شہر کو سیلاب لے گیا۔۔سیّد مہدی بخاری

ہمارا خمیر ہی ایسی مٹی سے اٹھا ہے، ہماری معاشرتی تربیت ہی ایسی ہوئی کہ جب تک چاند توڑ کر قدموں میں لانے کی بات نہ ہو محبوب بھی نہیں سنتا۔ ستارے توڑ کر قدموں میں لانے کا وعدہ نہ ہو تو بیگم بھی نہیں مانتی۔ دوسرے کلمہ گو پر نفرین نہ بھیج دے تو مولوی بھی چپ نہیں ہوتا۔ مقابل کے خاندان کی عورتوں تک نہ پہنچ جائے تو سیاستدان بھی باز نہیں آتا۔ گھروں سے یا راہ چلتے بندے اٹھا کر غائب نہ کر دیئے جائیں تو ویگو کو بھی چین نہیں ملتا۔ اسی طرح جب تک اگلے کو گالی یا فتوی نہ دے دیں آن لائن مسلمان سکون نہیں پاتے۔

یہ انتہاپسندی کیسے ہماری سرشت میں داخل ہوئی کہ جس نے گھریلو معاملات سے لے کر ہر شعبہ ہائے زندگی میں قدم قدم ڈیرے ڈالے ؟ اور اس زہر کا تریاق کیا ہے ؟۔ پہلے میں یہ سوچا کرتا تھا ملائیت و جہالت کے گٹھ جوڑ نے اس قوم کو وحشی ہجوم میں بدل کر رکھ دیا ہے، مگر، نہیں، ایسا صد فیصد بھی نہیں۔ آیئے آپ کو 180 ڈگری کا زاویہ دکھاؤں۔

یونیورسٹیوں میں انتہاپسندی کا یہ عالم ہے کہ ایک لیکچرار نے مجھے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ماشااللہ ان کا فلاں جماعت سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ رہائش بھی مرکز کے اطراف ہی رکھی ہے۔پھر بولے “بخاری صاحب آپ کا شوق خوب ہے۔ سیاحت۔۔۔ یہ انبیاء کا مشغلہ بھی رہا ہے، نئی جگہوں کو دیکھنا۔ سفر کرنا۔ خدا کی قدرت ملاحظہ کرنا”۔ گفتگو بڑھی تو بولے کہ ہمارے مجاہد بھائی اچھے ہیں ناں۔ ایک ادھر مارا ایک ادھر مارا اور پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ سیاحت بھی ہو گئی اور جہاد بھی  !

یہ سن کر میرے پاس مزید گفتگو کے لئے الفاظ ختم ہو گئے۔ وہ صاحب یونیورسٹی میں واقع میرے کمرے میں بیٹھے تھے ان کو تو اٹھا نہیں سکتا تھا، میں خود اٹھ گیا اور بولا کہ میری کلاس کا وقت ہو گیا ہے مجھے ابھی کلاس پڑھانے جانا ہو گا۔چار ماہ ہمارا روز آمنا سامنا ہوا کرتا اور آئے روز ان کی شیریں زبان سے کوئی نہ کوئی ایسا جملہ سننے کو ملتا رہتا جسے سن کر میں سُن ہو جایا کرتا کہ یہ صاحب یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں اور ان کی سوچ کس حد تک انتہاپسند ہے۔۔یہ تو محض tip of iceberg ہے۔ جامعات کی اگر اسکروٹنی ہو تو آپ انگلیاں دانتوں میں داب لیں ۔

سن 2013 میں لاہور میں واقع پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم کے پاس پناہ گزین ا ل ق ا ع د ہ کے دہشتگردوں اور لاہور ہی کی ایک اور یونیورسٹی سے ان کے کچھ اور ساتھیوں کی گرفتاری کی خبر آئی تو اکثر آنکھوں میں حیرت اور ہونٹوں پر سوال تھا کہ کیا اب یونیورسٹیوں میں بھی؟

اس حیرت کی ایک بڑی وجہ ہماری اجتماعی یادداشت کی کمزوری ہے۔ ہم نے برادر اسلامی ملک سے درآمد کردہ مذہبی انتہاپسندی کی پنیری صرف پہاڑوں سے گھرے مدرسوں میں ہی نہیں لگائی اس کی بارآور نسلیں تیار کرنے کو ہماری یونیورسٹیاں ہی لیبارٹری کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔

کس کس بات کا رونا رویا جائے ؟ وہ “مرد مومن مرد حق” اور افغان جنگ ہی کا زمانہ تھا جب عبداللہ عزام نامی حضرت اسلام آباد میں بننے اور برادر اسلامی ملک کے دیناروں پر چلنے والی ایک یونیورسٹی میں پڑھانے آئے تھے۔

جیسے ہی افغان جنگ کی آگ تیز ہوئی، عزام صاحب پڑھانا وڑھانا چھوڑ چھاڑ افغان مہاجرین کی خدمت کا عزم لئے پشاور جا پہنچے اور وہاں ایک بم دھماکے کا نشانہ بن گئے۔ نہیں نہیں، ان پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ وہ تو کیمپ میں کچھ “تیار” کر رہے تھے کہ تیار شدہ سامان وہیں پھٹ پڑا۔ رہا ا س ا مہ بن لا د ن کے ان کی یاد میں قائم ہونے والا ال ق ا ع د ہ کا عبد اللہ عز ا م گروپ تو وہ آج بھی اسلامی دنیا اور عہدِ کفار کے متعلق کاروبارِ تحقیق میں مصروف ہے، پاکستان میں نہ سہی کہیں اور سہی۔

اسی یونیورسٹی میں آگے چل کے ارتیاض گیلانی نام کے ان صاحب نے تدریس کے فرائض سنبھالے جو اسلام آباد کے سیکٹر جی پندرہ میں اپنے گھر پر پڑنے والے چھاپے کے بعد سے بوجوہ آج تلک دفتر نہیں آسکے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی غیر حاضری کی وجہ وہ چند آر پی جی راکٹ اور دو چار فضائی نگرانی کے  لئے استعمال ہونے والے ڈرون تھے جو پولیس نے نشئی کی جیب سے  نکلنے والی  پڑیا کی طرح خود رکھ دیے تھے۔

لاہور کی یونیورسٹی میں جس تنظیم نے ا ل ق ا ع د ہ کے مجاہدوں کو قیام و طعام کی سہولت صرف مشرقی آداب میزبانی نبھانے کے لئے دے رکھی تھی اس تنظیم کے کشمیر میں جا کر غائب ہوجانے والے مجاہدوں کی غائبانہ نماز جنازہ یونیورسٹی کے سبزہ زاروں میں پچھلی صدی کی آخری دہائی تک بہت باقاعدگی سے ادا کی جاتی تھی۔ تقریباً اتنی ہی باقاعدگی سے اس تنظیم کی سرپرستی کرنے والی جماعت کے گھر سے ا ل ق ا ع د ہ کے ممبر اس صدی کی موجودہ دہائی میں پکڑے جاتے رہے ہیں۔

چلیے سرکاری یونیورسٹیوں اور اسلامی جماعتوں کو جانے دیجیے کہ ان دونوں میں متوسط طبقے کے مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے سوا ہوتا ہی کون ہے۔ ڈینئیل پرل کے قتل میں سزا پانے اور جیل کی کوٹھڑی سے پرویز مشرف کو دھمکی آمیز فون کرنے والے عمر سعید شیخ لیکن ذرا مختلف بیک گراؤنڈ سے تھے۔

ان حضرت نے لاہور کے اس تعلیمی ادارے میں پڑھا تھا جس کی کرکٹ ٹیم میں ہمارے چکری کے چوہدری اور بنی گالا کے چئیرمین آمنے سامنے ہونے سے بہت پہلے اکھٹے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ لندن میں پیدا ہونے والے عمر سعید شیخ کو ان کے والد غیر شرعی مشاغل سے بچانے کو لاہور لائے تھے لیکن لاہور میں انہیں جو شوق چرایا اس سے وہ لندن واپس لے جائے جانے کے باوجود بچ نہیں پائے۔

امریکی صحافی کے اغواء اور قتل سے پہلے لندن سکول آف اکنا مکس میں زیر تعلیم رہنے والے عمر شیخ ہندوستان میں ایک امریکی اور تین برطانوی شہریوں کو اغوا کر کے جہاد کشمیر کے جانے پہچانے کردار مولانا مسعود اظہر کو رہا کروانے کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔

تعلیمی اداروں کو اگر کچھ دیر کے لیے بھول کر سکیورٹی کے اداروں پر نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی صورتحال کچھ بہت اچھی نظر نہیں آتی۔ سول اداروں کی بات کریں تو کوئٹہ میں ڈی آئی جی پر حملہ کرنے والے حضرت کا پولیس لائنز کی مسجد میں قیام ہو یا بھارہ کہو میں پنجاب پولیس کے ایک ایس پی کے بھائی کے گھر سے بارود بھری گاڑی کی برآمدگی۔۔۔ یہ سب واقعات کس طرف اشارہ کر رہے ہیں، یہ لکھنے کی ضرورت میرے خیال میں باقی نہیں رہی۔

انتہا پسندی کا یہ جن اسٹریٹجک ڈیپتھ کی بوتل سے نکلا ہے اور اسٹریٹجک ڈیپتھ کا یہ جھوٹ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے ہی نہیں اپنے ساتھ بھی اتنے عرصے بولا ہے کہ اس کے اپنے کارندے بھی اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔رانجھا رانجھا کرتے ہمارے “کرتے دھرتے” خود کتنا رانجھا ہو چکے ہیں اس بارے میں سلیم شہزاد مرحوم نے اپنی کتاب میں اتنی تفصیل سے لکھا کہ پھر اس کے بعد مرحوم قرار پائے۔۔

میں اسٹیبلشمنٹ لکھوں یا آپ قومی سلامتی کے ادارے پڑھیں بات صرف اتنی ہے کہ بند کو حفاظتی پشتہ کہنے سے سیلاب کے زور میں کمی نہیں آتی۔ پانی آ چکا تھا، سروں سے گزر چکا تھا اور اس بارودی سیلاب نے 70 ہزار پاکستانیوں کے چیتھڑے ہوا میں اڑا دیئے تھے۔اس نے کچّے کوٹھے ہی نہیں ڈھائے حویلیوں کی دیواروں میں بھی سیندھ لگائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اپنے گھروں کے باہر ریت کی بوریاں رکھنے کے بجائے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر حفاظتی پشتے ٹھیک کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے تو لاہور کی ایک اور یونیورسٹی کے سابقہ پروفیسر کی کہانی پڑھ دیکھیں۔ وہی پروفیسر جو چوبرجی پر بڑے سارے دفتر والا ایک فلاحی ادارہ چلاتے ہیں اور فارغ وقت میں کشمیر آزاد کروانے کا کام بھی کرتے ہیں۔(آخری خبر آنے تک وہ ریاستی نظر بندی میں ہیں) ۔اب بھی ہم ان لوگوں کا نام لینے کو تیار نہیں جو بند توڑ توڑ کر اس میں انتہا پسندی کی پنیری لگا رہے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ ہمیں اس پر دکھ بھی نہیں۔ بقول میر
کن نیندوں تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply