ہاۓ میرا کوٹا۔۔عاصم کلیار

جہاز میں بغیر سامان کے گنجائش سے کہیں زیادہ مسافر تھے ایک عورت نجانے کن خیالوں میں گم شیشے کے ساتھ والی نشست پر نیلگوں آسمان کو حسرت و یاس سے مسلسل دیکھے جارہی تھی ،جہاز نے پہلے حرکت کی ،پھر رفتار پکڑی اور جیسے ہی طیارہ فضا میں بلند ہوا اس عورت نے سینے کو پیٹتے ہوۓ ایک کرب کے ساتھ کہا۔۔۔ہاۓ میرا کوٹا،میری جنم بھومی،میرا شہر کوٹا
جسے آزادی نام کی چڑیل نے مجھے ہمیشہ کے لیے  چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔

عورت کی آواز پر کون کان دھرتا جہاز میں سوار ہر مسافر یادوں پر غلبہ پانے کی کوشش میں مصروف تھا کوئٹہ سے دہلی جانے والے اس جہاز کے کچھ مسافر مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا نیم مردہ ہوۓ جاتے تھے۔
جہاز میں سوار شاہکنت نندا ہر سال کی طرح دہلی سے کوئٹہ اپنے بچوں سمیت میکے میں گرمیاں گزارنے آئی ہوئی تھی شاہکنت کی بیٹی اور کتاب کی مصنفہ رینا نندہ ماں سے چپکے ہوۓ ہوائی سفر کے خوف سے ہراساں و پریشاں سہمی سی بیٹھی تھی۔
شاہکنت کا باپ راۓ بہادر سوان مل ملک جب 1918 میں جھنگ سے آنی والی ٹرین سے کوئٹہ اسٹیشن پر اترا تو اسے کیا معلوم تھا کہ صرف تیس برس بعد وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی وطن بدری میں جان کی امان پاۓ گا۔
وطن بدر
جان کی امان
یادیں
دوست
وطن بدر بھلا کیسے چین سے جی سکتے ہیں۔

کچھ ماہ پہلے ہر سو آزادی کے نعرے سنائی دیتے تھے پھر تقسیم جیسے وحشی لفظ کی گونج سنائی دینے لگی 14 اگست کی رات بارہ بجے اعلان ہوا کہ بھارت اب انگریز سرکار سے آزاد ہے اور دنیا کے نقشے پر آج سے دو ملک ہندونستان اور پاکستان کے نام سے پہچانے جائیں گے۔
اعلانِ آزادی کے بعد سوان مل نے بطور سرکاری افسر اپنی خدمات مملکت خدا داد کے سپرد کیں۔
انگریز سرکار کا پرچم خواب ہوا 14 اگست کی صبح پریڈ گراونڈ کوئٹہ میں ہلالی پرچم لہرانے کی تقریب میں چیف کمشنر جیفری پریر کے ساتھ عمائدین علاقہ بھی روایتی لباس پہنے ہوۓ سٹیج پر موجود تھے سوان مل سمیت سرکاری افسر ایک قطار میں کھڑے تالیاں بجا رہے تھے خان آف قلات سرکار انگلشیہ کے خلاف بلوچستان کی واپسی کے لیے  کیس دائر کر چکا تھا سر زمین بلوچستان برسوں پہلے اس کے بزرگوں نے انگریز بہادر کو معمولی سی رقم کے عوض ٹھیکے پر دی تھی۔
آزادی،تقسیم
ہر تقسیم نجانے کیوں فسادات کو جنم دیتی ہے آزادی یا پھر تقسیم کے بعد 1947 میں پربتوں کے دامن میں بسا مسکراتا ہوا سر سبز کوئٹہ دلگیر ہوا اس کے باسی دو گروہوں میں تقسیم تھے وحشت اور جنون پاگل پن کی حدود کو چھونے لگا تھا اشرف المخلوقات ملک الموت کا روپ دھار چکی تھی کوئٹہ جم خانہ کلب میں بسلسلہ آزادی ایک ڈنر  برپا کیا گیا سوان مل سمیت دوسرے افسران بھی اس میں شامل تھے بلوائی ڈنڈے اٹھاۓ جم خانہ میں داخل ہوۓ راۓ بہادر مل نے سالن سے بھری پلیٹ چہرے پر انڈیلی حلیہ تبدیل کر کے پچھلے گیٹ سے قدیمی دوست سردار بہادر میر احمد خان کے ساتھ اپنی کار میں سوار ہوۓ سردار میر احمد خان نے سوان مل کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپاتے ہوۓ ان کے ڈرائیور محمد خان سے کہا گاڑی تیز چلاؤ سوان مل کی گاڑی کو پورا کوئٹہ شہر پہنچاتا تھا اگست سینتالیس سے ٹھیک دس برس پہلے سردار سوان مل کا بیل مالک کی محبت میں سرشار ان کو ڈھونڈتا ہوا اسی جم خانے کے گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوا تھا سردار سوان مل نے دور سے اپنے بیل کو اشارہ کیا وہ سرنگوں ہو کر ادھر ہی ساکت ہوگیا وہ بیل ہو کر مالک کی حکم عدولی نہ کر سکا جبکہ بلوائی انسان تھے جو یگوں کا بھائی چارہ فراموش کر کے قاتل بنے پھرتے تھے آدم زاد نجانے کب جینے کا قرینہ سیکھ پائیں گے۔
کیوں نہیں ہوتی سحَر حضرتِ انساں کی رات
حضرت انسان
ذات پات میں تقسیم
تعصب کا کینہ پالے ہوۓ
جنت سے ایسے ہی تو نہیں نکالا گیا تھا۔

اگلے موڑ پر لٹھ برداروں کے ایک گروہ نے گاڑی کو روکتے ہوۓ کہا سوان مل کو نیچے اتارو ،ڈرائیور نے سردار میر احمد کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ وہ کافر گاڑی ان کو بیچ کر ہندوستان جا چکا ہے دوسرے روز کوتوال شہر کو چوک میں ابدی نیند صرف اس لیے  سلا دیا گیا کیونکہ وہ ایک سکھ تھا پھر سوان مل کے دفتر کے کلرک ہیرا لعل کو پتھر مار مار کے قتل کر دیا گیا سوان مل کے بیٹے کرشن کی جان ایک اینگلو ایڈین لڑکی نے بچائی۔

تقسیم،فسادات
کلکتہ سے پشاور تک لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔
شاہکنت کا فوج میں افسر شوہر دہلی سے کوئٹہ سوان مل جی کو تار پر تار بھیج رہا تھا کہ آپ سب لوگ دہلی آ جائیں سوان جی کوئٹہ چھوڑنے پر کسی طور بھی راضی نہ تھے کچھ روز بعد بلوائی پیڑول سے بھرے کنستر لے کر سوان جی کے گھر کو آگ لگانے کے لیے آن پہنچے دوسرے روز شاہکنت کی ماں نے ایک مرتبان میں زیورات رکھے دوسرے کو کھانے کے سامان سے بھرا ،شاہکنت کے شوہر کے کوئٹہ میں مقیم فوج میں کپتان دوست سونی نے شاہکنت اس کی دو بہنوں،ماں اور ایک بھائی کے لیے جہاز میں سیٹیں بک کروائیں، شاہکنت نے ہوائی اڈے جانے سے پہلے نم کے ساتھ بابل کے گھر کا آخری دیدار کیا قدیم ملازم جمعہ خان نے گھر میں لگے درخت سے مٹھی بھر پستہ توڑ کر کچھ کہے بیغر شاہکنت کو دیا ۔شاہکنت ایک ہاتھ میں پستہ اور دوسرے میں بیٹی رینا نندہ کو سنبھالتے ہوۓ ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہوئی سوان مل نے کوئٹہ میں رہنے کو ترجیح دی ان کو یقین تھا کہ حالات جلد سنبھل جائیں گے۔
ہاۓ کوٹا
ہاۓ میرا کوٹا کی سیسکیوں میں ڈوبتی ابھرتی آواز سارے راستے جہاز میں سنائی دیتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوآبہ کے مردم خیز قصبے جھنگ میں بسنے والا رام لعل سہگل شملے کا طرہ اونچا کرتے ہوۓ اپنے منشی منیجر سمیت لہلاتی ہوئی سر سبز فصلوں کا معائینہ کر رہا تھا ڈاکیے  سمیت شہر کے کئی  لوگ رام لعل کی طرف تیز قدم چلتے ہوۓ کھیتوں میں سے گزرتے ہوۓ آ رہے تھے علاقے میں ڈاک بابو ہمیشہ بری خبر ہی لاتا تھا۔
ڈاکیے  نے رام لعل کو سلام کرتے ہوۓ ایک لفافہ تھیلے سے نکال کر ان کے سپرد کیا کانپتے ہاتھوں سے رام لعل نے لفافہ چاک کیا تہہ شدہ کاغذ کھول کر پڑھا شملہ کو درست کرتے ہوۓ اپنی زمینوں کے منیجر سے کہا رمضان میاں بھگوان نے کرم کیا انگریز سرکار نے مجھے سرکاری نوکری کے لیے  منتخب کیا ہے ایک آدھ ہفتے میں مجھے کوئٹہ جا کر رپورٹ کرنی ہے یہاں کا سب انتظام اب تمھیں سنبھالنا ہوگا۔

رام لعل کا معصوم بیٹا جھولے میں پڑا سو رہا تھا بیٹے کی پیدائش کے وقت رام لعل کی بیوی چل بسی تھی گھر کی دیکھ بھال اور بچے کی پرورش کے لۓ رام لعل نے جھنگ کی کھتری برداری میں دیاوتی سے دوسری شادی کرنے میں ہی مصلحت سمجھی۔
دیاوتی سوتیلے بیٹے سے خار کھانے کے علاوہ اگلے جہان بسنے والی سوکن کی روح سے بھی خوفزدہ رہتی وہ کوئٹہ جانے پر صرف اس لۓ آمدہ ہوئی کہ رام لعل کی پہلی بیوی کے منحوس ساۓ سے بھی اسے نجات ملے گی ٹرین نے سیٹی بجائی لالہ رام لعل نے کھڑکھی سے پیچھے رہ جانے والے جھنگ کو دیکھا دیاوتی نے کہا لالہ جی کوئٹہ پہنچتے ہی گاؤ ماتا کا انتظام کرنا تاکہ گھر میں برکت کے علاوہ دودھ مکھن کی بھی فروانی رہے۔

رابرٹ سنڈیمن نے برسوں پہلے انتہائی دانشمندی کے ساتھ بلوچستان نواب قلات سے لے کر انگریزوں کے حوالے کیا تھا کوئٹہ اسٹیشن سے لالہ جی کے خاندان کا مختصر سا قافلہ لیوٹن روڈ پہنچا سر جیکب کے بناۓ ہوۓ سڈیمن ہال کو دیکھتے ہوۓ لالہ رام لعل نے اسی علاقے کے آس پاس اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔
آریہ سماج کا زمانہ ابھی دور تھا اس عہد میں ہندو گھرانوں میں بھی گرنتھ صاحب کا تقدس گیتا سے کچھ کم نہ تھا لالہ رام لعل سہگل روز گوردوارے ماتھا ٹیکنے جاتا جبکہ دیاوتی سورج کی پہلی کرن کے ساتھ تلسی کے پودے کو سلام کرتی لالہ رام لعل وسیع القب سوچ کے حامل انسان تھے مسلمانوں کے ساتھ ملتے جلتے جبکہ دیاوتی چھوت چھات کی قائل تھی بعض ہندو گھرانوں میں پہلے بیٹے کی پرورش سکھ مذہب کی بنیادوں پر کی جاتی تھی دیاوتی نے کوئٹہ میں تین بچیوں کو جنم دیا ایک بیٹا لڑکپن میں ہی فوت ہو گیا تھا دیاوتی نے بیٹے کی لاش پر سینہ پیٹتے ہوۓ کہا ہاۓ او میرے ربا میری سوتن بھلا عورت کہاں وہ تو ایک چڑیل تھی جو میرے جگر کے ٹکڑے کو موت کے سپرد کر کے مجھے ویران کر گئی ۔

دیا وتی کی بچیاں جوان تھیں لالہ جی نے جھنگ برداری میں دو بڑی بٹیوں کا رشتہ طے کیا جھنگ سے آنے والی بارات میں ایک چوڑے سینے والا لمبا اونچا خوبرو سکھ نوجوان سوان مل بھی شامل تھا جس کا خاندان پشتوں سے جھنگ کے سیالوں کا مزارعہ تھا سوان مل کے پریوار کو سیالوں نے ان کی خدمات کے صلے میں ملک کا لقب دیا سوان مل سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھا لکھا بھی تھا رام لعل کی کوشش سے سوان مل گورنر جنرل کا ملازم ہوا اور دربار سرکار میں معتبر ٹھہرا لالہ جی نے سوان گھر داماد بنا کر تیسری بیٹی رامدتی کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔
سوان مل کے ہاں 1919 میں کتاب کی مصنفہ رینا نندہ کی والدہ شاہکنت نے جنم لیا۔
شاہکنت کی ابتدائی تعلیم اور بچپن کا عہد کوئٹہ میں گزرا۔

دوسری لام سے ٹھیک چار سال پہلے کوئٹہ شہر زلزلے کی وجہ سے چند لمحوں میں خاک کا ڈھیر ہوا انسانوں اور جانوروں کی ملبے میں دبی لاشوں سے بو آنے لگی انگریز سرکار نے وبا پھوٹنے کے خوف سے سپیشل ٹرینوں کا بندونبست کر کے بچ جانے والوں کو شہر بدری کا حکم سنایا۔
نہ چھت رہی نہ زمیں
خدائی آفت
پروانہ شہر بدری
لالہ جی اور سوان مل کا کنبہ کوئٹہ سے واپس جھنگ آیا لالہ سہگل نے نئ حویلی تعمیر کی سوان مل بچوں کی تعلیم کے لۓ فکر مند تھا میڑک کے امتحانات سے پہلے سوان مل شاہکنت کو پڑھائی کے لۓ اس کی خالہ کے پاس لاہور چھوڑ کر خود بسلسلہ ملازمت کوئٹہ روانہ ہوا۔

شاہکنت کی خالہ لاہور گوالمنڈی کی ایک کئی  منزلہ عمارت میں کے حصے میں بسنے والے دوسرے کئی  خاندانوں کے ساتھ آباد تھی لاہور شہر اہل پنجاب کے لیے  کسی مقدس مقام سے کیا کم اہمیت رکھتا مادھو لال اور داتا صاحب کی گھنی چھاؤں میں شہر کے باسی امن و سکون سے رہتے بلند و بالا عمارت میں بسنے والے سب خاندان تاروں بھرے آسمان تلے چارپائیاں چھت پر ڈال کر نہ ختم ہونے والی داستان کے گواہ بنتے شاہکنت چھت کے اس اور بانکے نوجوانوں کے ساۓ کو دیکھتی جو کسی پری چہرہ کی تلاش میں بھوتوں کی مانند منڈلاتے رہتے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ گلی میں آنے والے سبزی فروش اوپر سے لٹکاۓ جانے والی ٹوکریوں میں سودا ڈالتے دھوپ کے پہلے پہر کے ساتھ گلی میں برف کے گولے بیچنے والے صدا لگاتے آنگنوں سمیت آسمان بھی سب کا سانجھا تھا مسجد مندر سب ساتھ ساتھ تھے روای کی موجیں رومان پرور اور درختوں کے ساۓ ابھی شاداب تھے۔

لاہور سے دور بہت دور کوئٹہ شہر کا دوسرا جنم دھیمی رفتار سے جاری تھا انگریز سرکار زلزلے کی تباہی کے منصوبہ بندی سے شہر کو بسانے میں مگن تھی پرانے مکینوں میں سے جو بچ گئے وہ اپنے کوچے سمیت شناساؤں کو بھی ڈھونڈتے پھرتے پارسی،ہندو،سکھ اور مسلم ایک یاس کے عالم میں امید نو کے اجالے کو پکڑے پھر سے زندگی شروع کرنا چاہتے تھے رامدتی اور سوان مل کا پریوار پھر سے کوئٹہ آباد ہوا۔
شاہکنت میڑک اور ایف۔اے کر چکی تھی سوان مل نے بیٹی کو بی۔اے میں کینرڈ کالج داخل کروایا رامدتی نے یہ خبر سنتے ہی گھر میں سیاپا ڈالا اور روتے ہوۓ کہنے لگی آگ لگے اس بی۔اے کو لڑکی کی شادی کی عمر پڑھائی کھا گئی  چھت سے بھی شاہنتو کا قد نکلا جاتا ہے اور باپ پڑھائی پڑھائی کی رٹ لگاۓ بیٹھا ہے دو چار روز بعد سوان مل نے بیوی کو تھوڑا جھجھکتے ہوۓ بتایا شاہکنت اب خالہ کے گھر کی بجاۓ کالج کے ہاسٹل میں رہے گی رامدتی نے سینہ پیٹتے ہوۓ کہا ہاۓ میری بیٹی لاہور نگر کے مشینری عیسائیوں کے سپرد کر کے تجھے کونسا چین اور اسے کہاں کا گیان ملے گا وہ کنواری ہی رانڈ رہے جاۓ گی برداری میں کون پٹر پٹر فرنگی زبان بولنے والی سے شادی کرۓ گا نہ وہ چولہے چوکے سے واقف نہ وہ چرغہ کاتنے کے قابل اگر اس کا بیاہ ہو بھی گیا تو اے سوان مل شاہکنت کا گھر مجھے بی۔اے کے بعد بستا ہو نظر نہیں آتا۔

شاہکنت ہاسٹل کی سہلیوں کے ساتھ فرنچ جارجیٹ اور بروکیڈ کی ساڑھیاں پہن کر ہفتہ وار میکلوڈ روڈ کے پکچر ہاؤس میں فلم دیکھنے جاتی کتاب کو ہر وقت آنکھوں سے لگاۓ وہ دنیا کے سب رنگ اور سب حوالے اپنی نظر اور سوچ کے مطابق دیکھنے لگی تھی ہاسٹل میں مقیم لڑکیوں کے ناآسودہ پریم روزمرہ کی گفتگو کا مرکز ٹھہرتے انگریز سرکار کے ملازم اور فوج کے افسر کچی عمر کی سب لڑکیوں کے خوابوں کی تعبیر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصے بعد ایٹم بم جاپان میں پھٹنا تھا اور دو لخت ہندونستان کو ہونا تھا۔
آزادی
تقسیم
تقسیم۔آزادی
یا پھر شائد صرف قتل و غارت
شاہکنت نے جب 1941 میں بی۔اے کی ڈگری لی تو اس وقت دوسری عالمی جنگ کے محاذ پر لڑنے والے لاکھوں فوجی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے جبکہ لاہور کے اخبارات سکندر حیات کا نام سرخیوں میں چھاپنے لگے تھے کنیرڈ پلٹ شاہکنت کوئٹہ میں انگریز افسران کی بیگمات کے ساتھ فلاحی کاموں میں مصروف رہتی۔

تعلیم کے مکمل ہونے کے کچھ عرصہ بعد شاہکنت اپنے میکے کے ساتھ دہلی روانہ ہوئی شادی کی تقریبات سسرال دہلی میں ہونے کی وجہ سے ادھر ہی ہوئیں شاہکنت کے میکے اور سسرال کے ماحول میں فرق زمین آسمان کا فرق تھا وہ دہلی رہ کر کوئٹہ کو یاد کرتی 1945 میں اہل پنجاب کی رسم کے مطابق شاہکنت پہلے بچے کی پیدائش سے قبل میکے روانہ ہوئی سردیوں کی ایک صبح شاہکنت نے کوئٹہ کے ڈیفرین ہسپتال میں کتاب کی مصنفہ رینا نندہ کو جنم دیا نانی نے پیدائش کے بعد رینا کو گاؤ موُت چٹانا چاہا تو شاہکنت نے دو ٹوک الفاظ میں منع کر دیا۔

دہلی کے ساون بھادوں میں جان لیوا حبس سے بچنے کے بہانے شاہکنت ہر سال کوئٹہ یاترا پر جاتی 1947 کے ساون کو وہ دائمی طور پر آنکھوں میں لیے کوئٹہ سے روانہ ہوئی جہاز سے اتر کر اس نے دیکھا دہلی شررنارتھیوں کے قبضے میں تھا سرحد کے اس پار جانے اور آنے والے ایک والے ایک عالم آشوب سے گزرے تھے مگر ان کی کہانی کون سنتا سب اپنی اپنی قیامت سے گزر رہے تھے ایک سکھ نے دہلی کی ایک سڑک کے کنارے مچھلی تلنے کا ڈھابہ لگایا مصنفہ کی نانی نے کہا اے سردار اتنی دیر لگا دی میری مچھلی کب تک تل دو گے اس نے نم آنکھوں کو صاف کرتے ہوۓ کہا بہن جی پہلے آگ لگانا سیکھ لوں دیاوتی سمجھ گئ کہن کبھی اس پراچھا وقت تھا اب مچھلی فروش ہے تو کیا ہوا!
جاہل تخت نشیں ہوۓ
اور رئیس مچھلی فروش بنے
کہاں کی ۔۔۔تقسیم
اور کیسی ۔۔۔آزادی

شام کے ڈھلتے ہوۓ سایوں میں شاہکنت کی والدہ برلا ہاؤس دہلی میں سینکڑوں لوگوں کے ساتھ عقیدت سے بیٹھی گاندھی جی کا واعظ سن رہی تھی پہلے گولی کی مدھم سی آواز سنائی دی پھر لوگوں نے آہ بکا کے ساتھ چیختے ہوۓ کہا باپو کو قتل کر دیا گیا ہے۔
مہاتما
موہن داس کرم چند گاندھی
سارے ہندونستان کا باپ گولی کا شکار ہوا۔
کہاں کی ۔۔۔تقسیم
اور کیسی ۔۔۔آزادی
شاہکنت کی نانی کوئٹہ کے فراق میں دائم آباد پہنچی۔

آٹھ مہینے بعد سردار سوان مل بھی کوئٹہ کو ہمیشہ کے لیے  خیر آباد کہہ کر دہلی آ پہنچا ہندونستان سرکار نے دیر سے آنے ہر سوان مل ملک پر جاسوس ہونے کا دوش لگایا تمام تر حالات کا جائزہ لینے کے بعد سوان مل کو ان کے رتبے سے کم درجے کی نوکری کی پیشکش کی گئی، اسے قبول نہ کرتے تو سوان مل بھی یقیناً کہیں بیٹھے مچھلی ہی تل رہے ہوتے۔
کوئٹہ سے دہلی جانے جہاز میں کوٹا ہاۓ میرا کوٹا پکارنے والی عورت بھلا رینا نندہ کی نانی دیاوتی کے علاوہ اور کون ہو سکتی تھی۔

شاہکنت 1991 میں پاکستان تو ضرور آئی مگر ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے کوئٹہ اور جھنگ کی زیارت نہ کر سکی کنیرڈ کالج کے درشن کیے  پیاسے نین خون روۓ شاہکنت آخری برسوں میں اکثر یہ گانا گنگاتی۔
لنگھ آ جا پتن چناں دا یار

Advertisements
julia rana solicitors london

اور پھر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوۓ کہتی چناب کے پتن پر میرا جھنگ آباد تھا جہاں جنم لینے والی ہیر نے محبت کو امر کیا پھر آنسو کو پونچھتے ہوۓ کہتی مجھے جھنگ جانا ہے مجھے جھنگ لے چلو پھر سینہ کوبی کرتے ہوۓ کہتی ہاۓ جھنگ تیرے سنگ باجھ میری زندگی ویراں ہوئی
مجھے کوئی اپنے سنگ لے جاۓ
ایک بار ہی سہی
جھنگ لے جاۓ۔
ہجرتوں کے دکھ دائمی
کوئٹہ اور جھنگ کے لۓ شاہکنت بائیس خواجہ کی چوکھٹ تیاگ دینے کو تیار تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply