الفخرو عرف سامانِ تسکینِ فیلِ مست ۔۔ خنجر عظیم آبادی

اے برقی کھاتوں کے نکتہ ساز ! خیالِ خنجرِ جاں گداز ! تعویذِ دل ! شاگرد کامل!حکمِ خداوندی ہے، نہ میں پیر مغاں نہ مجھے شوقِ رندی ہے۔ مالک کائنات کا حکم واجب تعمیل ہے۔ واقعہ عجب بلکہ عجب العجائب کہو، اے خنجر کے صاحبو ہمہ تن گوش بنو۔ تمہارا نظام عصبی فراموش کنندہ شاید ہو ابھی زندہ۔ یاد تو ہوگا تمہیں وہ بندہ جسے جانتے ہیں خاص و عام چمروالدین مارفی عرف کالاناگ کے اسم و صفت سے، تازہ قصہ ہے اسی منحوس، ناہنجار، بھجنگ عجیب، عقل سے غریب چمرو بد نصیب، جاہل الاجہل کا۔ قصہ کیا ہے حقیقت ہے۔ اس واقعہ دلدوز کو جان دنیا عبرت پکڑے گی لیکن چمرو شاد ہے، ملے چند سکوں کی دے رہا داد ہے۔ ایسے عیار بے مراد، فطری جعلساز، دروغ گو کی روداد بیان کرتا ہوں اور خداوند قدوس کے جلال اور آخرت کی سختیوں سے پناہ مانگتا ہوں۔

عجب الٹا زمانہ اور اوندھی عقل کے لوگ ہیں ۔ خر خراسانی کو سر پر چڑھاوے ہیں ۔ مسند پہ بٹھاوے ہیں ۔ اے عظیم آباد کے تہذیب دانو ، کہاں بندھک رکھ دیا دماغ  اعلیٰ ، یا اس پر لگا چکے مستقل تالا۔ یہ نابکار ہے بڑا پاجی ۔ میاں یہ مسخرہ گالیاں بکنے ،امراء و رؤسا کو برا بھلا کہنے ، محفل میں نیچا دکھانے اور کلمات فحش ناملائم کو اپنا جوہر خاص گردانتا ہے ۔ اس مردود کا شیوہ ہے کہ جس کسی کو اپنے سے افضل اور اشراف پایا لگا اسکی ہجو کرنے ۔ بدگوئی، چغلی اور جعل بیانی اس کا شیوہ ہے اور زبان سیاہ سے اڑانا خاکہ کسی کا اس کا دل پسند میوہ ہے۔ کوسنے ،گالیوں ،بدتہذیبیوں سے ہی اس مسخرے مچھندر کی روزی روٹی کا سامان پیدا ہوتا ہے ۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ مسخرے کو مسخرے ہی پسند کرتے ہیں ۔ وگرنہ کوئی  ثقہ اور دوراندیش بالغ العقل اس جہل کی گفتگو سن کر بجز لاحول کے اور کچھ نہ کہے گا ۔ اس حشرات الارض کو سزا نہ دی گئی  تو انتہا کی بدتمیزی شہر عظیم آباد میں فروغ پاوے گی ۔

اے سنجیدہ ثقات کے پردہ گوش اے میاں اشرف فرید شاباشی ہے تم پہ کہ بر وقت عقلمندی دکھائی  اس نظفہ ناتحقیق ،شہدے، مسٹنڈے پہ لاحول پڑھی، ایکشن کمیٹی اور اخبار سے باہر کی راہ دکھائی  ۔ اب ہے اس مردود کی شامت آئی  ۔ اس جھوٹے ، بےِحیا، بےشرم کو چلّو بھر پانی میں جاکے ڈوب مرنا چاہیے ۔اس کی ناہنجاریاں اسے خود ذلیل و خوار کرتی ہیں ۔
یہ بات علمِ خاص و عام ہے کہ یہ چتکبرا گدھا مال مفت کھانے میں ہے ماہر بڑا ۔ جہاں شادی کا شامیانہ دیکھا باراتیوں کے ساتھ ناچتے گاتے محفل میں شریک ہوا ، حلق تک حلوہ پوری بریانی ٹھونس کر موقعہ محل دیکھتے ہی سرک گیا ۔

پچھلے ماہ ایک رئیسِ شہرِ عظیم آباد کی بیٹی کی شادی خانہء آبادی کی منادی شہر بھر میں پھری ۔ چمروالدین مارفی نے جیسے ہی یہ خبر سنی ۔ گٹھری میں سے ہزار بار کا پہنا ہوا جگہ جگہ سے مسکا ہوا مہارت سے رفو گری کیا ہوا اپنا پرانا خستہ سیاہ سوٹ نکالا ،پہنا ،رخ سیاہ پہ سرسوں تیل ملا اپنی دانست میں چہرہ چمکایا ،سرمہ لگایا کنگھی کیا اور شادی خانے کی طرف روانہ ہوا ۔
وہاں پہنچا تو دیکھا ۔ ہر سمت سامانِ شادمانی و اسبابِ کامرانی مہیا ہے ۔نسرین بدن ، مہوشان غنچہ دہن کا جھرمٹ ہے ۔ جوان ،بانکی ،رنگین ،خوبرو ،ماہِ لقا ،طرار ،خوش پوش خواتین کا جھمگٹا ہے ۔ چہار جانب گل بانگ ،مبارک باد اور صدائے تہنیت بلند ہے ۔ اشتہاء انگیز کھانوں کی خوشبو دور دراز تھی پھیلی ہوئی ، چمرو کے شکم کے خندق میں بھوک نے زقند بھری ۔ یہ میزبانوں کی نگاہوں سے بچتا بچاتا کتراتا ہوا اندر داخل ہوا، سیدھے کھانے کی میز پہ پہنچا جھٹ پیٹ کے جہنم کو بھرنے لگا ۔

ادھر دروازے پہ بارات تھی لگ چکی ۔ دولہا ہتھنی پہ بیٹھا شرمائے جاتا سالیاں ہنسی ٹھٹھولی دھینگا مشتی کرتی جاتیں ۔ محفل زعفران زار تھی ۔ بزم طرب کی کیفیت جشنِ جمشیدی سے بھی ہزار چند تھی ۔شہر کے علم موسیقی میں یکتا موسیقار بلائے گئے تھے ۔ ایک ایک تان پہ وجد کا عالم تھا ۔ ایک جانب انگریزی باجا بھی بج رہا تھا ۔ ڈھول نگاڑے کی آواز سے کان پڑی آواز نہ سنائی  پڑتی ۔

ہتھنی پہ ماحول کی رنگینی کا اثر ہوا اچانک ہی اسکی گرمائش میں اضافہ ہوا ۔ شہوت کا غلبہ ہوا ۔ خواہشِ مباشرت سے بوکھلائی پریشان ہوئی  اور سونڈ اٹھا کر ایک چنگھاڑ ماری ۔ ہتھنی پہ بیٹھے مہاوت پہ یہ دیکھ کر بجلی گری ۔ تھا برسوں سے مہاوت گری میں طاق ۔زیرک،دور اندیش اور بلا کا عقل مند ۔ اسے ہتھنی کے ہر ایک سلوک سے واقفیت تھی ۔ بڑا پریشان ہوا ،گھبرایا حواس باختہ ہوا ۔ یہ کون سا وقت ہے آ پڑا کہاں سے لائے ہاتھی کیسے کرے اس مصیبت سے مقابلہ ۔

چاروں طرف نگاہ دوڑائی  تو ہاتھوں کے طوطے اڑنے لگے ۔ جدھر دیکھو جم غفیر تھا ۔ ہتھنی بھڑکی تو نہ جانے کتنے پاؤں کے نیچے کچلے جاویں ۔ کچھ مر جاویں کچھ لولے لنگڑے اپاہج ہو جاویں ۔ عجب حال تھا غضب کی مشکل تھی ۔ ہتھنی آپے سے باہر تھی ۔ دیر ہوتی تو شادی کا گھر ماتم کدے میں بدل سکتا تھا ۔ یہی وقت تھا جب یہ رو سیاہ ، خانہ خداوندی کی بدترین مخلوق ڈکاریں مارتا ،پیٹ پہ ہاتھ پھیرتا ،منہ میں چٹخارے بھرتا، دانتوں میں خلال کرتا باہر نکلا۔

اے کتاب چہرہ کے متوالو اے برقی کھاتوں کے رکھوالو ذرا اس بدہیبت ، خارجِ جامہ انسانیت ،سیاہ گوریلے پہ غور کرو تو یہ سراپا اعضائے خاص الفیل نظر آوے ہے۔ سر کاہے کو ہوا گول ایسا کہ “سپارہ” فیل مست ۔ مہاوت کی نگاہ جیسے ہی اس عفریت پہ پڑی ایک برق سی کوندی چمکی لہرائی  ۔ دو مسٹنڈے باجے والوں کو قریب بلایا پھسپھسایا اور چمرو کی جانب اشارہ کیا ۔ آن واحد میں چمروالدین تھاانکی گرفت میں ۔ لاکھ زور لگایا، تڑپا، پھڑ پھڑایا مگر اپنی گردن انکے آہنی شکنجے سے نہ چھڑا پایا ۔

بڑی بے دردی سے اسکے کپڑے اتارے گئے ۔مہاوت نے بھجار خانے سے تیل منگوایا چمرو کے جسم پہ مسٹنڈوں نے بہ زور ملا ۔ الف ننگا چمرو روتا تھا گڑگڑاتا تھا پر کوئی  پُرسان حال نہ تھا ۔ اسے لگا مفت کے کھانے کا واقعہ کسی نے دیا بتا میزبانوں نے دی ہے سزا مگر حقیقت تھی منفرد تھا الگ ماجرا۔

ایک مسٹنڈے نے سر تھاما اور دوسرے نے ٹانگ پکڑی نیزے کی مانند سیدھا کیا اور ہتھنی کے اعضائے خاص میں مشاقی سے دیا گھسا ۔ ہتھنی نے ایک مدمست چنگھاڑ ماری اور لگی جھومنے ۔ ایک بجلی کا تار بھی لایا گیا چمروالدین کے جسم سے لگایا گیا تاکہ بجلی کا جھٹکا لگے تو یہ ذرہ بے مقدار کانپے ،تھرتھرائے پھر ہتھنی کو لطفِ خالص آئے ۔ یہ عمل سینکڑوں مرتبہ دہرایا گیا چمرو الدین برق کی تیزی سے سالم اندر باہر آیا گیا ۔ گھنٹے بھر بعد ہتھنی سرد ہوئ ٹھنڈک پڑی شانت ہوئ تب مہاوت کی جان میں جان آئی  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادھر چمروالدین بے دم ہوا بے سدھ ہوا سارا کھایا پیا بےکار گیا ۔ بھری محفل کے سامنے یہ ماجرا ہوا ۔ اب نہ جانے کیا بھد پٹے عظیم آباد کی گلی کوچوں میں یہ خبر نہ اڑ پڑے ۔
مہاوت نے جوں ہی اسکے ہاتھوں میں چند نوٹ تھمایا چمرو کی ساری فکر سارا درد غائب ہوا ۔ مہاوت سے بولا بھیا جب بھی ہتھنی گرمائے مجھے بلا بھیجیو ۔ بس التجا اتنی ہے رفتار کم رکھیو ، اس بندہء ناچیز کو ذرا دھیرے اندر باہر کیجیو ۔
ہش، ہش، ہش
اے جانِ جگرانِ خنجر، یہ ہش تمہارے واسطے نہیں بلکہ سگِ عجیب، ناگ بے ترتیب، بھجنگ چمرو کے واسطے ہے۔ نظر آوے ذلیل تو ہش کہیو ۔ اس مارِ سیہ کے سائے سے بچیو۔ نجس ہے، قابل نفرین ہے۔ اس کے واسطے آسماں نہ زمیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply