• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جی ایس پی پلس سٹیٹس اور گورنر پنجاب۔۔آغرؔ ندیم سحر

جی ایس پی پلس سٹیٹس اور گورنر پنجاب۔۔آغرؔ ندیم سحر

یورپی پارلیمنٹ نے اپریل کے آخر میں ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی تھی جس میں پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس پر نظرثانی کرنے کا کہا گیا تھا۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایسے قوانین ہیں جو اقلیتوں اور بنیادی حقوق کے منافی ہیں‘قرارداد کے متن میں واضح کیا گیا کہ یورپی یونین یا دیگر مغربی ممالک اقلیتوں کے لیے پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک سمجھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اقلیتیں تو ایک طرف پاکستان اپنے شہریوں کو بھی بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ بھی قرارداد میں پاکستان کے بارے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ہم نظرثانی کے بعد فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کو جی ایس پلس کا حصہ رکھا جائے گا یا نہیں۔ہم ان تحفظات پرآگے چل کر بات کریں گے، پہلے ہم جی ایس پی کے بارے میں جان لیتے ہیں۔

1971ء میں اقوامِ  متحدہ کی کانفرنس ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے ایک قرار دار منظور کی تھی جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یورپی ممالک ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ان ممالک کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی دے گا۔جس کے بعد جرنلائزڈ سکیم آف پریفرینس(جی ایس پی)کا آغا زہوا۔جرنلائزڈ سکیم آف پریفرینس کے تحت یورپی منڈیوں تک پہنچنے والی مصنوعات کے ڈیوٹی ٹیرف کو ختم یا ان میں کمی کر دی جاتی ہے۔

اس سکیم کے تین مرحلے ہیں جس میں بنیادی جی ایس پی،جی ایس پی پلس اور ایوری تھنگ بٹ آرمزیعنی اسلحے کے علاوہ سب شامل ہیں۔پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013ء میں ملا تاہم اس کے فوائد یکم جنوری 2014ء سے 2017ء تک ڈیوٹی فری رسائل کے طور پر حاصل ہوئے۔جن میں بعد ازاں دو مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے۔پاکستان کی ایسی دو تہائی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے‘اسے کم کر کے صفر کر دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔جس ملک کو بھی یہ درجہ دیا جاتا ہے اسے انسانی حقوق،مزدوروں کے حقوق،ماحولیات کے تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کرنی ہوتی ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا ہوگا جبکہ جبری یا رضاکارانہ مشقت، چائلڈ لیبر،جنس،رنگ و نسل اور عقیدے کی بنیادی امتیازی طرزِ عمل کو بھی ختم کرنا ہوگا۔جی ایس پی سہولت سے فوائد حاصل کرنے والے ممالک میں اگر کوئی بھی ملک ان   27معاہدوں کی خلاف ورزی کرے گا تو یورپی یونین اس ملک کو دی جانے والی اس سہولت پر نظرثانی کی مجاز ہے،صرف یہی نہیں بلکہ ان معاملات پر یورپی یونین کو مانیٹرنگ اور اس کی رپورٹنگ کو بغیر تحفظات کے ماننا ہوگا اور اپنا تعاون بھی پیش کرنا ہوگا۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ پاکستان کو 2014ء میں جی ایس پی کے فوائد ملنا شروع ہوئے جن میں دو مرتبہ توسیع ہوئی۔پاکستان اس سے پہلے یورپی مارکیٹ کے لیے 2002ء سے2004ء کے درمیان جی ایس پی سکیم کے فوائد سمیٹتا رہا ہے مگر جی ایس پی پلس پاکستان کے لیے اس وقت ختم کر دی گئی جب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)میں اس کو چیلنج کیا گیا اور ایسے میں پاکستان کو اس سہولت سے محروم کر دیا گیا۔

وزارت تجارت کے مطابق 2014ء سے جی ایس پی پلس کے آغاز سے ہی یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات میں 65فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ یورپی یونین سے درآمدات میں 44فیصد اضافہ ہوا۔وزارت خزانہ کے 2019-20کے اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت میں کمی کے باوجود پاکستان یورپی منڈیوں میں اپنی تجارت بڑھانے میں کامیاب ہوا۔ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے ساتھ یورپی یونین کو برآمدات میں 6اعشاریہ 9فیصد اضافہ ہوا۔معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق ”پاکستان یورپی منڈیوں میں کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ وہاں سے درآمدی بل پانچ ارب ڈالر کا ہوتا ہے۔دنیا کے بہت کم ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم مثبت رہتا ہے اور ہمیں وہاں خسارہ نہیں ہوتااور ان ممالک میں امریکہ اور یورپ نمایاں ہیں۔ہمارا یورپ کے ساتھ کم وبیش تین ارب ڈالر کا سرپلس ہے“۔

معاشی تجزیہ کاروں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہم تقریباً  باقی تمام ممالک کے ساتھ تجارتی خسارے میں ہیں ، سوائے یورپ اور امریکہ کے‘اگر یورپی  یونین جی ایس پی پلس سٹیٹس کی سہولت واپس لیتی ہے تو ڈر ہے کہ یہ سر پلس ختم ہو جائے گا‘یہی وجہ ہے کہ اس وقت جی ایس پی پلس کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔

گورنر پنجاب بیس اکتوبر تک یورپ کے دورے پہ ہیں‘ان کا بنیادی مقصد یورپی پورلیمنٹیرینز سمیت اقوام متحدہ کے اہم ممبران سے ملاقاتیں اور انھیں پاکستان کی موجودہ معاشی اور سماجی صورت حال سے آگاہ کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے کہ پاکستان میں جہاں اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات اور حقوق دیے جا رہے ہیں وہاں اقلیتوں کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہے‘ان کو نوکریوں سے لے کر تجارت اور عبادات تک مکمل آزادی ہے اور انھیں پاکستان کا شہری سمجھا جاتا ہے۔دنیا  کی وہ لابیاں جو ہر دور میں پاکستان کی تری کے خلاف منفی پراپیگنڈہ  کرتی رہیں‘آج  اُن کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومتِ وقت نے اس کام کے لئے گورنر پنجاب کو اپنا نمائندہ بنا کر یورپ بھیجا ہے کیونکہ وہ یورپ کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے اور جانتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان میڈیا رائٹرز کلب کے ممبران کی چیئرمین افتخار خان کی سربراہی میں گورنر پنجاب چودھری سرور سے ون ٹوون ملاقات ہوئی‘ملاقات میں راقم بھی موجود تھا اور گورنر پنجاب نے کلب کے ممبران کو جی ایس پی اپلس اور یورپی یونین کے تحفظات کے بارے تفصیلی آگاہ کیا اور اپنے دورہ یورپ کے مقاصد بھی بتائے۔گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ اس وقت یورپی یونین کو اس بات کی یقین دہانی کراناناگزیر ہے کہ پاکستان اپنے شہریوں کو بلاتعصب اوربلا مسلک و مذہب مکمل حقوق دے رہا ہے‘پاکستان کے خلاف منفی بیان بازی کرنے والی معاشی طاقتوں اور ڈپلومیٹک ممالک کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے‘یہاں کسی بھی طرح کے شر پسند عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا،پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہے‘ایسے میں یورپی یونین کا جی ایس پی پکس سٹیٹس پر تحفظات کا اظہار قابلِ تشویش ہے اور پاکستان کے لیے  معاشی خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply