تقسیم اور تہذیب/انعام رانا

وہ ہندوستان کے ایک ایسے بڑے مذہبی و علمی گھرانے کا فرد تھا جس نے پورے برصغیر کو متاثر کیا، حتی کہ آج کے پاکستان میں بھی کئی لوگ خود کو اسی گھرانے سے منسلک کرتے ہیں۔ چہرے پہ کرب اور آواز میں لرزش لیے وہ بتا رہا تھا کہ مودی سرکار میں کیسے جینا دوبھر ہو چکا اور اب باہر نکلتے بھی ایک خوف محسوس ہوتا ہے۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ برطانیہ میں اسائلم کیسے کیا جا سکتا ہے اور میں درد میں ڈوبتا جا رہا تھا۔ وہ اس گھر کا فرد تھا جس نے تقسیم کی مخالفت کی تھی، ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور آج اسی تقسیم کا خراج ادا کر رہا تھا یا شاید ہمیشہ ہی کرتا رہا تھا۔

علامہ اعجاز فرخ حیدرآباد دکن کے ادیب ہیں، بھرپور زندگی گزار کر اسَی برس کے قریب ہو چکے مگر دماغ اور قلم نوجوان ہے۔ اس وقت ان سے زیادہ مسحورکُن اردو نثر شاید ہی کوئی لکھ رہا ہو۔ اک دن دوران گفتگو تہذیب پہ بات کرتے ہوئے فرمایا کہ انعام میاں اردو فقط زبان کب تھی، یہ اپنے آپ میں ایک تہذیب تھی۔ پاکستان نے اپنی سرکاری زبان اردو بنائی اور سرزمین ہند سے اردو تہذیب کی فنا کی بنیاد پڑ گئی۔ کیونکہ اب اردو ہندوستان کی ایک زبان نہیں،پاکستان کی سرکاری زبان تھی۔

صاحبو! یہ سیاسی سوال کہ پاکستان کا بننا درست تھا یا نہیں، ایک سے زائد جواب رکھتا ہے اور کئی پہلو بھی۔ مگر اس تقسیم نے جو سماجی بدلاؤ پیدا کیے وہ ہرگز مسلمان اور اسکی تہذیب کیلئے سودمند ثابت نہ ہوئے۔ لیکن ذرا مزید ماضی میں چلیے۔

برصغیر ہندوستان کبھی بھی ایک مکمل اکائی یا ایک سنٹرل حکومت کا سرنگوں نہ  رہا تھا۔ یہاں آرین دور سے باہر سے لوگ آتے رہے، یہاں بستے رہے اور ایک تہذیب کو جنم دیتے رہے۔ پھر مسلمان حملہ آوروں کی آمد شروع ہوئی۔ اکثر تو فقط لوٹ مار کو ہی آئے کہ انکی اپنی زمینوں پہ بھوک اُگتی تھی اور ہندوستان ہر دولت سے مالامال تھا۔ مگر ان کے ساتھ آنے والوں میں سے کئی یہیں بستے گئے۔ صوفیا بھی، فنکار بھی اور دست کار بھی۔ پھر خلجی نے یہاں پنچایت کے قدیمی نظام کو بحال کر کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ مقصد فقط لوٹ مار نہیں۔ مسلم تہذیب کا دور زریں مگر مغل دور ہی قرار پائے گا جنہوں نے اسے یوں اپنا وطن بنایا کہ پیچھے کی یاد ماند پڑ گئی۔ سینکڑوں سال بعد ایک ایسی تہذیب وجود میں آ چکی تھی جہاں مسلمان اقلیت ہونے کے باوجود غالب رنگ رکھتا تھا۔

اگر ہم چالیس کی دہائی کے قریب آئیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ مسلم تہذیب قائم تھی۔ اردو اور فارسی کا چلن فقط مسلم نہیں غیر مسلم گھرانوں میں بھی تھا۔ رنجیت سنگھ کی ایک مکمل مقامی پنجابی حکومت میں بھی سرکاری کام بہ زبان فارسی ہوتے رہے تو انگریز کی آمد کے بعد بھی اردو پنجاب کے علمی گھرانوں کی زبان قرار پائی۔ چنانچہ فقط یو پی یا دکن ہی نہیں بلکہ پنجاب تک میں ایک اردو تہذیب جوبن پہ تھی۔ اور یہ ملک کے کئی حصوں کو باہمی طور پہ جوڑے ہوئے تھی۔

دوسری جانب، ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی مسلمان صدیوں سے جاگیردار اور زمیندار گھرانوں کے طور پہ موجود تھے۔ انکی حاکمیت کمزور ہو کر بھی اخلاقی وجود ضرور رکھتی۔ لیکن پھر ایک مخصوص اشرافیہ میں خوف پیدا ہوا، اکثریت کا خوف۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ خود مکمل بے بنیاد تھا مگر اسے ایک ہوّا بنا دینا بھی زیادتی تھی۔ ہندو اور مسلمان دیگر قوموں کے ساتھ ساتھ اس زمین پہ عرصے سے موجود تھے۔ کہیں کوئی مضبوط تھا تو کہیں کچھ کمزور، انفرادی طور پہ مسائل موجود تھے مگر وسیع تناظر میں اس صدیوں میں بنی تہذیب میں سب بطور ایک قوم محفوظ تھے۔ ہزار سال سے بطور اقلیت موجود مسلمان انگریز سرکار کی امان کی غیر موجودگی کا تصور کر کے خوفزدہ ہو گیا۔ اشرافیہ کو یہ لگا کہ اگر کچھ کیا نہ  گیا تو شاید وہ اکثریت جس پہ وہ بادشاہی کرتے آ رہے ہیں انھیں کھا جائے گی۔ اسی اشرافیہ کی اکثریت سیاست میں موجود تھی سو اسے ایک سیاسی سوال بنا دیا گیا۔

اگر ہم اس وقت کے ہندوستان کی قومی تقسیم دیکھیں تو موجودہ پاکستان میں سوائے پنجاب کے مسلمان بھرپور اکثریت میں تھے۔ پنجاب میں قومی تقسیم مسلم، ہندو اور سکھ کے درمیان ایسی تھی کہ یہاں کوئی بڑا مسلئہ پیدا ہونا مشکل تھا۔ دوسرا یہاں حکومت کی ترتیب ہمیشہ ایسی رہی کہ سرکاری مزاج سیکیولر تھا۔ بنگال میں بھی مشرقی اور مغربی بنگال کی تقسیم میں دونوں بڑی قومیں دوسرے فریق کو زیادتی سے روکنے کا باعث بن سکتی تھیں۔ جنوبی ہند میں مسلمان بہت کم تھے مگر مذہب وہاں آج بھی انتہائی نجی چیز مانا جاتا ہے اور وہ نسلی شناخت کو مذہبی شناخت پہ اہمیت دیتے ہیں۔ کشمیر میں مسلم اکثریت تھی۔ بات مگر یو پی بہار اور دکن پہ آ کر گنجلک ہو جاتی تھی۔ یہاں مسلمان اقلیت میں ضرور تھا لیکن یہاں کی تہذیب میں اسکا رنگ اس قدر مضبوط تھا کہ اسکی مکمل نفی کبھی ممکن نہ ہو پاتی۔ ہم نے دیکھا کہ تقسیم کے بعد بھی کئی بڑے گھرانے جنہوں نے ہجرت نہیں کی، اپنا کچھ نا کچھ اثر رکھتے رہے۔ راجستھان کے لوگ صدیوں سے مغل سرکار کے رشتہ دار بھی رہے تھے اور سرکار کا حصہ بھی۔ سو وہاں بھی صورتحال بہت زیادہ خراب نہ تھی۔ ہندو توا کا ایک بڑا گڑھ مہاراشٹرا تھا جو شیوا جی اور مراٹھا جنگجوؤں کی یادگار تھا۔

یہ سوال سیاسی تاریخ کا اہم سوال رہے گا کہ پاکستان کا مطالبہ کیا واقعی ایک حقیقی مطالبہ تھا یا بطور اقلیت مسلمانوں کیلئے بعد از آزادی نظام میں زیادہ سے زیادہ ضمانت لینے کیلئے قائداعظم اسے بطور بارگیننگ چپ استعمال کر رہے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سَن چھیالیس تک تو قائداعظم کرپس مشن کی سفارشات ماننے پر بھی تیار تھے۔ اور عین تقسیم کے وقت مسلم لیگ کی تیاری کی حالت یہ تھی کہ وہ اس بات کا جواب بھی نہیں رکھتے تھے کہ پنجاب کی تقسیم تحصیل کی بنیاد پہ ہو گی یا ضلع کی بنیاد پر۔ تقسیم ہند کا قصوروار ہمیشہ قائداعظم کو ٹھہرانے کی کوشش کا جواب خود کئی بار ہندوستان کے مورخین کی جانب سے بھی دیا جا چکا جو تقسیم کو نہرو جی اور سردار پٹیل، جو دوسری جانب کی اشرافیہ کے نمائندے تھے، کی شعوری کوشش بتاتے ہیں۔

تقسیم کے بعد یہ ممکن ہی نہ تھا کہ برصغیر میں موجود ہر مسلمان کو پاکستان میں سمیٹ لیا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر علاقے سے مسلم اشرافیہ کی اکثریت پاکستان کو کوچ کر گئی اور پیچھے انکو چھوڑ آئی جو نظام میں پہلے ہی کمزور پیادے تھے۔ اسی اشرافیہ کی موجودگی انکا حوصلہ ہُوا کرتی تھی اور انکا تحفظ بھی۔ صدیوں سے موجود یہ پردہ جو ہٹا تو وہ وقت کی دھوپ کے آگے مکمل برہنہ تھے۔ دوسرا وہ تہذیب کے یہ علمی و سماجی اشرافیہ جسکا اہم حصہ تھی، جب جگہ خالی کر گئی تو تہذیب اپنے ہی قدموں پہ ڈھے گئی۔ خالی جگہ کو ان عناصر نے پر کیا جن کے دماغ پہ صدیوں کی غلامی کی یاد تھی یا دل پہ تقسیم ہند کے گھاؤ۔ آج مسلمان ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں مگر کسی گنتی میں نہیں ہیں کیونکہ وہ تعلیم، سیاست اور تہذیب میں اب  غالب رنگ نہ  رہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں پہ ہوئے کسی ظلم کے نتیجے میں ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ چلتا ہے کہ شکر ہے قائداعظم نے پاکستان بنا لیا اور ہم بچ گئے۔ مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔ ذرا چشم تصور سے ایک ایسے ہندوستان کا تصور کیجیے جہاں مکمل جمہوری نظام، اشرافیہ جس سے شدید خوفزدہ تھی، قائم ہے اور ریاستیں موجود ہیں۔ سوچیے ہندوستان کی لوک سبھا اور راج سبھا میں پشاور، کوئٹہ، لاہور، کراچی، کشمیر، سے نمائندے موجود ہیں، بنگال، دکن، یو پی، سی پی اور مہاراشٹرا سے بھی مسلم نمائندگی موجود ہے۔ ایسے میں کوئی بھی جمہوری نظام کسی بھی صورت کسی ایک مذہبی اکثریت کو مسلط کر ہی نہیں سکتا۔ خانہ جنگی کا خوف غالب رہتا ہے۔ دوسرا مسلم تہذیب سماج میں اس قدر قدیم اور گہری جڑ پکڑ چکی تھی کہ اسکی نفی کرنا آسان نہ ہوتا۔ ہاں انفرادی واقعات ہوتے، سر پھٹول ہوتی، گاہے گاہے فسادات بھی ہو جاتے جیسے ہمیشہ سے ہوتے رہے تھے مگر مسلمان تہذیب کو مٹانا ممکن نہ ہوتا۔ تقسیم نے ہندوستان میں موجود مسلمان کو شدید   دفاعی انداز پہ مجبور کیا، اکثریت نے انکو دبانے مٹانے کی مکمل کوشش کی، مگر کیا آج بھی وہ مٹ پائی؟ وہیں اگر آج کے پاکستان کی مسلم اکثریت کا سیاسی عمل دخل اور سماجی اثر بھی موجود ہوتا تو صورتحال کیا ہوتی؟

شاید مسلم لیگ کی قیادت بھی تقسیم نہیں چاہتی تھی اور اگر چاہتی تھی تو اسکے اثرات کا مکمل ادراک نہیں رکھتی تھی۔ خطوں کی جغرافیائی سرحدیں ہمیشہ بدلتی رہی ہیں اور بدلتی رہیں گی، لیکن تہذیبیں ہزار ہا سال میں شکل بنا پاتی ہیں۔ ہم نے پورے برصغیر سے وہ مسلم تہذیب جو ہزار سال میں بن پائی تھی، پاکستان میں سمیٹنے کی کوشش کر کے اسے پامال کر دیا۔ اور رہی وہ اشرافیہ جو اس میں پیش پیش تھی، یہاں آ کر بھی وقت کے تغیر سے نہ  بچ پائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مصنف کی کتاب”بیانیے کی مومی ناک”سے لیا گیا مضمون

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply