گئے دنوں کی یادیں (4)۔۔مرزا مدثر نواز

نوّے کی دہائی کی یادیں : بچے اتنے صاف ستھرے نہیں ہوتے تھے جتنا کہ آجکل کے‘ صرف چھوٹا سا جانگیا پہنے‘ چہروں پر مختلف نشانات سجائے گلیوں میں دندناتے پھرتے‘ مٹی یا ریت میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے تو کبھی نالیوں میں اپنے ہاتھ مار رہے ہوتے‘ پاؤں اکثر شیشہ لگنے یا کانٹے لگنے سے زخمی ہوتے کیونکہ جوتے پہننے کا کوئی رواج نہ تھا‘ موجودہ دور میں ہم کسی بچے کا مسلسل ناک بہتا نہیں دیکھتے جبکہ ان دنوں تو ہمارا میٹرک تک ناک ہی خشک نہیں ہوتا تھا‘ کچھ بچوں کا تو ناک سے نیچے پرنالہ بنا نظر آتا تھا۔

گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں کے دوران ٹیوشن کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا‘ بچوں نے خوشی خوشی چھٹیوں کے کام کا رجسٹر خریدنا اور کام لکھنا شروع کر دینا‘ کچھ تو چند دنوں میں ہی کام مکمل کر لیتے‘ کچھ آخری ہفتے میں یہ کہتے ہوئے کام مکمل کرنے کی کوشش کرتے کہ چھٹیاں اتنی جلدی گزر گئیں پتہ ہی نہیں چلااور کچھ مکمل نہ کر پاتے جن کو سکول جانے کے بعد دو یا تین دنوں کا مزید وقت مل جاتا۔

یہ ناممکن ہے کہ بچے ہوں اور شرارتیں نہ کریں لہٰذا ان کو صبح ہی سے باہر دھکیل دیا جاتا کہ جاؤ جا کر کھیلو اور گھر والوں کو تنگ نہ کرو۔ موجودہ دور کے مقابلے میں بارشیں زیادہ ہوتی تھیں اور ساون کے وہ کالے بادل تو اب نظر ہی نہیں آتے‘ پورا سال چھوٹے چھوٹے گڑھے و جوہڑ پانی سے بھرے رہتے جن میں بچے کودتے اور مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے۔ جب کبھی بارش نہ ہو رہی ہوتی تو بچوں نے دوپہر کے وقت اپنے گھروں سے پانی کے برتن بھر بھر کر گلیوں میں سے گزرتے لوگوں پر پھینکنا تا کہ اللہ پاک جلدی بارانِ رحمت سے نوازے اور گرمی میں کچھ کمی واقع ہو‘ عجب بات ہے کہ جن پر پانی پھینکا جاتا وہ کبھی برا نہ مناتے اور کئی پانی سے بچنے کے لیے دوڑ لگا دیتے۔ جب بارش ہوتی تو بچے گلیوں میں شور مچاتے‘ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے‘ مختلف القابات سے نوازتے اٹکھیلیاں کرتے‘ بعد میں گاؤں سے دور بڑے جوہڑوں یا بہتے نالے میں نہانے نکل جاتے اور جی بھر کر نہاتے‘ بارش میں کچی زمین پر پھسلنے اور زخمی ہونے کے امکانات بھی خارج از مکان نہ ہوتے اور کئی حادثات میں بازو‘ ٹانگ ٹوٹ جاتے۔

برسات کے دوران یا بعد میں جسم پرخارش‘ بڑے چھوٹے پھوڑے و پھنسیاں‘ زخم میں پانی پڑ جانا جیسے امراض کی علامتیں بچوں و بڑوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتیں‘ پہلے تو کوار گندل (ایلو ویرا)‘ پیاز کو کوئلوں میں کچھ دیر دبا کر متاثرہ جگہ پر باندھا جاتا‘ افاقہ نہ ہونے کی صورت میں پھر اگلی منزل بنیادی مرکز صحت ہوتی‘ جس میں ڈاکٹر کے اوقات کار سے کوئی باخبر نہ ہوتا لیکن حقیقت میں پیرا میڈیکل سٹاف ہی ڈاکٹر ہوتا تھا‘ میز پر کچھ پلاسٹک کے ڈبے پڑے ہوتے جن میں مختلف رنگوں کی گولیاں اور کیپسول ہوتے‘ جو مریض بھی چیک اپ کے لیے آتا‘ ہر ایک کو انہی ڈبوں میں سے گولیاں اور کیپسول نکال کردے دیے جاتے‘ انجکشن کے لیے ایک ہی سرنج پتہ نہیں کتنی دفعہ استعمال ہوتی اور واپس گرم پانی والے برتن میں رکھ دی جاتی‘ انجکشن لگنے کے بعد اکثر بازو سوجھ جاتا اور کئی دن تکلیف سے گزرنا پڑتا۔

گرمیوں میں زیادہ آم اور دوسری گرم چیزیں کھانے سے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے جنہیں پِت کہا جاتا جو کہ بہت تکلیف دہ ہوتے‘ گرمی دانوں والا پاؤڈر‘ کریم اور بارش میں نہانے سے کچھ افاقہ ہوتا‘ اس کے علاوہ علاج کے طور پر ڈیٹول کے صابن سے نہانا بھی تجویز کیا جاتا۔سردیوں میں بند جوتے نہ پہننے اور ٹھنڈے پانی سے ہاتھ پاؤں دھونے کی وجہ سے سوجن ہو جاتی جسے خون جمنا اور رَت کا نام دیا جاتا‘ متاثرہ جگہ پر ہر وقت خارش کرنے کو جی چاہتا اور یہ بھی ایک انتہائی تکلیف دہ بیماری ہے جب آپ کے ہاتھ پاؤں گرم ہو جائیں‘ علاج کے لیے گرم پانی میں تیل اور نمک ملا کر اس میں پاؤں اور ہاتھ رکھے جاتے لیکن مکمل آرام گرمیوں کا سیزن شروع ہونے پر ہی آتا۔

بچوں کے بال کٹوانے کے لیے گاؤں کے مشترکہ حجام جسے سیپی کا نام بھی دیا جاتا ہے کی خدمات حاصل کی جاتیں‘ عام طور پر جمعہ کا دن اس کام کے لیے مخصوص ہوتا‘غریبوں کے بچوں کو دکان پر یہ سہولت مہیا کی جاتی جبکہ امراء کے بچوں کو ہوم سروس کی سہولت میسر تھی‘ حجام روز کی زحمت سے بچنے کے لیے ہر ایک کے چھوٹے چھوٹے بال کاٹ دیتا تا کہ وہ اب کافی دنوں کے بعد دوبارہ حاضر ہو‘ مختلف قسم کے بالوں کے سٹائل سے کوئی واقف نہ تھا‘ گرمیوں میں بچوں کے رونے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مشین جو کہ مینؤل ہوتی نہ کہ الیکٹرک یا استرے سے ٹنڈ کر دی جاتی۔ ان دنوں ایک ہی بلیڈ سب پر اس وقت تک استعمال کیا جاتا تاوقتیکہ وہ مزید استعمال ہونے سے خود انکار کر دے‘ ڈیٹول ملے پانی کو کوئی استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیچڑ‘ گندی نالیوں اور دوسرے ایسے ہی مقامات پر ہاتھ مارنے کے باوجود صابن سے ہاتھ دھونے کا کوئی رواج نہیں تھا‘ روزانہ دانت صاف کرنے کا بھی کوئی معمول نہ تھا بلکہ جمعہ کو ایک ہفتہ بعد برش کیا جاتا یا پھر رنگ چڑھانے والے چھلکے (داتن‘ سکڑا) کو پانی میں بھگو کر استعمال کیا جاتا تا کہ ہونٹوں پر رنگ نہ آئے البتہ بڑے مسواک سے دانت صاف کرنے کا کام لیتے تھے۔دانت صاف کرنے کے لیے ڈنٹونک پاؤڈر اور منہ پر لگانے کے لیے تبت کریم استعمال ہوتی۔ کم آمدن والے گھروں میں سن لائٹ (پیلا صابن) یا لائف بوائے صابن بڑی کنجوسی سے استعمال ہوتا جبکہ خوشحال گھرانوں میں لکس‘ ریکسونا‘ کیپری اور تبت سوپ کا استعمال ہوتا‘ ریکسونا سوپ اب ناپید ہے۔جن گھروں کو کوئی فرد بیرون ملک ہوتا تو اس کے گھر امپیریل لیدرسوپ موجود ہوتا اور اکثر تحفے کے طور پر دیا جاتا‘ ان دنوں تحائف میں امپورٹڈ صابن‘ شیمپو‘ گھڑیاں‘ پین‘ پرفیوم‘ لانگ بار ببل گم عام طور پر شامل ہوتی تھیں۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply