• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ساحل عدیم صاحب اور انکی ڈوپامین ( Dopamine)۔۔محمد وقاص رشید

ساحل عدیم صاحب اور انکی ڈوپامین ( Dopamine)۔۔محمد وقاص رشید

پچھلی تحریر میں طالبِ علم نے “جمالیات اور مذہب ” کے عنوان سے اپنی تحقیق اور نقطہءِ نظر آپکی خدمت میں پیش کیا۔  اب اس تمہید کی روشنی میں ساحل عدیم صاحب جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں کی موسیقی کو حرام قرار دینے والی ایک ویڈیو کا جائزہ لیتے ہیں ۔ان کی ویڈیوز میں اکثر دیکھتا رہتا ہوں۔ انکا اندازِ بیان اچھا لگتا ہے،بہت خوب صورتی سے بولتے ہیں  مگر انتہائی احترام اور معذرت کے ساتھ۔ ۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مختلف مشاہدات اور علوم کو جب اپنے مخصوص نقطہ نظر کے سانچے میں ڈھالنے بلکہ ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسکے لیے مضبوط منطقی دلائل کی بجائے مخصوص جذباتیت کا سہارا لیتے ہیں ۔جس سے علمی و فکری انداز میں تحقیق کرنے والے تو متاثر نہیں ہو سکتے ہاں جذباتیت کو پسند کرنے والے یا پہلے سے ان کے نقطہ نظر کے حامی ضرور ہوتے ہیں۔

دراصل خالصتا ً علمی رویہ یہ ہے کہ اگر آپ کوئی دعویٰ  کوئی فتوی یا کوئی نظریہ پیش کرتے ہیں تو اسکے استدلال میں جو بھی معروضات پیش کرتے ہیں انکا استدلال علمی و شعوری بنیادوں پر عام فہم ہونا چاہیے نا کہ آپ کو جوشِ خطابت یا جذباتیت کا سہارا لینا پڑے۔ ساحل صاحب کی اکثر ویڈیوز میں مختلف شعائرِ اسلام کو جب وہ اپنی تفہیمِ دین میں ڈھالتے ہیں تو دعویٰ  تو اسے سائنسی علمی اور شعوری طور پر ثابت کرنے کا کرتے ہیں لیکن انداز روایتی ملاؤں جیسا ہی اپناتے ہیں۔  مثلاً اس ویڈیو میں ان سے سوال ہوا کہ موسیقی اسلام میں حرام کیوں ہے؟ تو انہوں نے کہا مولویوں نے آپکو حرام ہونے کی وجہ نہیں بتائی میں بتاتا ہوں اور جو جواب انہوں نے اس دس منٹ کی ویڈیو میں دیا۔۔ میں اس میں موجود تضادات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے جواب خود واضح تر ہو جائے گا۔

1- انہوں نے موسیقی کو اس لیے حرام کہا کہ اس سے انسان کے دماغ میں خود غرضی جنم لیتی ہے اور اسلام میں خود غرضی ہے ہی نہیں ۔

2 – سب سے پہلے تو یہ کہ یہ کوئی عمومی مشاہدہ نہیں بلکہ عمومی مشاہدہ اس سے 180ڈگری الٹ ہے۔  عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جمالیات کی یہ حس رکھنے والےاور فنونِ لطیفہ انسانیت کے زیادہ ہمدرد پائے جاتے ہیں۔ حقوق العباد کے بارے میں زیادہ حساس نظر آتے ہیں۔ مزیدبرآں پاکستان ہی کے نہیں دنیا کے نامور گلوکار بڑھ چڑھ کر فلاحِ عامہ کے کاموں میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں ۔ اور معذرت کے ساتھ اگر میرا مشاہدہ غلط نہیں تو ان لوگوں سے زیادہ جو موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں ۔

3- مزید یہ کہ آپ نے موسیقی کو حرام قرار دینے کے لیے ایک ایسی تکنیک استعمال کی کہ جو اکثر ہمارے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔  مثلاً معیشت ہمارے ہاں ایک عوامی دردِ سر ہے۔۔ حکومتیں اسکی وضاحت ہمیشہ ایسی اصطلاحات سے کرتی ہے ،جو عام لوگوں کے لئے نا صرف ناقابلِ فہم ہوتی ہیں بلکہ ان میں حکمرانوں کی خواہش کے مطابق ایک احساسِ کمتری اور مرعوبیت بھی پیدا کرتی ہیں ۔ یہی کچھ ساحل عدیم صاحب نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ موسیقی سننے سے دماغ میں Dopamine نامی کیمیکل زیادہ پیدا ہوتا ہے جسکی وجہ سے انسان خود غرض ہو جاتا ہے اور خود غرضی اسلام میں حرام ہے۔

4-میں نے عرض کی کہ کیونکہ ہمارے ہاں تحقیق کرنے اور استدلال کی کسوٹی پر دعوی جات کو پرکھنے کا رواج نہیں اور حمایت یا مخالفت کا فیصلہ علمیت کی بجائے عصبیت پر ہوتا ہے اس لیے انکے نظریے سے پہلے سے اتفاق کرنے والوں کے لئے یہی کافی تھا کہ ایک جدید وضع قطع کے مالک ہر ایک اردو جملہ بول کر اسکا انگریزی ترجمہ کرنے والے صاحب نے موسیقی کی سائنسی و طبی حرمت بتا کر اس بات پر مہر لگا دی۔

5-کچھ طالب علم پہلے ان دماغ میں پائے جانے والے کیمیائی مادوں سے واقف تھا اور کچھ ساحل عدیم صاحب کی ویڈیو دیکھنے کے بعد تحقیق کی تو پتا چلا کہ ساحل صاحب جیسے اسلام کے دوسرے شعائرجیسے جہاد وغیرہ کے متعلق مخصوص اندازِ تفہیم رکھتے ہیں اسی طرح انہوں نے یہاں بھی ڈوپامین اور سروٹونین کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی۔۔۔ جس سے خود وہ سائنس جس نے انہیں انسانی دماغ میں موجود ان کیمیائی مادوں کا تعارف کروایا۔۔۔۔۔اتفاق کرتی نظر نہیں آتی۔

6- ڈوپامین انسانی دماغ میں پایا جانے والا ایک نیورٹرانسمیٹر ہے جو کہ کیٹیکولامین اور فینی تھا ئیلامین فیملی سے تعلق رکھتا ہے اسکا کیمیائی فارمولا C8H11NO2 ہے۔۔یہ بنیادی طور پر انسانی جسم کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرنے کے علاوہ اور بھی کئی اہم امور سر انجام دیتا ہے جو درج ذیل ہیں۔۔۔۔
٭خوشی ،راحت اور سکون کا احساس دینا
٭دورانِ خون ،خون کا دباؤ ،گردوں اور لبلبے کی کارکردگی میں مثبت کردار ادا کرنا۔۔
٭سماجی تعلقات میں رویے پر اثر انداز ہونا۔۔
٭یاداشت اور عمومی کارکردگی پر اثر انداز ہونا وغیرہ وغیرہ

ڈوپامین کیسے بنتا یا بڑھتا ہے ؟
٭مقاصد کےحصول ،کامیابیوں اور کامرانیوں کی صورت میں۔۔
٭جنسی آسودگی ملنے پر
٭پسندیدہ خوراک ،جگہ یا محفل میسر آنے پر۔۔
٭سبزیوں میں موجود فولیٹ اسے بناتا ہے
٭مچھلی میں موجود اومیگاتھری فیٹی ایسڈ اس بناتا ہے
٭سگریٹ میں موجود نکوٹین اور کوک والے مشروبات میں موجود کیفین اسے متحرک کرتی ہے۔۔

ایک طبی تحقیق البتہ یہ ضرور کہتی ہے کہ اگر سزا کا خوف ختم کر دیا جائے تو زیادہ ڈوپامین کی مقدار رکھنے والے لوگوں میں خود غرضی اور جرم کی نفسیاتی ترجیحات دیکھی گئیں۔۔۔میرا خیال ہے ساحل عدیم صاحب نے اس ریسرچ سٹڈی کو اپنی موسیقی لاجک میں فٹ کرنے کی کوشش کی لیکن اسکا تعلق تو اطلاقی معاملات سے ہے۔۔۔۔اسکی بنیار پر موسیقی کو حرام قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اور اگر ساحل عدیم صاحب کے غیر منطقی نقطہ کو بالفرض مان بھی لیا جائے تو کہ کیونکہ موسیقی سننے سے ڈوپامین بنتی ہے اور ڈوپامین خود غرضی پیدا کرتی ہے اور خود غرضی اسلام میں حرام ہے اس لیے موسیقی حرام ہے تو مشکل تو یہ ہے پھر اسکا اطلاق صرف موسیقی پر کیوں جنسی آسودگی ،خوراک ، جگہ ،محفل حتی کہ سبزیاں اور مچھلی کھانا بھی ممنوع قرار دیجیے ۔ اب اگر پڑھنے والوں کو یہ بات منطقی لگی ہے تو ساحل عدیم صاحب سے مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ ایک ویڈیو بنائیں کہ  کیونکہ سبزیوں میں موجود فولیٹ ڈوپامین بناتا ہے ۔ اور ڈوپامین خودغرضی پیدا کرتا ہے اور خود غرضی اسلام میں حرام ہے اس لیے سبزیاں بھی حرام ہیں۔

٭سوال تو ساحل عدیم صاحب سے یہ بھی بنتا ہے کہ اگر آپ کی ایک ویڈیو موسیقی کو حرام قرار دیتی ہو اور دوسری ویڈیو کو پر تاثیر اور سوگوار بنانے کے لیے اسکے بیک گراؤنڈ میں sad music چل رہا ہو تو کیا وہ بھی حرام ہیں یا “درد بھری موسیقی ” سے ڈوپامین کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔

٭اسی ویڈیو کے آخر میں شاید ساحل ندیم صاحب اپنی ڈوپامین لاجک سے خود مطمئن نہیں ہوئے تو کہا کہ۔۔۔۔ کیونکہ فحاشی اسلام میں حرام ہے اور جتنی فحاشی موسیقی کے سائے تلے ہوئی اتنی کسی شے سے نہیں ہوئی اس لیے موسیقی حرام ہے ۔یہاں سوال یہ ہے کہ فحاشی کی تعریف کیا ہے ؟طالبِ علم کی نگاہ میں تو پاکستان میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا اپنی دینی و دنیاوی درس گاہوں تک میں محفوظ نہ ہونا روئے زمین کی سب سے بڑی فحاشی اور عریانی ہے ۔تو کیا یہ موسیقی کی آڑ میں ہوتا ہے۔۔۔ جی نہیں میری نگاہ میں جمالیات سے بے بہرہ ہونے کے نتیجہ میں۔۔۔۔فطرت کی نفی کے شاخسانے کے طور پر۔

٭مذہبی سکالرز کو دینی استدلال کرتے ہوئے یقینًا مکمل سوچ بچار سے کام لینا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ دینِ خدا کی حقانیت کا ہے۔  آپ اور میں تو عام انسان ہیں ہمارےذاتی فکری تضادات سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب یہ علیم الحکیم خدا کے بتائے ہوئے ضابطہ حیات سے متعلق ہو اسکی حساسیت مختلف ہے۔ افلا یتدبرون ؟

ڈوپامین سے متعلق یہ مختصر مگر بنیادی تعارف دینے کا مقصد لوگوں کو ساحل عدیم صاحب کے دعوے کو علمیت کی بنیاد پر پرکھنے کے قابل بنانا تھا۔

انسانی جسم کا نظام توازن کا ایک شاہکار ہے ۔یہ توازن اسی جمالیات کا ایک حصہ ہے۔ خدا کا اپنے کلام میں دعوی کہ “انسان بہترین صورت میں پیدا ہوا ” وہ اسی توازن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔۔اسی جمالیات کا فطری اظہار ہے۔۔۔۔ جسم کا درجہ حرارت ،خون کا دباؤ ،نبض اور دھڑکنوں کی رفتار ،اور دیگر تمام امور کی طرح دماغ میں پائے جانے والے کیمیائی مادوں کا توازن اور معیارِ صحت سے مطابقت رکھنا اشد ضروری ہے۔۔۔ دیگر تمام مقداروں کی طرح ڈوپامین کی کمی یا زیادتی دونوں مختلف جسمانی و ذہنی امراض کا باعث بنتی ہیں۔

دینِ اسلام یقینی طور پر ایک بہت متوازن اور جمالیاتی احساسات کا قدردان دین ہے۔۔۔۔خدا کا اپنی تخلیقی جمالیات پر غور و فکر کر کے اپنی خالقِ کائنات کی حیثیت میں موجودگی کو باور کروانا درحقیقت انسانی فطرت میں موجود جمالیاتی اظہاریوں کو فہم و فراست یعنی منشاءِ خدا کے ایک آفاقی پیرائے میں متشکل کرنے کی تلقین ہے نہ کہ اپنی فطرت کا گلا گھونٹنے کی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ایک دعوتِ فکر کہ  ہجرتِ مدینہ کے موقع پر میزبان خواتین اور بچیوں کا دف بجا کر “طلع البدر علینا ” ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا”  ۔گانا ہو یا ایک غزوہ کی فتح کے موقع پر ایک خاتون کا اپنی منت پوری کرنے کی رسالت مآب ص سے اجازت ملنے پر دف بجا کر مسرت کے اظہار میں گانا ہو۔۔۔۔۔ پیغمبرِ اسلام کی سیرت طیبہ کے مطابق نا ممکن ہے انکا کسی حرام شے کو آخری درجے میں بھی گوارا کرنا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply