کنگن۔۔عارف خٹک

وہ روز ہمارے گھر آتی تھی، اور ہم سارے بچے مل کر چھپن چھپائی کھیلتے تھے۔ اس کے سنہرے چمکیلے بال اور نیلی آنکھیں سب بچوں میں اس کو منفرد بناتی تھیں۔ ہم سب بچے اس کی خوبصورتی سے احساس کمتری میں آجاتے تھے۔ میری چچا کی بیٹیاں تو اس کےساتھ کھیلتی بھی نہیں تھیں  اور زیادہ تر اس کو گھر آنے سے منع کیا جاتا تھا۔ پشمینہ کے ماں باپ نہیں تھے وہ دور پار رشتے کے چچا کے پاس رہتی تھی۔ اماں بتاتی تھیں کہ مردان کے لوگوں  کی دشمنی سے لوگ پناہ مانگتے ہیں۔ خاندانوں تک کو مٹا دیتے ہیں۔ پشمینہ کے گھر والے بھی اسی  دشمنی  کے بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ کوئی اور رشتہ دار زندہ نہیں تھا سو چار سالہ معصوم پشمینہ کو ایک دور کے رشتہ دار نے رکھ لیا تھا وہ اپنے معصوم ہاتھوں سے سب گھر والوں کے کام کرتی تھی۔ ایک دن اس معصوم کا ہاتھ جھلسا ہوا تھا، ہمارے گھر آئی تو اپنا ہاتھ چھپانے لگی، اماں نے اس کا ہاتھ دیکھا تو ہائے کرکے رہ گئیں۔۔ اگلے لمحے اماں نے چادر پہنی اور اس کے رشتہ دار کے گھر چلی گئیں۔ اس کی چاچی کو خوب صلواتیں سنا کر آگئیں۔اس کے خوبصورت سنہرے بال میں نے ہمیشہ الجھے دیکھے۔ چہرے پر ایک نقاہت چھائی رہتی تھی۔ ہمارے گھر اس لئے زیادہ آتی تھی کہ  اماں اس کو ناشتہ یا کھانا کھلا دیتیں، نہلا دیتیں اور میری بہنوں کی اترن پہنا کر واپس بھیج دیتیں۔

کہتے ہیں کہ معصوم بچے پیار کی زبان سمجھتے ہیں،وہ بھی اماں کے پیار کو اچھی طرح جانتی تھی، مگر گھر میں موجود دوسرے بچے اس گڑیا سے خائف رہتے تھے، میں اس کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے گھنٹوں کھیلتا۔ پتہ نہیں کب کھیلتے کھیلتے ہم بچپن سے نکل گئے، سب کچھ بدل گیا۔ اس کی معصومیت اور خوبصورتی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی۔ اب میں ہر عید پر اس کے لیئے کپڑے، مہندی اور غازہ لےکر آتا تھا۔ کالج کی چھٹیوں میں اپنی بہنوں کو جب پشاور سیر کےلئے لےکر جاتا تو پشمینہ کو بھی ساتھ لےکر جاتا۔ اپنے جیب خرچ سے پشمینہ کیلئے سب کچھ خریدنے کی کوشش کرتا۔میرا بس نہیں چلتا تھا کہ ساری دنیا کی خوشیاں لا کر اس معصوم لڑکی کی قدموں میں ڈھیر کردوں۔ پشمینہ اتنے انہماک سے بازار کی رونقوں میں کھو جاتی کہ باقاعدہ اس کا کندھا ہلا کر ہوش کی دنیا میں واپس لانا پڑتا۔ ایک دن وہ پشاور صدر میں صراف کی دوکان کو غور سے دیکھنے لگی،تو میں اس کو دکان کے اندر لے کر چلا گیا۔ شوکیس میں رکھے خوبصورت زیورات کی چمک دمک انکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔ وہ ایک ٹک ایک کنگن کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کا کندھا ہلایا،
“پشمینہ دعا کرنا میں افسر بن جاوں تو یہ خوبصورت کنگن اپنے ہاتھوں سے تمہیں پہناوں گا”۔

وہ شرما کر دوکان سے بھاگ گئی۔ میں پشمینہ کو پسند کرنے لگا تھا۔ وہ بھی مجھے بہت پسند کرتی تھی۔ ایک دن شرماتے ہوئے اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے اس نے اپنے خدشے کا اظہار کرڈالا۔
“خان جی میں یتیم لڑکی ہوں۔ میری اتنی اوقات نہیں کہ آپ کے خواب دیکھ سکوں”۔
میں نے جذباتی ہوکر اس کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا۔
“پشمینہ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ کیا کہتے ہیں مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ خدا نے تمہیں صرف میرے لئے تخلیق کیا ہے”۔
وہ جھلملاتی معصوم انکھوں سے مجھے دیکھنے لگی۔
“خان جی خواب مت سجائیں میری آنکھوں میں، مجھے معلوم ہے میری اوقات کیا ہے”۔
دو موٹے  آنسو  اس کے خوبصورت گالوں پر لڑھک گئے۔ میں نے فوراً  اپنے ہاتھوں میں اس کے کومل چہرے کوتھاما،
“یاد رکھنا، اگر میری قسمت میں تم نہیں آئیں تو کسی اور کو بھی میری زندگی میں آنے کا کوئی حق نہیں”۔
میرے لہجے میں بلاکی مضبوطی تھی۔
وقت جیسے پر لگا کر اڑتا گیا۔ میں کالج سے یونیورسٹی ، اور یونیورسٹی سے فارغ ہوکر مقابلے کا امتحان پاس کرکے ایک سرکاری ادارے میں گریڈ سترہ کا آفسر لگ گیا۔ پہلی تنخواہ ملی تو پشاور رک کر اسی دوکان سے اس جیسا خوبصورت کنگن خریدا جو پشمینہ نے برسوں پہلے پسند کیا تھا،تاکہ پشمینہ کیساتھ بچپن کا اپنا کیا گیا وعدہ ایفا کرسکوں۔ گھر آیا تو سب گھر والے بہت خوش تھے۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ پشمینہ کو کسی طریقہ سے بلا کر قریب سے دیکھ لوں اور اپنے ہاتھوں سے اس کو کنگن پہنا دوں۔ کنگن میری جیب میں تھا۔
شام کے سائے گہرے ہونے لگے ، میری بے چینی بڑھتی گئی۔ بالآخر اپنی بہن کو بلایا اور پوچھاپشمینہ کہاں ہے؟۔ اس کے جواب نے گویا مجھ پر آسماں گرا دیا۔
“پشمینہ کی شادی ہوگئی ہے۔۔۔”
میرے حواس مختل ہوگئے۔
“بھائی جان اس کے ذلیل چچا نے ہمیں شادی پر بلایا تک نہیں”۔
میری تو دنیا اندھیر ہوگئی۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگاکر اڑتا رہا۔ بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ والدین بھی راہی عدم ہوگئے۔ بھائی تو کوئی تھا نہیں، سو والدین کا گھر بیچ کر سب بہنوں میں برابر حصہ بانٹ دیا اور میں شہر شہر نوکری کی وجہ سے رلتا رہا۔ اکیلا بندہ تھا۔ بہنوں نے بڑا زور دیا والدین بھی مرتے مرتے اپنی ضد پوری نہ کروا سکے کہ شادی کرلوں۔ اسلام آباد کے ٹھنڈے موسم سے جب جی گھبرانے لگتا تو گاڑی نکال کر کبھی لاہور یا کراچی کی پررونق شاموں میں خود کو کھونے کی ناکام کوشش کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسی ہی گرم شام تھی، میں لاہور کے ایک معروف پنج ستارہ ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ وقت گزاری کیلئے نیچے لابی میں آکر بیٹھ گیا۔ لوگوں کے چہروں کے مشاہدے کررہا تھا کہ اچانک میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اس چہرے کو تو لاکھوں کی بھیڑ میں بھی پہچان سکتا تھا۔ وہی نیلی انکھیں، وہی سنہرے چمکیلے بال اور خوبصورت قندھاری سیب جیسے گال۔ برسوں بعد پشمینہ میرے سامنے تھی۔ میں خودکار قدموں چلتا ہوا اس کے پاس گیا جو ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی بار بار اپنی گھڑی دیکھ رہی تھی جیسے کسی کا انتظار کررہی ہو۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ گاوں کی سیدھی سادی ان پڑھ پشمینہ آج جینز اور سلیولیس شرٹ پہن کر، ایک پنج ستارہ ہوٹل میں کر کیا رہی تھی۔ مگر یہ وقت ان باتوں کو سوچنے کےلئے نہیں تھا۔ میں نے غیر ارادی طور پر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔
“پشمینہ۔۔۔”
اس کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس کی خوبصورت آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔ ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔
“خان جی۔ ۔۔ آپ”۔ اتنا کہہ کر وہ خودکو ڈھکنے کیلئے کچھ ڈھونڈنے لگی۔ مگر ایسا کچھ تھا ہی نہیں جس سے وہ خود کو ڈھانپ سکتی۔،بے بسی سے اس کی آنکھوں سے اشکوں کاایک سیل رواں ہوگیا۔
صبح کے سات بجے گئے۔ میں پچھلے آٹھ گھنٹوں سے ہمہ تن گوش اس کو سن رہا تھا۔ اس کے چچا نے مبلغ پانچ لاکھ روپے میں اس کو کسی کو بیچا۔ جس نے پہلے اسلام   آباد لاکر اس سے دھندہ کروایا۔ خوبصورت تو وہ تھی ہی، لہذا اس کا نام چاردانگ پھیل گیا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس دلدل سے نکلے، مگر پیچھے کوئی تھا ہی نہیں کہ اس کی حفاظت کرتا۔ میرا خیال آتے ہی وہ مزید کمزور ہوجاتی کہ کہیں میں اس کا قتل ہی نہ کردوں، اس لئے وقت کے بہاؤ پر خود کو چھوڑدیا۔
اس نے جانے کیلئے اپنا پرس اٹھایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
“میں نے اپ کابہت وقت برباد کرڈالا خان جی” خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی جیسے اجازت کی طلبگار ہو۔ میں ایک ٹک اس کے صبیح چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
“خان جی اس ناکردہ جرم کی معافی مانگ سکتی ہوں؟”۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے سامنے جوڑ دیئے۔ میں بے ثاثر چہرے کیساتھ خاموشی سے سامنے دیوار گیر گھڑی کو تک رہا تھا۔ وہ جیسے ہی مجھ پر الوداعی نظر ڈال مڑ کر جانے لگی۔ میں اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ ہراساں نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔
“یاد ہے پشمینہ ، ایک بار تم سے کہا تھا کہ تمہاعے بعد کسی کو حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ تمہاری جگہ لے سکے۔پندرہ سالوں سے تمہارے اس کنگن کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ کب ملوگی اور کب تم کو یہ کنگن پہناوں گا”۔
مجھے اپنی آواز اجنبی اجنبی سی لگی۔
وہ پھٹی پھٹی  آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگی، اچانک اس کے ہونٹ تھرا سے گئے، اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھا۔
“خان جی۔۔ ۔۔ کیا ابھی تک۔۔ ۔ میرا مطلب کہ آپ ابھی تک میرا انتظار کررہے ہیں؟”۔
میں نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اثبات میں ہلایا۔اور اپنی جیب سے کنگن نکال اس کے ہاتھوں میں پہنانے لگا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply