عاصم کلیار، - ٹیگ

معتوب کتابیں /عاصم کلیار

جسے لکھنے میں انگلیاں قلم ہوئیں اگر وہی لکھا ہوا معتوب ٹھہرے تو جگر کو خون ہونے میں بھلا دیر ہی کیا لگتی ہے۔ مگر انسان شر ہے! وہ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ماننے سے انکاری ہے۔ تاریخ کے←  مزید پڑھیے

ہیں کواکب کچھ ,نظر آتے ہیں کچھ/عاصم کلیار

ہالینڈ کے قصبے میں 1876 کو پیدا ہونے والی مارگریٹا کی چھٹی سالگرہ پر جب اس کے باپ نے بکریوں کی مدد سے کھینچے جانے والی بگھی تحفے کے طور پر دی تو محلے کی سن رسیدہ عورتوں نے ماتھے←  مزید پڑھیے

پچیس سال اور دو ملاقاتیں/عاصم کلیار

پچیس سال اور دو ملاقاتیں ا  س وقت تک میں ”مجموعہ” سے “گرد مہتاب”کو قوس قز ح بنانے والے سے بے خبر تھا جبکہ “اورق خزانی” کو ترتیب پانے میں کچھ برس درکار تھے۔ شہر،شہر اور ملک ملک سے آنے←  مزید پڑھیے

رات،شہر اور زندگی/عاصم کلیار

خداۓ سخن میرصاحب نے رات کو جوانی سے تعبیر کیا تھا۔ رات بہت تھے جاگے۔۔۔۔ رات یعنی جوانی ہنگاموں،یارانوں اور میخانوں میں بسر ہوئی۔ مگر رات نجانے کیوں پلک جھپکتے ہی گزر جاتی ہے اور نمود سحر کے ساتھ بدن←  مزید پڑھیے

اماں میں آ گیا/عاصم کلیار

زندگی کی لذتوں سے آشنا ایک خوبرو نوجوان نے نیم بیہوشی کے عالم میں سوچا وہ ایک روشن اور زندگی سے بھر پور صبح تھی۔ اور اب۔ ۔ برقعے کے اندر اپنی ہی قے کی بُو سے مجھے سانس لینے←  مزید پڑھیے

پیرس کے کیفے میں سرگوشیوں میں ہونے والی گفتگو/عاصم کلیار

دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی پیرس کے کیفے سرگوشیوں میں ہونے والی گفتگو،گلاسوں کی کھنک اور قہقوں کی گونج سے آباد تھے ۔فروری 1943 کی وہ دوپہر، نرم دھوپ کی کثافت لیے بدن میں عجب سی ہلچل برپا کر←  مزید پڑھیے

فرزندِ شاہ،برادرِ شاہ و دلبرِ شاہ/عاصم کلیار

آئی۔سی۔ایس افسر کے گھر پیدا ہونے والی سلمیٰ احمد نے نگر نگر کی خاک بھی چھانی مگر طرفہ تماشا یہ کہ ہر قدم کے بعد گھر کا راستہ بھولنے میں بھی ماہر تھیں۔ مری کانونٹ سے تعلیم حاصل کرنے والی←  مزید پڑھیے

خالد حسن ؛ایک طلسماتی شخصیت /تحریر:عاصم کلیار

لوگ خالد حسن جیسے با کمال آدمی کو بھولنے لگے ہیں جس کو کرکٹ،انگریزی و اُردو ادب اور موسیقی پر مکمل عبور تھا ۔وہ مادام نورجہاں،فیض صاحب اور قرۃ العین حیدر کے قریبی دوست تھے۔انہوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ←  مزید پڑھیے

بیرن نیند نہ آئے۔۔عاصم کلیار

میں کئی  دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ لتا جی سے پہلی بار میں کب آشنا ہوا تھا مجھے کچھ یاد نہیں پڑتا مگر مجھے اس بات کا یقین کی حد تک گماں ہے کہ شعور کی سیڑھی پر پہلا←  مزید پڑھیے

لیے پھرتا ہے قاصد جابجا خط(4)۔۔عاصم کلیار

پتی بھگت بانو آپا لاہور شہر میں”داستان سراۓ”کے نام سے کچھ عرصہ پہلے تک ایک گھر موجود تھا مجھ جیسے تازہ واردانِ بساط ادب ایک زمانے میں اس کے سامنے سے گزرتے ہوۓ کن اکھیوں سے آدھ کھلے گیٹ کے←  مزید پڑھیے

لیے پھرتا ہے قاصد جابجا خط(2)۔۔عاصم کلیار

ہمارے ہاں نجانے کیوں محبت کی داستانوں کو سرگوشیوں میں بیان کرنے کی روایت ہے مگر امرتا پریتم نے احوال دل و عشق کو رسیدی ٹکٹ میں لکھ کر ایک عالم کو اپنا واقف حال کر دیا میں نے جب←  مزید پڑھیے

لیے پھرتا ہے قاصد جابجا خط(1)۔۔عاصم کلیار

ماضی کے نقوش وقت کے آب ِرواں میں مسلسل معدوم ہوۓ جاتے ہیں کچھ عرصے بعد چہرہ و نام بھی ایک ساتھ یاد نہیں رہتے ،مگر لکھے ہوۓ لفظوں کی حرمت و تقدس سے انکار ممکن نہیں، ماضی کی کہانیاں←  مزید پڑھیے

ہاۓ میرا کوٹا۔۔عاصم کلیار

جہاز میں بغیر سامان کے گنجائش سے کہیں زیادہ مسافر تھے ایک عورت نجانے کن خیالوں میں گم شیشے کے ساتھ والی نشست پر نیلگوں آسمان کو حسرت و یاس سے مسلسل دیکھے جارہی تھی ،جہاز نے پہلے حرکت کی ،پھر رفتار پکڑی اور جیسے ہی طیارہ فضا میں بلند ہوا اس عورت نے سینے کو پیٹتے ہوۓ ایک کرب کے ساتھ کہا۔۔۔ہاۓ میرا کوٹا،←  مزید پڑھیے

واماندگئِ شوق تراشے ہے پناہیں۔۔عاصم کلیار

عمرِ رفتہ کے اوراق پلٹنے کی زندگی نے کبھی مہلت ہی نہیں دی، خود سے ہمکلام ہونے کی کبھی فرصت ملی بھی تو ہمسفروں سے بچھڑ جانے کا خوف،راستہ بھٹکنے کا اندیشہ،بغیر زادِ راہ کے اَن دیکھی منزلوں کے سفر←  مزید پڑھیے