• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اخلاقیات کے بائیو سیکیور ببل میں شگاف۔۔محمد منیب خان

اخلاقیات کے بائیو سیکیور ببل میں شگاف۔۔محمد منیب خان

تہذیب  ایک دو رُخا آئینہ ہے، اس کے ایک طرف فرد کے کردار کا عکس نظر آتا ہے اور دوسری طرف معاشرے کے اجتماعی کردار کاعکس نظر آتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی کردار ہی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرہ یا فرد تہذیب کے کس مقام پہ کھڑے ہیں۔ فرد اپنےکردار کی لاکھ تعریفیں کرے، معاشرہ چاہے کتنا ہی خود پسندی  اور نرگسیت کا شکار ہو، تہذیب کا آئینہ سب کچھ سچ سچ دکھادیتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ خود کو مطمئن کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پہ ہر منفی کردار کی کوئی نا کوئی توجیہہ گھڑ لیجاتی ہے۔

اہل سیاست اور اہل مذہب، معاشرے کے دو بڑے اور موثر گروہ ہیں جن کے ہاں مروجہ اقدار اور تہذیب کے اثرات معاشرے  کے بڑےحصے تک پہنچتے ہیں۔ بلکہ لوگ انکی پیروی کرتے ہیں۔ اسی لیے ان دونوں گروہوں کی ذمہ داری باقی سب طبقوں اور گرہوں سےزیادہ ہے۔

گزشتہ دہائی سے ایک بار پھر  پاکستان میں اہل سیاست کے ہاں تقسیم بڑی گہری اور نمایاں ہو چکی ہے۔ اس تقسیم کا نتیجہ محض یہ نہیں نکلا کہ ہر گروہ اپنی ایک الگ شناخت بنانے لگا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ  ان گرہوں میں شامل افراد کی پہلے سوچ، جذبوں اور عمل میں تشدد کا عنصر جگہ گھیرنے لگا۔ یہ شدت پاکستان کی سیاست اور معاشرے میں نئی نہیں ہے۔ البتہ گذشتہ دس سال کےمعروضی حالات اور زمینی حقائق اس سے پہلے گزرے ساٹھ سال سے مختلف ہیں۔

اہل سیاست نے ایک طویل جدوجہد سے ملک حاصل کیا تھا وہاں سات برس میں ہی اقتدار کی خواہش لیے دیدہ قوتوں نے اپنے پھن پھیلا لیے۔ اور منتخب لوگوں کو گھر بھیج دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر پاکستان کے تیسرے آئین شکن آمر ضیا الحق کے اس دار فانی سے کوچ کرنے تک اہل سیاست اور اہل طاقت کے درمیان بلی چوہے کا کھیل چلتا رہا۔ سیاستدان بھی کچھ رکھ رکھاؤ والے تھے اوراہل طاقت کے افسران بھی کچھ مہذب تھے۔ البتہ فاطمہ جناح کے انتخابات بارے کہا جاتا ہے کہ ایسی زبان استعمال کی جانے لگی جو کسی صورت لائق تحسین نہیں تھی۔ اور پھر یہ ہوا کہ اہل قوت کو جب کسی جانور سے تشبیہہ دی گئی تو وہ تلوار اپنے جانشین کو سونپ کر خود گھر جا بیٹھے۔ البتہ ضیا الحق کے دور سے اہل سیاست کے ہاں جذبوں میں مزید شدت آنے لگی۔ ان جذبات کےپیچھے اصل محرق وہ تشدد کا سلسلہ تھا جو بھٹو کے دار پہ چڑھانے کے بعد تک چلتا رہا اور یہ سلسلہ 1988 میں خود بینظیر کی واپسی پہ تھما۔

ہوا پھر یہ کہ اہل سیاست کے متشدد جذبات کو ایک دوسرے کی طرف ہوا دے دی گئی اور پھر اہل سیاست 1988 سے 1999 تک جو گل کھلاتے رہے اس کا انجام 12 اکتوبر 1999 کو ہوا۔ ان بیتے دس برسوں میں ایک دوسرے کو کیا کچھ نہ کہا گیا؟ کونسی ایسی اخلاقی پستی ہے جس کو حاصل ہونا باقی تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی حد تک ویڈیو کا دور شروع ہو چکا تھا۔ لہذا طرفین کی کچھ تقاریر شاید اب بھی کسی آرکائیو میں دستیاب ہوں۔ لیکن آپس کی نفرت بالآخر میثاق جمہوریت تک پہنچ کر عالم نزع میں تھی کہ اسی دوران اہل سیاست میں ایک نئے گروہ کا اضافہ ہو رہا تھا۔ اب جدید دور میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیا سیاسی گروہ نئی سیاسی روایات کا امین بنتا اور معاشرے میں ایک مثبت رحجان برقرار رہتا۔ لیکن وہ خواہش ہی کیا جو پوری ہو جائے۔

بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے 2011 میں لاہور میں ہوئے ایک جلسے سے اہل سیاست ایک بار پھر اسی  اخلاقی گھاٹی سے لڑکھنے لگےجہاں سے وہ پہلے کئی بار گر چکے تھے۔ البتہ اب کی بار شدت زیادہ تھی۔ شدت زیادہ ہونے کے پیچھے کوئی طلسمی راز نہیں بلکہ یہ بات واضح ہے کہ ٹیکنالوجی کے دور میں کہا جانے والا ہر لفظ اور ہر جذبہ نہ صرف ریکارڈ ہو رہا ہے بلکہ یہ آن کی آن میں سب کودستیاب بھی ہے۔ سننے والا الفاظ کا زیر و بم جانچ لیتا ہے، دیکھنے والا لہجے کی تلخی کو بھانپ لیتا ہے، لہذا وہ اختلاف جو کسی مہذب معاشرے کو خوبصورت بناتا ہے، وہ برداشت جو کسی مہذب معاشرے کا چہرہ ہوتی ہے اور وہ محبت جو دوسرے کے وجود کوتسلیم کرنے کے لیے انسانوں میں ہر حال میں برقرار رہنی چاہیے وہ بڑی جلدی ناپید ہونے لگی۔

ہمارا معاشرہ مہذب معاشرہ نہ رہا۔ اختلاف کے نئے قاعدے مرتب ہوئے، لہجوں میں نئی تلخی در آئی، لفظوں میں منفی جذبات کی حدت محسوس ہونے لگی۔ لوگوں نے قطع تعلق کرنے شروع کیے۔ گالی جو ہمارے معاشرے میں شاید کبھی معیوب تھی معیوب نہ رہی۔ بدکلامی کے دلائل تراشے گئے، بد تہذیبی کو بنیاد فراہم کی گئی، بد اخلاقی کو اظہار اختلاف کی سند عطا کی گئی۔ اہل سیاست کےمنہ شعلے اگلنے لگے اور چند ہی برس میں ان شعلوں کی تپش سے معاشرے کے چہرہ  جل کر سیاہ ہو گیا۔

معاشرے نے اپنے چہرے پہ سیاہی کو برداشت کر لیا، لیکن اپنے سیاسی دیوتا بچا لیے۔ وہ سیاسی دیوتا جو پارلیمان میں ایک دوسرے پہ لفظی گولہ باری کے بعد کینٹین میں اکٹھے چائے پیتے ہیں (جوکہ اچھی روایت ہے)۔ وہ سیاسی دیوتا پارلیمان کی کمیٹیوں میں ایک ساتھ بیٹھتے اور رائے دیتے ہیں۔ وہ سیاسی دیوتا مل کر باہر کے ملکوں کے دورے کرتے ہیں۔ البتہ معاشرے کی بنیادی اکائی فرد نےاپنے ارد گرد سے رشتہ توڑ لیا، اب میرے معاشرے میں فرد باقی نہیں بچا۔ بس محض سیاسی گرہوں کے نمائندے باقی بچے ہیں۔ وہ نمائندے جو اختلاف کی بنیاد پہ تذلیل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو آئے روز سوشل میڈیا پہ بننے والے ٹرینڈز دیکھیں۔آئے روز سوشل میڈیا پہ اختلاف کے اظہار کا طریقہ دیکھیں۔ تہذیب نے معاشرے کے گرد اخلاقیات کا جو بائیو سیکیور ببل تخلیق کیاتھا اس میں شگاف پڑ چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ معاشرہ کتنی جلدی اس شگاف کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فی وقت ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ معاشرہ بد اخلاقی کا کیچڑ ایک دوسرے پہ اچھال کر اچھا محسوس کر رہا ہے۔ قتیل شفائی مرحوم کی ایک  خوبصورت غزل کے چند اشعار میرے  دل کا  بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔

ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں

دوڑ رہا ہوں دُنیا کی شریانوں میں

نفرت کی تائید نہیں میں کر سکتا

نام مِرا بھی لکھ لو نافرمانوں میں

باہر تو ہر سُو ہے راج درندوں کا

امن کا ہے ماحول فقط زندانوں میں

اس بیکار کے جینے سے بیزار ہوں میں

شامل کر لو مجھ کو بھی پروانوں میں

یارو! میں تو یوں بھی گالی کھا لوں گا

چھوڑو بھی کیا رکھا ہے یارانوں میں

انسانوں کا خون ہی تم کو پینا ہے

کھوپڑیوں میں پی لو، یا پیمانوں میں

پہلے ہی وہ گورا ہے، یہ کالا ہے

اور ہمیں بانٹو گے کتنے خانوں میں

مجھ کو اپنے دیس کی مٹی کافی ہے

کیا رکھا ہے نسلوں اور زبانوں میں

آج کے سُورج ان کے ذہن پر دستک دے

سوئے ہیں جو ماضی کے افسانوں میں

کب تک دھوکا کھائے اپنی پیاس قتیلؔ

خالی جام کھنکتے ہیں مے خانوں میں

Advertisements
julia rana solicitors

قتیل شفائی

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply