مجھے یاد ہے (قسط نمبر 2)۔۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
(قسط: ۲)
’’میں اوپر کی منزل پر بیٹھوں گا، سب سے اگلی سیٹ پر۔ آجائے جس جس نے میرے ساتھ آنا ہے۔‘‘  
لال رنگ کی ذرا سابائیں طرف جھکی ہوئی اُڑے اُڑے لال رنگ کی ڈبل ڈیکر بس میں سوار ہوتے ہی ہم سیڑھیوں کی طرف لپک رہے ہیں تاکہ فرنٹ سیٹ پر قبضہ کرلیں۔ خالد بھائی کنڈکٹر سے ٹکٹ لے رہے ہیں۔
“سیکرٹری ایٹ! وہ کنڈکٹر سے کہتے ہیں۔”
 ہم والد صاحب کے رسالہ ’’ نیا راستہ‘‘ کے دفتر جارہے ہیں، کرشن نگر۔ سب بہت خوش ہیں۔لٹن روڈ سے سیکرٹری ایٹ تک ڈبل ڈیکر میں سفر کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ وہاں سے آگے پیدل یا پھر ایک منزلہ بس۔’’نیاراستہ‘‘ کے دفتر ایک تو والد صاحب سے ملاقات ہمیشہ ’’پرلطف‘‘ رہتی ہے۔ چائے کے ساتھ مزے دار  بسکٹ بھی تو ہوتے ہیں۔ دوسرے مجھے ان کے دفتر کے باہر کھلے سوسن کے سرخ پھول دیکھنا بھی بہت بھلا لگتا ہے۔میں کھڑکی میں سے انہیں بھی دیکھتا رہتا ہوں۔

٭٭٭٭٭
ایک کمرا اور بہت سی کتابیں، الماریاں اوربہت سی کتابیں، میز اور بہت سی کتابیں،بستر اور بہت سی کتابیں۔شاعری:  والد صاحب کی پہلی اور آخری محبت ۔ کتابیں: ان کا اثاثہ۔
نقل مکانی میں کتنی بار ان کی کتابوں کا ذخیرہ گم ہوا ہے کیا بتاؤں مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خود رو پھولوں کی طرح جانے کیسے پھر ان کے گردا گرد مہکنے لگتی ہیں!‘‘ امی جان کتابیں میزسے اٹھا کر الماری  میں رکھتے ہوئے بڑبڑاتی ہیں۔
“صرف کتابیں ہی تو میرے ارد گرد نہیں مہکتیں۔۔۔” والد صاحب مسکرا کر کہتے ہیں۔
’’نہیں، نہیں، یہ رسالوں کے انبار بھی تو ہیں، انہیں کیسے بھول گئی میں۔۔بیسویں صدی، افکار، محفل،فنون، اوراق،صاف گو،نئی صدی،شام و سحر، پنجند۔۔۔ پھر یہ ڈائجسٹ اور وہ ڈائجسٹ حتیٰ کہ حُور اور زیب النسا تک آتے ہیں اس گھر میں۔گھر نہ ہوا لائبریری ہو گئی۔۔۔‘‘ امی جان بات مکمل کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
’’یہ تو اچھی بات ہے نا کہ ہمیں اتنے رسالے اور کتابیں مفت میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں۔ان میں نظمیں بھی مل جاتی ہیں سکول کی ہفتہ وار ’’بزمِ ادب‘‘ میں سنانے کو۔
’’بہتر یہ ہے کہ تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ پہلے ہی خالد اپنے پاپا کے ساتھ مل گیا ہے۔ جاتا ہے وہ بھی مشاعروں میں۔ میں سب جانتی ہوں، یک نہ شد دو شد۔۔۔اور اب تم۔۔۔بہتر ہے  دور ہی رہو ورنہ تمہیں بھی لے آئیں گے شاعری کی طرف۔‘‘ امی جان مجھے سمجھانے کے انداز میں گلہ کررہی ہیں۔
’’میں نے کسی کو اِدھر آنے کو نہیں کہا۔ یہ شوق کی بات ہے، فطری میلان کی بات ہے جو آسکتا ہے وہی آئے گا ۔ہر کوئی تو نہیں کر سکتا شاعری۔‘‘ والد صاحب  پر سکون لہجے میں کہتےہیں۔
’’شکر ہے ہر کوئی نہیں کرسکتا شاعری۔۔۔ورنہ ہر گھر میں لائبریری ہوتی۔۔۔چائے، سگریٹ کے بھوت اضافی۔۔۔‘‘ امی جان بدستور چھیڑنے کے موڈ میں ہیں۔
’’چلیے، اب آپ نے ذکر کردیا ہے تو ایک کپ چائے ہو ہی جائے۔‘‘ والد صاحب ہنس کر کہتے ہیں۔
’’ لو، اسے پنجابی میں کہتے ہیں جیہڑا بولے اوہیو کنڈا کھولے۔۔۔بناتی ہوں ابھی چائے۔‘‘
٭٭٭٭٭
مجھے نہیں پتہ کہ  یہ امّی جان کی دعا کی قبولیت ہے یا خالد بھائی کے شوق کے کامیابی کہ  گھر سے بہت سی کتابیں لے جا کر خالد بھائی جان نے گلی کی نکڑ پر ایک ننھی سی لائبریری قائم کر لی ہے۔
 یہ  لائبریری اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں تازہ ترین جاسوسی اور ناولوں اور ڈائجسٹوں کے ساتھ ساتھ کلاسیکی اور جدید ادب کی شہکار کتابیں اور ادبی جرائد بھی دستیاب ہیں۔ والد صاحب کی طبع زاد اور مترجمہ کتابیں بھی بُک شیلف میں سجی ہیں جن میں ٹالسٹائی کی کہانیاں، ٹیگور کے افسانے، ٹیگور کا ناول گورا،شرت چندر چیٹر جی کے کئی ناولوں کے اردو تراجم جیسے دیوداس، دیہاتی سماج، آوارہ، الجھن اور پھر قیدی کے خطوط، حسن پرست اور دوسرے افسانے، شاگردہ کی ڈائری اور جانے کتنی ایسی کتابیں جو اسی لائبریری پر مل سکتی ہیں۔ ہم سب بھائی انتظار کرتے ہیں کہ کب خالد بھائی وقفہ کریں اور لائبریری کا چارج ہم سنبھالیں اور ساری نئی کتابیں جلدی جلدی کھنگال ڈالیں۔ کیونکہ خالد بھائی لوٹتے ہی ہمیں گھر بھیج دیں گے یہ کہہ کر کہ جاو ، سکول کا کام کرو۔
٭٭٭٭٭

’’پاپاجی، آج میرزا ادیب صاحب نے نوائے وقت میں اپنے کالم میں جالندھرکے تخلیق کاروں کی بات کرتے” ہوئے آپ دونوں کا ذکر کیا ہے۔کیا آپ حفیظ جالندھری صاحب کو جانتے ہیں؟‘‘ خالد بھائی والدصاحب سے پوچھ رہے ہیں۔

والد صاحب کتابت شدہ کسی کتاب کا مسودہ دیکھ رہے ہیں اور غلطیاں لگا رہے ہیں۔خالد بھائی کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
ہاں، بہت عرصہ سے۔۔۔میرا ان سے تعارف منٹگمری میں ہوا تھا جب میں ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ حفیظ صاحب ان دنوں سنگر سلائی مشین کمپنی کے سیلز ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ اسی کی تشہیر کے لیے وہ منٹگمری آئے تھے۔ وہ تشہیری جلسوں میں ترنم سے اپنی نظمیں سناتے تھے اور بہت داد پاتے تھے۔ ہمارے سکول میں شاعر ادیب اساتذہ بھی تھے۔ حفیظ صاحب وہاں بھی آئے تو ان سے تعارف ہوا۔ پھر بعد میں بھی کسی نہ کسی انداز میں رابطہ رہا۔‘‘
’’بیٹا، فلم ’شکار‘ اور ’مِس چھپن‘ کے بعد جب تمہارے پاپا کراچی گئے ہیں تو حفیظ صاحب ہی تو ساتھ تھے بلکہ وہی تو انھیں لے کر گئے تھے۔یہ تو چھوڑ چکے تھے فلمی دنیا۔‘‘ والد صاحب کے خاموش ہوتے ہی امی جان کہتی ہیں۔
آپ کراچی کیوں گئے تھے، پاپا؟‘‘ میں  دریافت کرتاہوں۔
”ایک فلم کے سلسلے میں گئے تھے۔ حفیظ صاحب بنے نغمے لکھنا تھے اس کے اور مجھے مکالمے اور ہدایت کاری کرنا تھی۔‘‘ والد صاحب  کامختصر سا جواب ۔
”توکیا بن گئی وہ فلم؟‘‘ میں  اشتیاق سے دریافت کرتاہوں۔
”نہیں۔ فلم ساز کو کوئی مشکل پیش آگئی تو پراجیکٹ ادھورا رہ گیا۔‘‘ والد صاحب ٹھہرے ٹھہرے” لہجہ میں جواب دیتے ہیں۔
”بس یہی بات حفیظ صاحب نے انھیں کہی تھی کہ اس پارٹی میں کچھ دم نہیں لگتا۔ اس لیے یہ پراجیکٹ چھوڑ کر کوئی اور کام تلاش کرنا چاہیے۔ بس یہ اتنے حساس ہیں کہ اتنی سی بات پر سب کچھ چھوڑ ریل گاڑی میں بیٹھے اور واپس لاہور آگئے کہ حفیظ صاحب یہ جتانے کی کوشش کررہے تھے کہ فلم کا کام اِنھیں اُن کی سفارش سے ملا ہے۔بس ایسے ہی ہیں ہیں۔‘‘ امی جان کہتی ہیں۔
”آپ پوری بات نہیں جانتیں بِل جی۔‘‘ والد صاحب سوچ میں ڈوبے ڈوبے پرسکون انداز میں کہتے ہیں۔
”تو بتائیے نا پوری بات۔۔۔۔اب تو اتنے برس ہوگئے اس واقعے کو۔ آخر ایسا کیا کہہ دیا حفیظ صاحب نے کہ آپ نے آو دیکھا نہ تاو اور واپس بھاگ آئے لاہور؟‘‘ امی جان صحن میں تنی رسّی پر دھلا ہوا دوپٹہ ڈالتے ہوئے پوچھتی ہیں۔
”کچھ نہیں۔ جو بیت گئی سو بیت گئی۔۔۔چھوڑیں اس بات کو۔‘‘ والد صاحب بات کو صاف ٹال گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭

”ایّا جی، یہ کس کی تصویر ہے؟ کافی لوگ کھڑے ہیں اس میں۔‘‘ میں ساہیوال میں اپنے ددھیالی گھر’اردو منزل‘ کے بڑے کمرے کی الماری میں پرانی چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے فہمیدہ پھوپھو سے پوچھتا ہوں۔ فہمیدہ پھوپھو کو ہم سبھی بچے ایّاجی کہتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے پھوپھی زاد بھائی جواد عزیز کو انھیں اسی نام سے پکارتے سنا ہے۔
ایّاجی نے بڑے سائز کی وہ تصویر میرے ہاتھ سے لے لی ہے اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مجھ سے پوچھتی ہیں:
”کیا تم پڑھ سکتے ہو اس گروپ فوٹو کے اوپر یہ انگریزی میں کیا لکھا ہوا ہے۔ تم ساتویں جماعت میں ہوگئے ہو۔اتنی انگریزی تو تمھیں آجانی چاہیے اب تک۔ لو پڑھو۔‘‘
میں گروپ فوٹو کے اوپردرج ہیڈنگ پڑھتا ہوں: ’’اسلامیہ کالج، لاہور‘‘۔
”ہاں، لاو اب اِدھر مجھے دو فوٹو۔میں بتاتی ہوں تھیں کہ اس میں ہے کون کون۔‘‘
میں تصویر انھیں لوٹا دیتا ہوں۔ وہ اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں شامل ایک ایک چہرے پر انگلی رکھ کے مجھے بتارہی ہیں:
”یہ دائیں طرف کھڑے ہیں حمید نظامی جنھوں نے بعد میں اخبار نوائے وقت شروع کیا۔ ان کے ساتھ ہیں شاعر ضمیر جعفری، جعفری صاحب کے پہلو میں کھڑے ہیں تاریخی ناول لکھنے والے نسیم حجازی اور ان کے ساتھ یہ ٹوپی اور زیروانی پہنے کون کھڑا ہے؟ پہنچانتے ہو اس چہرے کو؟“
اس سے پہلے کہ میں کچھ جواب دوں وہ کہتی ہیں: ’’ یہ ہیں ابوبشیر سید عبدالرشید یزدانی جالندھری میرے بھائی جان اور تمھارے پاپا۔۔۔اور ان کے ساتھ اِدھر بائیں جانب ان کے قریبی دوست میرزا ادیب ہیں۔۔۔اگلی قطار میں کرسیوں پر ان کے پروفیسر صاحبان بیٹھے ہیں۔ سب کے نام بھی فوٹو کے نیچے درج ہیں۔ تم پڑھ سکتے ہو انھیں۔“

”کیا میں اپنے ساتھ لاہور لے جاوں یہ تصویر؟“ میں جھجکتے جھجکتے ہوئے پوچھتا ہوں۔
ہاں ،ہاں لے جاؤ۔ مگر بہت احتیاط سے۔ یہ بہت پرانی ہے اس لیے کچھ خستہ بھی ہوگئی ہے۔ کہِیں اورخراب نہ ہوجائے۔‘‘ ایّا جی اجازت دیتے ہوئے کہتی ہیں اور جلدی سے باورچی خانے کی طرف بھاگتی ہیں جہاں انھوں نے سالن کی ہنڈیا چڑھا رکھی ہے۔ باقی سبھی سکو لوں کی طرح گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بھی گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے ہے اس لیے استانی صاحبہ یعنی ایّاجی ان دنوں گھر پر ہی ہوتی ہیں۔
ان کے کمرے سے جانے کے بعد میں قینچی اور چھری کی مدد سے بڑی احتیاط سے اس گروپ فوٹو میں سے والدصاحب کی فوٹو کاٹ کراپنے بیگ میں رکھ لیتا ہوں اور فوٹو کو واپس رکھ کر الماری کے چوپی کواڑ بند کردیتا ہوں۔
لاہور پہنچ کر بڑے جوش سے وہ تاریخی تصویر والد صاحب کو دکھاتا ہوں تو وہ اسے دیکھ کر چند لمحے خاموش رہتے ہیں یا شاید اداس بھی۔ پھر میری طرف دیکھ کر استفسار کرتے ہیں کہ” باقی فوٹو کہاں ہے؟” میں بتاتا ہوں کہ وہ تو ساہیوال ہی میں چھوڑ آیا ہوں کیونکہ اتنی بڑی تصویرسنبھال کر لاہور لانا مجھے مشکل لگا۔ اس پر وہ مسکراکرکہتے ہیں:
”یہ تصویر ان باقی چہروں کے ساتھ مل کر ہی مکمل ہوتی ہے۔‘‘
اب مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوتا ہے۔
”میں سمجھا آپ اپنی تصویر دیکھ کر خوش ہوں گے۔ بس یہی سوچا میں نے۔‘‘
”آپ کی سوچ اچھی تھی۔ ساہیوال سے وہ گروپ فوٹو منگواکر اس میں واپس لگا دیں گے۔ اداس نہ ہوں۔جو ہوگیا سو ہوگیا۔‘‘ والد صاحب میری دل جوئی کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply