ہیں۔تب زمانہ بہت بدل چکاہوتاہے۔

ہاں بات پاک گلی گاؤں کی ہورہی تھی۔صبح سورج نکلے میں صحن میں چہل قدمی کررہاتھاکہ  اوپر پڑوس کے گھر سے ایک نوجوان باہر نکلے، ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی ۔وہ تیز ی سے کہیں جارہے تھے۔میں نے سلام کیاانھوں نے جواب دیا۔خلافت و ملوکیت نامی سید مودودی ؒ کی مسلمانوں میں یہ متنازع  کتاب کچھ عرصہ پہلے ہی پڑھ چکاتھا۔یوں ہی کتاب کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیاتو بولے ابھی پڑھ رہاہوں ۔دیر ہورہی ہے داتوٹ کالج جارہاہوں ۔پھر کبھی ملاقات ہوگی۔پروفیسر ایاز کیانی صاحب سے یہ میری پہلی زبانی و نظری ملاقات تھی۔

دوسری ملاقات گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کے ہال میں ہوئی۔میں بی اے کے  پرچے دے رہاتھا ۔ پروفیسر موصوف ہم سب کی نگرانی و نگہبانی پر مامور تھے۔محتاط لہجے میں تعارف ہوا۔وہ ذمہ داری نبھارہے تھے اورمیرے آگے والے ایک طالب علم سے سعادت حسن منٹو پر کچھ دیر بات کی ۔سوالنامہ تقسیم ہونے لگااور وہ اپنی جگہ پر چلے گئے۔تیسری ملاقات پہلی دو ملاقاتوں کے مدنظر شہر میں ہوئی ۔پروفیسر صاحب نے میری چائے  کی دعوت قبول کرکے مجھے عزت بخشی ۔

پروفیسر ایاز صاحب پچاس کی عمر میں بھرپور جوان ہیں اور پُرمسرت جیون جی رہے ہیں۔ہمیشہ استری شدہ کپڑے ،ان کے رنگ کے مطابق واسکٹ ،چمکتے جوتے اور سیاہ کالے اجلے بال ۔شباب ان پر ہمیشہ سے مہربان چلاآرہااور آج بھی مہربانی کیے ہی جارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہم عصر اورسجن انھیں رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔شک ہے کہ کوئی کوئی انھیں ترستی نگاہ سے بھی دیکھتاہوگا۔ان کے حلیے میں سادگی ہے اور مزاج میں بھی۔اس سادگی میں جاذبیت ہے۔پروفیسر صاحب اُردو (مضمون ) پڑھاتے ہیں۔صحت املا ء کاایسے لحاظ رکھتے ہیں جیسے میزبان کسی خاص مہمان کا۔

پروفیسر اب تک دو کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔پہلی کتاب ‘‘تماشااہل کرم ’’ملک پاکستان کااندرونی سفرنامہ ہے۔معلومات سے بھرپور ،روداد سفر جو شہر راولاکوٹ سے شروع ہو تی ہے اور کوئٹہ سے ہوتی ہوئی کراچی کے ساحل پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔اردو سفرنامے نے اپنے سفر میں نئے خدوخال اپنائے  ہیں ۔یہ عالمی اور قدیم صنف ادب ہے۔اس کے کئی رنگ ہیں اور جہتیں ہیں۔ایاز کیانی صاحب نے اپنی اس پہلی تصنیف میں حال کے خارجی ماحول کو منظر بند کیاہے۔

ہم آج سے تیس سال قبل بیڈ فور ڈ بسوں پر سفر کرتے تھے۔اب وہ سواریا ں کسی میوزیم میں بھی خال خال پڑی ہوں گی۔راولاکوٹ سے کراچی تک یہ سب لوگ آج سے سو سال قبل نہ تھے۔نہ یہ ماحول تھانہ یہ شہر اور نہ ہی یہ جدت ۔ وقت کاگھوڑا سبک رفتار ہے ۔وہ کسی کے قابو میں نہیں آتا،راولاکوٹ اور پرانے کراچی کاحال احوال یاتو سنی سنائی کہانیوں میں ملتا ہے نہیں تو کچھ کچھ تصویروں میں یاپھر کتابوں میں ۔اس سفر نامے میں آج کازمانہ منظر بند کیاگیاہے۔جو یقیناً آج سے ٹھیک پچاس سال بعد بالکل ایسانہ ہوگا۔

پروفیسر صاحب کی دوسری کتاب شخصی خاکوں یاشخصیت نگاری پر مشتمل ہے۔‘‘لوگ اَور لوگ بھی کیسے کیسے ’’پورے 39 لوگوں کی شخصی زندگیوں کی جھلک پیش کرتی ہے۔ناول ،افسانے اَور دیگربہت سی نثری اصناف کی طرح خاکہ نگاری نے بھی انگریزی ادب سے تحریک پکڑی ۔انگریزی میں جس صنف ادب کو character sketch کہتے ہیں ۔مانا جاتا ہے کہ سب سے پہلے فلسفی نما امریکی لکھاری جوزف ہال نے virtues and vices لکھ کر اس کی بنیاد رکھی ۔تقریباً ایک صدی تک اس کتاب پر کسی نے سرسری نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔لیکن پھر پوری ایک صدی بعد اسے نہ صرف سراہایا جانے لگابلکہ اس کی تائید میں مزید شخصی خاکے لکھے جانے لگے۔اردو میں اس صنف نے باقاعدہ ترقی کی اور ارتقا سے گزری اور آج بھی گزر رہی ہے۔اس (صنف ) میں تنوع ہے۔یوں لگتا ہے جیسے انگریزی زبان کی طرح اردو میں بھی خاکہ نگاری نے مخصوص سانچوں کو توڑاہے۔یہی وجہ ہے کہ شاید احمد دہلوی ،مولوی عبدالحق ،منٹو اور رشید احمد صدیقی سمیت کئی خاکہ نگاروں کے کام میں انفرادیت زیادہ ہے یکسانیت کم کم ۔منٹو اور پروفیسر داؤد رہبر کے خاکوں پر کئی لوگ تذبذب میں پڑے ہیں کہ یہ خاکے ہیں بھی یانہیں ،اگر نہیں تو پھر کیاہیں۔؟

پروفیسر ڈاکٹر داؤد رہبر کی کتاب ‘‘پراگندہ طبع لوگ ’’ ایک شاہکار ہے۔مگرانتظار حسین صاحب نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ دا ؤد رہبر کے اس کام کو کون سانام دوں ۔مستنصر حسین تارڑ صاحب کاکام سفرناموں ،ناولوں اور ڈراموں پر مشتمل ہے۔لیکن ان کے بعض ہم سفروں کا انھوں نے جو تذکرہ لکھا ہے ۔وہ نثری سطور اور اقتباسات شخصی خاکوں کی صف میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔بالکل ایسا ہی قراۃ العین حیدر کے ساتھ بھی ہے۔حیدر آباد بھارت میں ان کی خاکہ نگاری پر الگ سے مقالے اور مضامین لکھے گئے ہیں ۔دراصل جب ہم ایک ناول ،افسانہ یہاں تک کے آپ بیتی یاسوانح نگاری کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہی کردارنگاری بھرپور انداز سے نظر آتی ہے۔یوں کہ َسکتے ہیں کے انگریز فلسفی جوزف ہال نے سن سولہ سو( ۱۶۰۰) میں ویرچوز اینڈ وائسسز میں یہی کردار نگاری نکال کر الگ صنف کی بنیاد رکھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پروفیسر صاحب کاخاکوں پر مبنی کام اسی ارتقا اور تنوع کی کڑی ہے۔خاکہ ‘‘میری اماں ’’ میں اس عہد میں جیتے تیس سال سے اوپر کی ساری نسل کی ماؤں کی جھلک ملتی ہے۔ہماری پہاڑی اور دیہی زندگی میں ماؤں نے جو مشقتیں اٹھائی ہیں ۔ان پر صرف ایک آدھ خاکہ آٹے میں رتی بھر نمک کے برابر بھی نہیں ۔پروفیسر ایاز باقی اڑتیس خاکے نہ بھی لکھتے صرف میری اماں ہی لکھا ہوتا تو کافی تھا۔سردار کبیر خان صاحب کانکی بے جی ،پروفیسر ساحر صاحب کادیبائے حیات میں اپنی ماں جی کے مختصر خاکے کے بعد پروفیسر ایاز ہیں جنھوں نے پہاڑی زندگی میں مشقتوں میں جیتی ایک ماں کا ذکر کیاہے۔یہ مائیں ہم سب کی سانجھی مائیں ہیں۔جو اگلے وقتوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہونے جارہی ہیں۔یہ ماں قمررحیم کی ہو،پروفیسر ساحر صاحب کی ہو،ڈاکٹر صغیر خان صاحب کی ہو،پروفیسر مظہر اقبا ل اور ظفر اقبال کی ہو،ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب کی ہو ،میری ہو یاایاز کیانی صاحب کی ۔اس خاکے میں اس عہد کی ہر پہاڑی ماں کی جھلک نظر آگے گی۔قربانی دینے والی ،سجرے پانیوں سے نور پیر ویلے لسی بلونے والی ،اپلوں کی آگ پر کھانا پکانے والی اور خود خالی پیٹ رہ کر بچوں کو کھلانے والی ۔دیگر ناموں میں پروفیسر ساحر صاحب،قاسم بن حسن صاحب،ڈاکٹر ممتاز صادق صاحب،پروفیسر شمیم کیانی صاحب میرے اساتذہ ہیں ۔مصنف نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔کچھ ادھورہ پن کچھ کمی موجودہے۔ہاں ممتاز صادق صاحب کے بارے میں ٹھیک لکھا ہے کہ ان کے اندر ایک مزاح نگار چھپابیٹھاہے۔ڈاکٹر صغیر صاحب کو راولاکوٹ کاگھنٹاگھر لکھنے کے بجاے پہاڑی ادب کاگھنٹاگھر لکھاجائے تو زیادہ مناسب ر ہے گا۔کتاب کاچالیسواں خاکہ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب کاہوناچاہیے تھا۔شاید مصنف نے کسی اور دوست کے لیے یہ کام چھوڑ دیاہو۔پروفیسر صاحب کے تیور دیکھ کر لگتاہے کہ انھوں نے قلم ہی لے کر چلنے کاتہیہ کررکھا ہے۔ہم ان کے قلمی سفر میں مزید کامیابیوں کے لیے دل سے دعاگو ہیں۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply